آج پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، چند ماہ پہلے پنجاب اسمبلی میں ایک تبدیلی آئی اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تحریک انصاف کے 25 منتخب اراکین اسمبلی نے اپنی پارٹی سے بغاوت کر دی اور اس طرح وہ اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔ منحرف اراکین نے بھی حمزہ شہباز کو ووٹ دیئے۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں منحرفین کو الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کر کے 20 نشستوں پر انتخابات کا اعلان کیا جبکہ دیگر پانچ خصوصی نشستوں پر چنے گئے اراکین کی خالی کردہ سیٹوں پر نئے ممبران نامزد کر دیئے گئے۔
تحریک انصاف کے عمران خان اور ن لیگ کی مریم نواز نے بھرپور انتخابی تحریک چلائی۔ قومی رہنمائوں کی انتخابی مہم میں شرکت کے باعث، خاصی گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔ بڑے بڑے جلسے ہوئے، دھواں دھار تقاریر ہوئیں، جلسوں کو کامیاب اور بھرپور بنانے کی جتنی کاوشیں ہوئیں اس سے زیادہ جلسوں کو کامیاب اور بھرپور دکھانے کی سعی بھی کی گئی۔ ضمنی انتخابات میں عام انتخابات جیسا سماں نظر آیا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ضمنی انتخابات اور ان سے متعلق معاملات چھائے رہے، سوشل میڈیا پر بھی ان کی یلغار رہی۔
ایسے ہی پس منظر میں آج انتخابات ہو رہے ہیں۔ ووٹنگ کا عمل آج شام تک مکمل ہو جائے گا اور آج رات تک نتائج سامنے آ جائیں گے۔20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات، بنیادی طور پر پی ٹی آئی کے بیانیے اور مسلم لیگ کی کارکردگی کے درمیان مقابلے کی صورت میں منعقد ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ ماضی میں اپنی کارکردگی، تعمیراتی سرگرمیوں کے اجرا، ترقیاتی پروگراموں کی تکمیل، موٹرویز بنانے، ٹرینیں چلانے، پاور پلانٹ لگانے، لوگوں کو روزگار مہیا کرنے، سی پیک کو اٹھانے اور ایسے ہی دیگر کاموں کے حوالے سے عوام کے دلوں میں جگہ رکھتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے ساتھ ایک اور بات بھی وابستہ ہے اور وہ ہے الیکشن لڑنا اور بھرپور انداز میں لڑنا۔ مسلم لیگ ایک طویل عرصے سے میدان سیاست میں ہے پہلے دو بھائی محمد نوازشریف اور محمد شہباز شریف میدان عمل میں تھے اب ان کے بیٹے، بیٹیاں بھی کارزارِ سیاست میں موجود ہیں۔ حمزہ شہباز کے بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں لیکن مریم نواز Crowd Puller یعنی ہجوم اکٹھا کرنے کے حوالے سے شہرت پا چکی ہیں انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنی شخصیت کا لوہا بھی منوا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے دیرینہ ساتھیوں کی ایک کھیپ بھی ہے جو میدانِ عمل میں فعال ہے۔ بیوروکریٹ اور سرکاری اہلکاروں کی ایک معتمد بہ تعداد بھی مسلم لیگ کی خوشہ چین ہے مسلم لیگ انتخابی مہم بھی سائنٹیفک انداز میں چلاتی ہے اور ووٹنگ کے عمل کو بھی منجھے ہوئے انداز میں چلاتی ہے مروجہ طور اطوار سے بھی بخوبی واقف ہے ۔
دوسری طرف پی ٹی آئی بھی کچھ کم نہیں ہے یہ جماعت فکری اعتبار سے خاصی فعال ہے۔ عمران خان ہئیت حاکمہ کے خلاف یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کرپٹ ہے اور پاکستان کے مسائل ایسی ہی اشرافیہ کی حکمرانی کے باعث ہیں۔
پاکستان اگر معاشی لحاظ سے کمزور ہے تو اس کی وجہ اشرافیہ کا وسائل پر قابض ہونا ہے۔ ان کا یہ بیانیہ رائج الوقت سیاست دانوں اور سیاسی خانوادوں کے خلاف خاصا چلتا رہا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے منفی اور نفرت انگیز بیانیہ جلد مقبول ہوتا ہے۔ عمران خان تو منفی رجحانات کے فروغ میں تمام حدود پھلانگ چکے ہیں انہوں نے ن لیگ اور زرداری لیگ کو ہی نہیں بلکہ فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن کو بھی اپنے بیانیے کی بندوق کو نوک پر رکھ دیا ہے۔ وہ ہئیت حاکمہ کے خلاف، نظام حکمرانی کے خلاف شمشیر برہنہ بن چکے ہیں لیکن وہ جس نفرت اور جوش کے ساتھ متحرک رہے ہیںجس انداز میں انہوں نے 44 ماہ حکمرانی کی ہے وہ اس انداز میں اپنی جڑیں نہیں بنا سکے ہیں۔ پارلیمانی جمہوری سیاست اور ووٹر کے حوالے سے بہت زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ ان کی 2011 سے اٹھان کا سہرا بھی مقتدرہ کو جاتا ہے اور انہیں 2018 میں ایوان اقتدار تک لانے کا کارنامہ بھی مقتدرہ کے نام ہے۔ اپریل 2022 کو انہیں پارلیمان میں نااہل قرار دے کر ووٹ کی طاقت سے شکست دینے کا کارنامہ بھی ایسا ہی ہے۔ اب وہ مقتدرہ کے تمام اجزا و اراکین کے خلاف شعلے اگل رہے ہیں۔
