ویل ڈن حمزہ شہباز

29

پنجاب جہاں دیگر معاملات میں تنزلی کے غار میں تیزی سے گررہا تھا وہیں بزدار عہد کو اگر ’’کوڑا کرکٹ‘‘ کا عہد کہیں تو درست ہوگا رشوت لے کر ٹرانسفر پوسٹنگ کی گندگی، فرح گوگی کی ہیرے جواہرات کی آلودہ دلالی کے علاوہ ایئرپورٹ براستہ بھٹہ چوک غلاظت کا ڈھیر بن گیا تھا… حالات یہ تھے کہ گاڑی کے بند شیشوں میں بھی حس شامہ بدبو کا پتہ دیتی تھی …
ترکی والوں کا ویسٹ مینجمنٹ جو شہباز شریف عہد میں صفائی کے معیارات قائم کررہا تھا اس کو رخصت کردیا گیا بغیرکسی متبادل نظام کے بھٹہ چوک ڈیفنس کے ایک طرف پھولوں کی مارکیٹ دوسری طرف پھلوں کے اسٹال اور درمیان میں فلک بوس کوڑا کرکٹ کے پہاڑ کھڑے رہتے تھے … صفائی پسند دل ہمارا کڑھتا تھا کہ اب کیونکر ڈیفنس دوبارہ صاف ہوگا جہاں تک دوسرے علاقے ہیں ان کی گندگی کا اندازہ ہزار سے ملٹی پلائی کرکے لگالیں دور بھی کیوں جائیں ابھی جو سندھ کے سب سے ماڈرن شہرکراچی میں کشت وخون کے دریا بہے ہیں غلاظتوں کے انبار لگے ہیں ہماری کراچی والے رشتے دار بتاتے ہیں کہ باقی شہروں وقصبوں کا تو پوچھو مت سرخ دریا بہہ رہے ہیں۔ یہ انقلابی دریا نہ جانے پی ٹی آئی کے ہیں یا پی پی پی کے جن پارٹیوں کا مقصد ہی صرف باتیں کرناہے دن رات باتیں صرف باتیں۔
الحمد للہ پنجاب پر اللہ نے رحم کیا اور اس عیدالاضحی پر حمزہ شہباز نے شہباز شریف کا بیٹا ہونے کا حق ادا کردیا سسٹم بناکر پولی تھین بیگز فراہم کئے گئے 35لاکھ کی تعداد میں اور قریباً 45ہزار سینٹری ورکروں نے پانچ ہزار سے زائد آپریشنل گاڑیوں کے ذریعے آلائشوں کو ڈمپنگ سائیڈ پر پہنچایا۔
عارضی طورپر قائم کردہ 110کولیکشن سنٹرز مکمل طورپر زیروویسٹ کردیئے گئے پنجاب کی نوعدد ڈویژن اور اضلاع سے صفائی ایسے کی گئی جیسے جادو کی چھڑی ہاتھ میں ہو آج بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ کام ’’نیت‘‘ سے ہوتے ہیں نیت نہ ہو تو بہانے ہزار ہوتے ہیں۔
حمزہ شہباز اپنے والد کی طرح نرم دل رکھتے ہیں جہاں کسی بچے سے زیادتی ہو خود پہنچتے ہیں بہت سے تبدیلی کے دلدادہ مجھ سے پوچھتے ہیں (گالیوں کی زبان میں ظاہر ہے) کہ اس کا کیا فائدہ کوشش کرکے سمجھاتی ہوں کہ جب کسی اجڑے ہوئے پسماندہ گھر میں وقت کا حاکم صوبے کا وزیراعلیٰ خود جاتا ہے وہاں کا کمشنر ڈی پی او، ڈی سی اور تمام انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے وہیں اسلام آباد کے محل کے اندر سے بیٹھ کر یہ کہہ دیا کہ وزیراعظم مذمت کررہے ہیں اور کیچڑ زدہ علاقوں میں خود جانے کافرق ہوتا ہے۔ آئیڈیل سچویشن تقریروں سے نہیں آتی حکمران کا خود متحرک ہونا ضروری ہے پرویز الٰہی پنجاب کے کس کام آرہے ہیں یا ان کے حواری عوام کو اس نمبر گیم سے کوئی دلچسپی نہیں انہیں تو اپنے بچوں کی حفاظت ستھرا پنجاب اور مہنگائی میں کمی سے سروکار ہے۔
