زبان چلانے میں وہ خوب ماہر ہے

21

آخر فل سٹاپ لگانا ہی پڑے گا ورنہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔ دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا۔ سری لنکا کی باتیں ہو رہی ہیں اور مہاتما کی یہ خواہش شدید ہو گئی ہے کہ پاکستان کسی طرح اس فیز میں چلا جائے کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ ہو اور مجبوری میں انہیں کہا جائے کہ عالی جاہ ملک حاضر ہے۔ 2018 میں بھی انہیں یہی کر کے دیا گیا تھا کہ عالی جاہ تشریف لائیں یہ ملک آپ کو عطا کیا جاتا ہے اس کے سیاہ و سفید کے آپ مالک ہیں۔ نظام سقہ کو حکومت ملی تھی تو اس نے چمڑے کے سکے چلا دیے تھے اس مہاتما کو حکومت ملی تو اس نے ہر نالائق کو اٹھا کر حکومت میں بٹھا دیا۔ شہر یار آفریدی، گنڈاپور، فواد چودھری، شہباز گل سے لے کر زلفی بخاری تک سب کا پورٹ فولیو آپ کے سامنے ہونا چاہیے۔ ایسا ایسا شخص وزیر بنا جسے ایڈمنسٹریشن کی الف ب نہیں آتی تھی۔ آج ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو کیا یہ ان دو تین مہینوں کی وجہ سے ہے۔ حضور آپ ملک کا بیڑا غرق کر کے گئے ہیں۔ اخلاقی طور پر تو آپ نے اپنے کارکنوں کا بیڑا غرق کر دیا تھا معاشی طور پر آپ اس ملک کو دیوالیہ کرنے کا مکمل بندوبست کر کے گئے تھے۔ پی ٹی آئی کی ایک دیوانی کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں موصوفہ فرماتی ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کی خواتین کو ان کے شوہر پارٹی چھوڑنے کا کہیں تو انہیں چھوڑ دیں وہ ان کے لیے پی ٹی آئی کے بندوں کا بندوبست کر دیں گی۔ یہ محترمہ کس یونیورسٹی کا سلیبس پڑھ کر یہاں تک پہنچی ہیں۔ ان کا جلسہ ایک شو بن جاتا ہے اور لوگ ناچنے کے لیے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ کون سی خواتین ہیں جو دیوانہ وار محو رقص ہو جاتی ہیں اور دیوانگی میں حد سے گزر جانا چاہیے والے مصرعہ کو مکمل شعر بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کہ کیا عمران خان جیسا شخص کسی یورپی معاشرے میں وزیر یا صدر کے عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو آزادیاں وہاں کے عام فرد کو حاصل ہیں وہ ان کے لیڈروں کو حاصل نہیں۔ بل کلنٹن کا کیس یاد ہے اور یہاں اس قسم کی کئی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پریس کانفرنس میں یہ کہا ہے کہ پاکستان مشکل صورتحال سے نکل رہا ہے مگر اب بھی حالات خراب ہیں۔ آئی ایم ایف نے قرض دینے پر اتفاق کر لیا ہے لیکن پاکستان کو بطور ریاست کسی جگہ تو فل سٹاپ لگانا پڑے گا۔ یہ قرضے ایک نہ ایک دن واپس تو کرنا ہیں۔ پاکستان اس وقت جس مشکل سے دوچار ہے اس سے نکلنے کے لیے قرضہ ضروری ہے مگر حکومتوں کو اس روش کو ختم کرنا پڑے گا اور اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونے کی پالیسی اختیار کرنا ہو گی اور اس کا ایک ہی فارمولہ ہے کہ اپنی برآمدات کو درآمدات سے زیادہ کیا جائے اور ان شعبوں پر زیادہ توجہ دی جائے جہاں سے ڈالر پاکستان میں آئے۔ آئی ایم ایف نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ اس نے پاکستان کو ایک ارب سترہ کروڑ روپے فوری طور پر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر جیری رائس نے واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ یہ پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے پر ایک معاہدہ ہے، جس کے نتیجے میں فوری طور پر پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پروگرام کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی مجموعی رقم تقریباً 4 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ جیری رائس نے کہا کہ معاہدہ پاکستان کے لیے مزید فنڈنگ کو بھی کھول سکتا ہے، جو حالیہ ہفتوں کے دوران ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ایک امریکی اخبار کی رپورٹ میں حکومت کے اس خدشے پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کی گئی اصلاحات، عوامی ردعمل کو جنم دے سکتی ہیں جو اگلے عام انتخابات میں ن لیگ کی کامیابی کے امکانات کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس آئی ایم ایف کی رقم سے ادائیگیوں میں توازن پیدا ہونے میں مدد ملے گی اور پاکستان کی معیشت جس دباؤ کا شکار ہے پاکستان اس سے بھی باہر نکلے گا۔ مگر آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی اس خیرات پر کلی انحصار ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات اٹھانا ہوں گے جس سے پاکستان سے باہر جانے والے پیسے کو روکا جا سکے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہو سکے۔ اس حال میں ملک ایک تسلسل کے بعد پہنچا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ ہم نے قرضوں کے حوالے سے یہی تصور کیے رکھا کہ باہر سے قرضہ لے لیں کونسا واپس کرنا ہے؟ امریکی تو کسی کو مفت میں کھانے کا نہیں پوچھتے۔ آپ کو مفت میں کیونکر ڈالر دیں گے۔ انہی امریکیوں سے مہاتما بھی قرض لیتے رہے اور پھر کہنے لگے کہ امریکہ نے اس کے خلاف سازش کی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں اس غبارے میں سے ساری ہوا نکال دی ہے لیکن یوتھیے اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے نزدیک فوج اور عدالتیں سب سازش میں شریک ہیں۔ پاکستان کی فوج کے جرنیل، معزز عدلیہ کے جج صاحبان سب غیر محب وطن اور ایک یہ محب وطن۔ سچ پوچھیں تو افسوس ہوتا ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا کے چند لوگوں کو خرید کر اور ان پر پیسہ لگا کر آپ ملک کو فتح کر سکتے ہیں۔ بزرگوار راحت بابر نے دس بارہ سال پہلے یہ کہا تھا کہ اس ملک کے چالیس پچاس لوگوں کو خرید لو سب کچھ آپ کے ہاتھ میں آ جائے گا اور مہاتما نے یہی کیا ہے۔ ویسے مہاتما نے کیا کرنا تھا اس کے پیچھے جو لوگ تھے انہوں نے سب انتظام کیا تھا۔ ویسے یہ خاکسار بخوبی جانتا ہے کہ عمران خان نے جب سیاست کا آغاز کیا تھا تو صحافت میں بڑے بڑے ناموں کو خرید لیا تھا وہ باقاعدہ ان کے فنڈ حاصل کرتے تھے اور عمران خان کی امیج سازی کے عمل میں شریک ہوتے۔ اس ٹولے میں سے محض شیریں مزاری ان کے ساتھ چل رہی ہیں مگر جس جس نے ان کا نمک کھایا ہے وہ اب بھی اپنی بساط کے مطابق نمک حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت کون فنڈنگ کر رہا تھا اور پیسہ کہاں سے آ رہا تھا سب جانتے ہیں۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، شہر تو سارا جانے ہے۔
آئی ایم ایف سے پیسہ لینا اتنا آسان نہیں اس کے لیے کڑی شرائط عائد ہوتی ہیں اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ان شرائط کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایسے ممالک کی تعداد 38 کے قریب ہیں جو شدید معاشی بحران سے دوچار ہیں۔ اس ملک کے وزیراعظم کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جو فخر سے کہتا تھا کہ ملک میں موٹر سائیکل کی خریداری میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور وہ اسے اس بات سے جوڑ رہے تھے کہ لوگوں کی قوت خرید بڑھی ہے۔ اس بات پر ذرا بھی توجہ نہیں دی گئی کہ یہ سارا اس لیے ہو رہا ہے کہ ان کے دور میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ناکام ہو گیا اور لوگوں کو اپنے سفر کے لیے اپنی سواری کا بندوبست کرنا پڑا۔ سستا ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بے تحاشا گاڑیاں سڑکوں پر آ گئی جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی بڑھی اور دوسری طرف پٹرول کی کھپت میں اضافہ ہو گیا۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی امپورٹ کروڈ آئل اور کھانے کا تیل ہے۔ یہی دو آئٹمز پاکستان کے تجارتی خسارے کو بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ اس امپورٹ کو کم کرنے کے لیے فل سٹاپ لگانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تمام بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی چاہیے۔ محض باتیں نہیں لانگ ٹرم منصوبہ بندی کریں۔ سولر کا آپشن بہت اچھا ہے اور بجلی پیدا کرنے اس کو پوری طرح استعمال میں لانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ باتیں کرنے کا وقت گزر گیا۔ مسٹر خپل کا دور چلا گیا اب کچھ کر کے دکھانا پڑے گا۔
آخر میں بھارتی شاعرہ کی غزل کے دو شعر
سنہرے خواب دکھانے میں خوب ماہر ہے
وہ بے وقوف بنانے میں خوب ماہر ہے
وطن چلانا تو اس آدمی کے بس کی بات نہیں
مگر زبان چلانے میں خوب ماہر ہے

تبصرے بند ہیں.