اس مر تبہ جس طور گر می کا مو سم طول کھینچنے پہ بضد تھا، اس سے تو یوں دکھائی پڑتا تھا کہ یہ سوکھے کا سال ہے۔ یعنی لگتا تھا کہ سردیاں تو آ جا ئیں گی، مگر بارش دیکھنے کونظر یں ترس جا ئیں گی۔ مگر پھر جو ملک بھر پہ با رش کی جھڑی لگی تو وہ اب رکنے کا نا م نہیں لے رہی۔ اور یوں چند دنوں میں ہونے والی بارشوں، سیلابی ریلوں اور تیز ہوائوں کی وجہ سے ملک میں خاصا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں ہوا ہے ۔کوئٹہ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے ۔ کوئٹہ کے مشرقی پہاڑی علاقے سے آنے والے سیلابی ریلے نے کوئٹہ اور اس کے نواحی علاقوں میں تباہی مچائی ہے، میڈیا کے مطابق بلوچستان میں 23 کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ یہ ہلاکتیں کہیں کچے مکان اور دیواریں گرنے سے ہوئی ہیں اور کہیں کوئی سیلابی ریلے کی زد میں آگیا۔ کراچی میں بھی بارش کا سلسلہ شروع ہے، یہاں تھوڑی بارش ہوئی لیکن مسائل زیادہ پیدا ہوئے ہیں۔کئی جگہوں پر ٹریفک جام رہی جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کراچی میں چند ملی میٹربارش کے بعد ہی شہر جھل تھل ہو گیا،شہری گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں صبح سویرے شروع ہونے والی موسلا دھار بارش پانچ گھنٹوں تک جاری رہی۔جس کی وجہ سے نالہ لئی میں سیلابی صورتحال رہی جب کہ اسلام آباد میں کئی علاقے زیر آب آگئے۔ جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اورخیبر پختونخوا میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ، محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ہفتے کے دوران بھی بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔بالاکوٹ اور وادی کاغان میں موسلادھار بارش سے ندی نالوں میں طغیانی ہے۔ محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں مون سون کی بارشوں کے موجودہ اسپیل میں توسیع کی پیشگوئی کے بعد محکموں کو الرٹ رہنے کی ہدایات کر دی گئی ہے۔ مون سون کا پہلا اسپیل 28 جون کو شروع ہوا، اس بار 87 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے، برف پھٹنے کے 16 گلاف ایونٹس ہوئے، ورنہ نارمل حالات میں 5 گلاف ایونٹس ہوتے ہیں، دوسرے ممالک کے گرین ہائوس گیسز کے اثرات پاکستان میں رونما ہورہے ہیں، پاکستان کو جی ڈی پی کے 9.2 فیصد نقصان ہو رہا ہے۔ آزاد کشمیر میں 49 فیصد، بلوچستان میں 274 فیصد اور سندھ میں 262 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، 77اموات ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں، اداروں کی وارننگ کو سنجیدہ لینے سے اموات کم ہو سکتی ہیں۔ موجودہ سیزن میں سب سے زیادہ 37 اموات بلوچستان میں ہوئی ہیں، یہ سب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہو رہا ہے، ہیٹ ویو کی وجہ سے جنگلات میں آگ کے واقعات بھی بڑھے ہیں، بارشوں سے اس وقت ڈیمز کو تقویت ملی
ہوئی ہے۔ حالیہ مون سون بارشوں سے تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔واپڈا ذرائع کے مطابق چند روز میں تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح میں 45 فٹ جب کہ منگلا میں پانی کی سطح میں 50 فٹ اضافہ ہوا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ منگلا سے پانی کا اخراج کم جب کہ تربیلا سے بڑھا دیا گیا ہے۔واپڈا ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ چند روز میں ہائیڈل پاور کی پیداوار بڑھنے کا امکان ہے۔گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے گائوں شیر قلعہ میں آسمانی بجلی گِرنے سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں جاں بحق افراد کی تعداد 8 ہوگئی۔ گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں، پاکستان میں ہر سال کی طرح اس برس بھی بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑے جانے پر سیلاب کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ مون سون اور دیگر موسمی بارشیں صدیوں سے ہوتی چلی آرہی ہیں۔ دریا اور ندی نالے بھی صدیوں سے بہہ رہے ہیں۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب کچھ پہلی بار ہوا ہے اور اس لیے بچائو کے اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ پاکستان میں بارشوں، سیلاب وغیرہ سے نبٹنے کے لیے ادارے موجود ہیں لیکن یہ ادارے زنگ آلود ہوچکے ہیں۔ بے ہنگامی رہائشی آبادیاں قائم ہونا شروع ہوئی تو سرکاری اداروں کے افسر اور اہلکار حرکت میں نہیں آئے ۔برساتی اور گندے نالوں پر آبادیاں قائم ہوگئیں لیکن متعلقہ اداروں کی افسرشاہی سوئی رہی۔یوں اب مسائل کا پہاڑ بن گیا ہے اور اس کا حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپروائی کے نتائج پورا ملک بھگت رہا ہے ۔بات کراچی کی کر لیتے ہیں ، جہاں ہر سال بارش کے دوران صرف کرنٹ لگنے سے درجنوں اموات ہوجاتی ہیں ، ناقص اور ٹوٹے ہوئے تاروں کی تبدیلی مون سون سیزن شروع ہونے سے پہلے کرلی جائے تو شہریوں کی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں ۔ کراچی اس وقت بدترین انتظامی نظام کی تصویر پیش کر رہا ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت نہیں ہوئی ہے ، سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے ، سیوریج نالوں اورگرین بیلٹ کی زمین پر گھر بنے ہوئے ہیں۔ جب مون سون سیزن کے دوران تباہی و بربادی ہوچکی ہوتی ہے تو حسب روایت حکومتی مشنری حرکت میں آ جاتی ہے اور قومی خزانے سے کروڑوں محض آنیوں اور جانیوں پر خرچ کر دیے جاتے۔ اگر یہی وسائل بارشوں اور سیلابی بربادی سے پہلے منصوبہ بندی کے تحت لگائے جائیں اور ماہر انجینئرز اور سائنسدانوں اور ماہر تعمیرات کے تجربات سے استفادہ کیا جائے تو یقیناً حکومت کا سب سے احسن اقدام ہو گا۔ سبھی جانتے ہیں کہ سڑکوں پر پانی اس وقت جمع ہوتا ہے جب سیوریج کا نظام ٹھیک نہ ہو اور سیوریج کا نظام ٹھیک نہ ہونے کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ گندے نالوں کی صفائی کا مناسب انتظام نہیں کیا جاتا چنانچہ جونہی معمول سے کچھ زیادہ بارش ہو جائے سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ دوسری وجہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز ہیں جنھیں لوگ استعمال کے بعد ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں اور جو ہوا کے ذریعے یا بارش کے پانی کے ساتھ بہہ کر سیوریج کے نظام میں داخل ہوتے اور اسے بلاک کر دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ مون سون سے قبل گندے نالوں کی صفائی کا اہتمام کیا جائے اور شاپنگ بیگز کی استعمال پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اس پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے ۔ صوبائی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کی اس وقت سب سے بڑی ذمے داری یہی ہے کہ آئندہ کے لیے اس ملک و قوم کو سیلاب سے محفوظ کردیا جائے، بڑے پیمانے پر ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ دریائوں کو گہرا کر کے ان میں زیادہ پانی برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے، جو اربوں روپے ہر سال سیلاب متاثرین کی بحالی کی نذر ہو جاتے ہیں انھیں سیلاب سے دائمی بچاؤ کے اقدام پر خرچ کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے سیلاب سے نمٹنے اور سیلابی پانی کو نئے آبی ذخائر میں محفوظ کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی سامنے آئی نہ ہی کبھی مستقل بنیادوں پر کسی قسم کے کوئی ٹھوس اقدام ہی اٹھائے گئے، ہمیشہ جب سیلاب سر پر آ جاتا ہے اور اپنی غارت گری دکھاتا ہے تو نمائشی اقدامات کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.