احسن اقبال اور عمران ریاض

52

معاف کیجیے احسن اقبال کے ساتھ جو ہوا وہ شعور نہیں بدتمیزی ہے اور احسن اقبال کا قصور محض اتنا ہے وہ شریف آدمی ہیں۔ اس کے ساتھ مسلح گارڈز ہوتے تو وہ بدتمیزی کرنے والوں کو سبق سکھاتے۔ پھر نیا تماشا لگتا کہ عام شہریوں کی ٹھکائی کر دی۔ ایک محاورہ ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل والا واقعہ یاد ہے یا یاد کراؤں۔ یہی وہ تربیت ہے جس کی وجہ سے لوگ تحریک انصاف سے نفرت کرتے ہیں۔ مہاتما کی زبان کا اعجاز ہے کہ اس کی تقریر ایک شریف آدمی تین منٹ سے زیادہ نہیں سن سکتا۔ وہی گھسا پٹا بیانیہ اور بدتمیزی۔ جب رہنما ایسا ہو گا تو کارکن بھی اسی طرح کے پیدا ہوں گے۔ احسن اقبال تو خندہ پیشانی سے برداشت کر گیا کسی اور ساتھ یہ واقعہ دہرانے کی کوشش کریں لگ پتہ جائے گا کہ آٹے دال کا کیا بھاؤ ہے۔ احسن اقبال کو چور کہنے والے پہلے بشری بی بی، فرح گوگی اور احسن جمیل گجر کے قصوں سے جان چھڑا لیں۔ بشری بی بی جو ایک  کسٹم افسر کی سابق بیوی ہیں لوگوں نے ان کے قصے بیان کرنا شروع کیے تو پھر کہا جائے گا کہ ذاتیات پر اتر آئے ہیں۔ احسن اقبال کو ایک زمانہ جانتا ہے اور اس پر بنائے جانے والے مقدمات پر خود ان کی حکومت کے دور میں جھوٹے ثابت ہوئے تھے۔ ویسے مجھے حیرت اس بات پر بھی ہے کہ حکومت اس ٹرائیکا کی کرپشن کی داستانیں بیان کر رہی ہے لیکن انہیں اندر نہیں ڈال رہی۔ چند دن کے لیے انہیں جیل کی ہوا کھانا پڑی تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ یہ وہی مہاتما ہے جو پنجاب یونیورسٹی میں انقلاب لانے کے لیے گیا تھا، وہاں پر جو سلوک ہوا اس کے بعد اس طرف کا رخ نہیں کیا۔ کسی نے درست کہا ہے کہ برائی کی بیخ کنی پھوٹنے سے پہلے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جب یہ پھلنے پھولنے لگے تو پھر ایسی جھاڑی کا روپ دھار لیتی ہے کہ اسے ایک جگہ سے کاٹو تو دوسری جگہ سے نمودار ہو جائے گی۔ یہ وہی مائنڈ سیٹ ہے جو 2018 میں پروان چڑھایا گیا تھا کہ اپنے دشمنوں پر توہین مذہب کے الزامات لگاؤ تاکہ وہ باہر نہ نکل سکیں۔ 2018 کے انتخابات میں تمام تر سیاسی انجینئرنگ اور آر ٹی ایس بٹھانے کے باوجود تحریک انصاف واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی اور حکومت بنانے کے لیے انہیں بیساکھیاں فراہم کی گئی تھیں۔ مجھے اپنے ان دوستوں پر رحم آتا ہے جو شریف ہیں مگر کسی مجبوری کی وجہ سے تحریک انصاف میں ہیں اور تعفن زدہ سیاسی ماحول میں بمشکل سانس لے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ وہ ٹولہ ہے جسے عمران خان کا عیب بھی اس کا حسن نظر آتا ہے۔
پنجاب کے غیر منتخب وزیر داخلہ عطااللہ تارڑ ، ان کی بھی قدرت نے اچھی سنی ہے وہ بھی شہزاد اکبر کی طرح لمبی لمبی پریس کانفرنسیں کرنے کے عادی بنتے جا رہے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک الزام اور کارکردگی صفر۔ کرپشن پکڑ لی ہے تو ان کا محاسبہ کرو، گرفتار کرو اور جیل میں ڈالو۔ عمران ریاض کے اثاثے گنوا رہے ہو اور گرفتاری کسی اور الزام کے تحت کر رہے ہو کہ وہ فوج کے خلاف بات کر رہا ہے۔ میں نے کل فیس بک پر ایک پوسٹ کی تھی کہ بطور لائف ممبر لاہور پریس کلب میں لاہور پریس کلب کے رکن عمران ریاض خان کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتا ہوں اور صدر اور سیکرٹری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس واقعہ پر احتجاج کیا جائے۔
میری اس پوسٹ کے بعد بہت سے دوستوں نے رابطہ کیا، کچھ نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے اور کچھ نے اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ میرا استدلال یہ ہے کہ اگر وہ کارکن صحافی ہے اور اسے اس جرم میں اٹھایا گیا ہے کہ اس نے اداروں کے خلاف بات کی ہے تو ہمیں اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ وہ لاہور پریس کلب کا رکن ہے اور اس نے محض سوالات اٹھائے ہیں۔ کلب نے حامد میر، مطیع اللہ جان، ابصار عالم اور اس جیسے دوسرے صحافیوں کے خلاف ہونے والے ظلم پر احتجاج کیا تھا، عمران ریاض کے حق میں بھی کھڑا ہونا چاہیے۔ سیکرٹری لاہور پریس کلب کا پیغام آیا ہے کہ اس پر مشاورت جاری ہے اور عید کے بعد اسے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ دوسرا فوج پر تنقید اس وقت ہو گی جب فوج کی آئین اور قانونی ذمہ داریوں کو ہدف بنایا جائے گا اور جب کوئی بھی ادارہ آئین سے ماوراء اور قانون سے بالاتر ہو کر کام کرے گا تو پھر اس پر ہونے والی تنقید کو اس زمرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ہمیں اس پر بحث کرنی چاہیے اور آئینی اور قانونی ماہرین کو اپنے دلائل سامنے رکھنے چاہیں۔ دوسرا عمران ریاض اور وہ صحافی جو تحریک انصاف کے بیانیے کو درست مانتے ہیں کیا وہ سیاسی کارکن ہو گئے اگر یہ معیار ہے تو پھر لائین کے اس طرف جو لوگ اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں انہیں بھی سیاسی کارکن ڈیکلیئر کر دیں۔ کیا ہم اندھے اور بہرے ہیں کہ ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ کون کون مسلم لیگ ن کے حمایتی ہیں۔ چوہدری خاندان الگ سے صحافیوں کے ایک گروہ کی پرورش کرتے ہیں اور بلاول اور زرداری ہاؤس کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے والے کون ہیں؟ ہمارے یہاں جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کے بیانیے کو درست ماننے والے صحافی بھی موجود ہیں۔ اگر یہ معیار اپنانا ہے تو پھر کلب خالی ہو جائے گا کہ ہر صحافی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے فکری ہم آہنگی رکھتا ہے۔ پکڑ میں صرف وہ آتا ہے جو کھل کر اپنے نکتہ نظر کو بیان کرتا ہے۔ آپ میں سے اکثر یہ دوست جانتے ہیں کہ میں عمران ریاض خان کے نکتہ نظر سے مکمل اختلاف کرتا ہوں مگر ان کی آواز کو دبانے پر اس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں اس نوجوان سے کبھی نہیں ملا لیکن مشکل کی اس گھڑی میں اس کے حق میں آواز بلند کرنے کو اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ ایک بڑا اعتراض یہ سامنے آیا کہ اس کے اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے تو اس کا حساب مانگو کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا۔ ویسے یہ بتادوں کہ اس کے یوٹیوب چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد ساڑھے تین ملین سے زیادہ ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو دنوں میں کروڑپتی بنے ہیں ان سے تو کسی نے حساب نہیں مانگا۔ وہ فرح گوگی کا فرنٹ مین تھا، صاحب صرف الزام نہیں مقدمہ بناؤ، آواز بلند کرنے پر شہر شہر نہ گھماؤ کرپشن کا مقدمہ درج کرو۔ پنجاب کے وزیر قانون سے بھی یہی گزارش ہے کہ عمران ریاض کو تو اندر ڈال دیا عمران خان کو بھی اندر کرو۔ ایمان مزاری نے اسلام آباد پریس کلب کے باہر فوج کے سپہ سالار کے خلاف جو زبان استعمال کی تھی اور اس کا مقدمہ خود فوج نے درج کروایا تھا اسے تو چند گھنٹے کے لیے حوالات میں بند نہیں کر سکے۔ وہاں آپ کا زور کیوں نہیں چلا؟ اس کے خلاف پنجاب کے طول و عرض میں مقدمہ درج کروانے سے کس نے منع کیا تھا؟ شیریں مزاری کو ایک رات بھی حوالات میں نہیں گذارنا پڑی تھی۔
ایک شعر یاد آگیا
زور کے سامنے کمزور تو کمزور پہ زور
عادل شہر تیرے عدل کے معیار پہ تھو
عمران ریاض کا کیس ہمارے نوجوان صحافیوں کے لیے ایک مثال کے طور پر لیا جانا چاہیے کہ کس طرح بعض قوتیں اور ادارے حب الوطنی اور مذہب کی آڑ میں نوجوان صحافیوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی خدمات کا صلہ دے دیا گیا ہے لہذا استعمال کے بعد انہیں پھینک دو۔ دنیا کے ہر ملک کی ایجنسیاں یہ کام کرتی ہیں اور یہاں بھی ایسے بہت سے ہیں جو خفیہ پولیس سے لے کر دوسرے اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ چپکے سے کام کرتے ہیں اس لیے ہر دور میں تنخواہوں اور مراعات سے مستفیض ہوتے ہیں عمران ریاض چونکہ بولتا تھا اس لیے پکڑا گیا۔ عمران ریاض، صابر شاکر، سمیع ابراہیم بھی اپنے اپنے رویوں پر غور کریں کہ وہ اندھی محبت میں گرفتار ہو کر صحافت کر رہے ہیں یا ان کی آواز کو خرید لیا گیا ہے۔ اگر آپ نے خود کو صحافی کہلوانا ہے تو پھر اس کے معیارات کو بھی سامنے رکھیں ورنہ آپ کو محض ایکٹر سمجھا جائے گا کہ پیسہ کے لیے آپ سے کوئی بھی کردار کروایا جا سکتا ہے۔ فیصلہ آپ کریں کہ صحافی رہنا ہے یا ایکٹر بننا ہے۔
بات احسن اقبال سے شروع ہوئی تھی اور عمران ریاض پر ختم ہوئی۔ دونوں کے ساتھ ہونے والا سلوک قابل مذمت ہے۔

تبصرے بند ہیں.