البتہ جو ایک نئی قوم وجود میں آگئی ہے جو سڑکوں چوراہوں ، ہوٹلوں ، دکانوں پر اپنی عورتوں اور نئی نسل سے بزرگوں پر فقرے کسوارہی ہے نعرے بازی کروارہی ہے جو اللہ کے گھر سے لے کر وطن عزیز تک ہرجگہ اپنی ذہنی افلاس کا مظاہرہ کررہے ہیں، ان کا لیڈر کسی کاسیدھا نام نہیں لیتا ہرایک کے ’’سانگ‘‘ اتارتا نام رکھتا اپنی عمر گزار چکا کرکٹ گرائونڈ سے گالیاں برساتا ہوا ایوانوں میں گھس آیا منتخب کرنے والوں نے دوبارہ سڑکوں کا مال سڑکوں پر پھینک دیا ہے اب وہ نئی نسل کو اپنی کولیگز کی نقلیں اتار اتار کر تماشہ کرتا ہے۔
حمزہ شہباز کی شہباز شریف کی طرح یہ عادت بہت اچھی ہے کہ ہمہ وقت اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کسی الزام کا جواب دیتے ہیں نہ پلٹ کر گالی کسی دشنام کاری ایکشن نہیں کسی نقلیں اتارنے والے پر وقت ضائع کرنے کے بجائے سارا وقت پنجاب کے تباہ شدہ منصوبوں کو ازسر نوچلانے پر صرف کررہے ہیں۔
گزشتہ کرپشن کی گندگی دور کرنے کے لیے تو ادارے کام کریں گے اور قانونی طریقے سے پکڑ ہوگی مگر جہاں تک وطن عزیز کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کاتعلق ہے وہاں تو صفائی ستھرائی کا کام اے ون ہوگیاہے۔ یہ وہ ہاتھ کی صفائی نہیں جو توشہ خانے سے کی جاتی ہے یہ وہ صفائی ہے جسے نصف ایمان کہا جاتا ہے، اور ایمان سلامت رہے تو عشق سلامت رہتا ہے عشق سلامت رہے تو صوفی کی تکمیل ہوتی ہے تصوف کے رنگ ابھرتے ہیں تصوف معاشرے کو پرامن بناتا ہے۔
ایسابڑا فلسفہ ہے اسی لیے تو صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے …
پٹرول سستا ہونے کی نوید جب محترمہ مریم نواز نے سنائی تو بدگمانی اور برین واشنگ کایہ حال ہے کہ قوم یوتھ نے کہا کہ محض الیکشن کے لیے پٹرول کی قیمت کم کی جارہی ہے جب حمزہ شہباز نے سو 100یونٹ بجلی خرچ کرنے والے غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کا بجلی بل ختم کرکے بجلی فری کردی تو یہ عقل کے اندھے الیکشن کمیشن پہنچ گئے نتیجتاً بجلی کو 17جولائی سے کم نشیں لوگوں کو بجلی فری ہوجائے گی حالانکہ سننے میں ہی یہ کس قدر خوشگوار پیغام ہے کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوبالکل بل نہ دے اور بوجھ اہل ثروت اٹھائیں یا گورنمنٹ خود …
ایسا انتظام کجریوال نے بھارت میں کرکے لوگوں کے دل جیت لیے ہوتے ہوتے،بجلی 300 یونٹ فری ہوگئی یہ ہی راستہ حمزہ شہباز نے اپنایا ہے اور ہروہ راستہ جورحمدلی کا ہے مفاد عامہ کا ہے غریبوں کی بہبود کا ہے حکمرانوں کو تیس تیس سال تو کیا سوسوسال کی حکمرانی دیتا ہے  بھلے باتوں کے مداری محض باتیں کرتے رہیں آئیڈیالوجی بگھارتے رہیں اصلی اور حقیقی راستہ خدمت کا ہے اور اونچا مقام خادم کا ہے ۔خادموں میں صف اول پر خادم اعلیٰ اور الحمدللہ اس کا جانشین …

تبصرے بند ہیں.