وہ قومی اسمبلی کو رد کر چکے ہیں استعفیٰ دے چکے ہیں۔ شہباز شریف کو وزیراعظم تسلیم نہیں کرتے ہیں ویسے تو انہوں نے شہباز شریف کو اس اسمبلی میں بھی اپوزیشن لیڈر بھی تسلیم نہیں کیا تھا جس اسمبلی سے وہ خود وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ وہ اس اسمبلی کو مکمل طور پر رد کر چکے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے اراکین کی طرف سے عثمان بزدار کو رد کرنے کے فیصلے کو تو تسلیم کر لیا ہے لیکن انہی اراکین کے حمزہ شہباز کو منتخب کرنے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ بزدار کی رخصتی کو تسلیم کر کے انہوں نے پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار نامزد کر رکھا ہے یہ ان کے بیانیے کا کھلا تضاد ہے کہ ایک طرف وہ اسمبلی اراکین کے بزدار کو ریجکٹ کرنے کے فیصلے کو تو تسلیم کرتے ہیں اور اسی زبان سے حمزہ شہبازکے، انہی اراکین کے انتخاب کو تسلیم نہیں کرتے پھر عدالت میں جا کر حمزہ شہباز کو 22 جولائی تک وزیراعلیٰ تسلیم کرنے کا اعلان بھی کر دیتے ہیں۔
عمران خان کے بیانیے کا تضاد اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف وہ فوری انتخابات کے لئے مہم چلا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے رہے ہیں تو دوسری طرف ضمنی انتخابات میں دل و جان سے حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ایسا کھلا تضاد ہے جو عام ووٹر کو بھی نظر آ رہا ہے۔ ذرا اور غور کریں تو ان کے جاری بیانیے کے تضادات اور بھی کھل کر سامنے آتے ہیں۔ وہ مرکزی اور صوبائی حکومت کو ماننے سے انکاری ہیں لیکن اسی حکومت کے زیرانتظام انتخابات میں حصہ بھی لے رہے ہیں۔ وہ الیکشن کمیشن کو جانب دار اور اس کے چیف کو مسلم لیگ ن کا کارکن قرار دیتے ہیں اور اسی کے زیراہتمام ہونے والے ضمنی انتخابات میں جوش و خروش سے بھی حصہ لے رہے ہیں اور اسے دھمکا بھی رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
اگر ہم پوری انتخابی مہم کا مرحلہ وار جائزہ لیں تو جلسے جلوس دونوں فریقین کے دھانسو قسم کے ہوئے ہیں۔ فریقین کے ووٹرز نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیا ہے اور امید ہے کہ وہ اسی جوش و خروش سے آج ووٹنگ کے عمل میں بھی شریک ہوں گے۔
پی ٹی آئی انتخابی مہم کے آغاز سے ہی مسلم لیگ کے جیتنے کی خبر دے رہی ہے عمران خان سے لے کر، شیخ رشید، فواد چودھری اور اسد عمر تک، پی ٹی آئی کی صف اوّل کی لیڈر شپ مسلم لیگی امیدواروں کی جیتنے کی باتیں کرتے رہے ہیں کیونکہ انہیں یقین تھا اور ہے کہ ن لیگی امیدواروں کا پلڑا بھاری ہے اور اسے یعنی ان کی فتح کو ’’دھاندلی‘‘ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن پر مکمل عدم اعتماد کے ساتھ وہ انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں کوئی کارکردگی یا مثبت انداز کی بات نہیں کی ہے۔ دھاندلی، کرپشن، مارو، ٹکرائو کی باتیں کر کے اپنے فدائین کا جوش و جذبہ بڑھاتے رہے ہیں حالانکہ انتخابی عمل کی کامیابی کا تعلق عام شہری کے ووٹ سے جڑا ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نے بھرپور انداز میں عام آدمی کی مشکلات حل کرنے کا ذکر کیا 100 یونٹ استعمال کرنے والے بجلی صارفین کے بل میں چھوٹ کا اعلان، پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی، عید کے موقع پر صفائی ستھرائی، بارشوں کے نقصانات و ہلاکتوں سے نمٹنے کے اقدامات اور قوم کو مشکلات سے نکالنے کے مثبت بیانیے کے ساتھ انتخابی مہم چلائی ہے جس سے لگ رہا ہے کہ عام شہری کا ووٹ مسلم لیگ کی فتح کا باعث بنے گا اور حمزہ شہباز شریف 22 جولائی کو ایک بار پھر وزیراعلیٰ منتخب ہو جائیں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.