ضمنی انتخابات: نتیجہ صاف ظاہر ہے

62

پنجاب اسمبلی میں پانچ مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری کئے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے پنجاب اسمبلی ممبران کی تعداد 163 ہو گئی ہے۔ یہ نشستیں پی ٹی آئی کے 25 اراکین کے نااہل ہونے کے باعث خالی قرار دی گئی تھیں بقیہ 20 نشستوں پر 17 جولائی کو انتخابات ہو رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے ان 25 اراکین کے پی ٹی آئی سے منحرف ہونے کے باعث پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی اتحادی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ عمران خان کے وسیم اکرم پلس، بزدار کی وزارت عظمیٰ چلی گئی۔ پھر پی ٹی آئی کی اتحادی ق لیگ اس موقع پر تقسیم ہو گئی اور ایسی تقسیم ہوئی کہ جگ ہنسائی کا سبب بن گئی۔ پی ٹی آئی نے پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کیا لیکن بھاری کاوشوں اور کارروائیوں کے باوجود ن لیگ کے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے۔ پی ٹی آئی بات عدالتوں تک لے گئی۔ سپریم کورٹ کے حکم سے ہونے والے انتخابات کے نتائج کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا پھر ہائیکورٹ کے جاری کردہ حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس کے نتیجے میں 22 جولائی کو وزارت اعلیٰ کے لئے ری پولنگ ہونا قرار پائی ہے جس میں 17 جولائی کو 20 ضمنی انتخابات کے نتیجے میں منتخب اراکین اسمبلی بھی حصہ لیں گے اور پی ٹی آئی کے 5 مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کی طرف سے حال ہی میں نوٹیفائی کئے جانے والے 5 اراکین بھی حصہ لیں گے۔ یاد رہے حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے میں پی ٹی آئی کے 25 اراکین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان پچیس منحرفین میں سے 5 نشستوں پر پی ٹی آئی کے نئے اراکین حلف اٹھا چکے ہیں گویا پی ٹی آئی کو اپنی پانچ نشستیں واپس مل چکی ہیں۔ اس طرح پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر ہو گئی ہے لیکن وہ عددی اعتبار سے ابھی بھی حکمران اتحاد سے پیچھے ہے اب 17 جولائی کو منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ کیا حمزہ شہباز اپنی وزارت اعلیٰ بچا پائیں گے یا چودھری پرویز الٰہی، حمزہ شہباز کو شکست دے کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر فائز ہو جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ پی ٹی آئی تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ن لیگ 16 نشستیں جیتنے جا رہی ہے اور یہ دھاندلی کے ذریعے ہو گا۔ گویا انہیں دو باتوں کا یقین محکم ہے کہ دھاندلی ہونی ہے اور 16 ن لیگی امیدوار جیت جائیں گے گویا انہوں نے اپنی ہار کے حوالے سے پہلے ہی جواز تلاش کر لیا ہے اور وہ نتائج تسلیم نہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ 14/16 نشستوں پر فتح کی امید ہے ن لیگی قیادت بڑی سنجیدگی کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ ن لیگی قیادت نے ایک بات اصولی طور پر طے کی تھی کہ جن لوگوں کو اپنی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں جو لوگ شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ دے کر نااہل ہوئے تھے ضمنی انتخابات میں ن لیگ ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ نااہل قرار پانے والے 11 امیدوار ایسے ہیں جو 2018 میں ن لیگی، انصافی، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو ہرا کر، اپنے زورِ بازو پر جیت کر اسمبلی میں پہنچے تھے اور پھر وہ تحریک انصاف کا حصہ بنے۔ اب وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں انہیں پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کی معاونت بھی حاصل ہے اس لئے قرائن کے مطابق یہ گیارہ نشستیں تو بیک جنبش قلم ن لیگ جیت جائے گی۔ لاہور کی چار نشستوں پر مقابلے کے حوالے سے آج کی تاریخ تک تجزیہ نگار یہی کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی شاید ایک نشست جیت سکے گی۔ بقیہ 3 نشستوں پر ن لیگی امیدوار
کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔ مسلم لیگی امیدوار منظم طریقے سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ مریم نواز انتخابی حلقوں میں جا کر جلسے کر رہی ہیں۔ عمران خان حسب سابق پرانی باتوں کی تکرار میں مصروف ہیں ’’میں نہ مانوں‘‘ کی پالیسی کے تحت بیانات داغتے رہتے ہیں۔ اب انہوں نے انتخابی حلقوں میں جا کر جلسے کرنے اور ووٹروں کو گرمانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن ان کے پاس سوائے تنقید کے، کوئی مثبت پروگرام پیش کرنے کے لئے نہیں ہے حالانکہ ان کی اپوزیشن یعنی حکمران جماعت ابھی تک عوامی مسائل کے حل کے لئے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مہنگائی، پٹرولیم کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، بجلی کے ہوشربا نرخ اور تباہ کن قسم کی لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کی موجودگی میں تحریک انصاف کی قیادت حکمران اتحاد کے لئے، شہباز شریف کی قیادت میں چلنے والی حکومت کے لئے سنجیدہ مسائل پیدا کر سکتی ہے لیکن زمینی حقائق پر، عوامی مسائل پر بات کرنے کی بجائے عمران خان اور ان کے ہمنوا وہی گھسی پٹی باتیں کر رہے ہیں جو وہ ایک عرصے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مسلم لیگی امیدواروں کو ایک اور برتری بھی حاصل ہے اور وہ ہے ان کا حکومتی امیدوار ہونا۔ عام طور پر ضمنی انتخابات میں فتح حکمران جماعت کا حق سمجھا جاتا ہے۔ ویسے عمران خان کے دورِ حکومت میں 30 کے قریب ضمنی انتخابات ہوئے جو تقریباً سارے ہی ان کی پارٹی ہار گئی۔ اس طرح بیان کردہ روایت تھوڑی سی کمزور لگ رہی ہے کہ ضمنی انتخابات میں ن لیگی امیدوار ضرور جیت جائیں گے۔ بات ’’عموماً‘‘ کی ہو رہی ہے۔ روایت کی ہو رہی ہے۔ روایت یہی ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدوار کا ہی پلہ بھاری رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ روایت عمران خان کے دورِ حکومت میں جاری نہیں رہ سکی لیکن اس دفعہ ایک بار پھر اسی روایت کے زندہ ہونے اور رو بہ عمل آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی والے بھی یہی کچھ کہہ رہے ہیں کہ ن لیگی امیدوار جیت جائیں گے روایتاً نہیں بلکہ دھاندلی کے ذریعے۔
بہرحال ضمنی انتخابی معاملات اتنے بھی سادہ نہیں ہیں جتنے زیرنظر کالم میں بیان کر دیئے گئے ہیں یا جتنے آسانی سے سپردقلم کر دیئے ہیں عمران خان اسمبلی میں شکست کھا کر اپنی حکومت گنوانے کے بعد بپھرے ہوئے پھر رہے ہیں فکری تضادات کا بھی شکار ہیں قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی میں 20 ممبروں کو واپس لانے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت کو امپورٹڈ بھی کہہ رہے ہیں اور اس کے تحت ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں وہ فوری عام انتخابات کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیا چاہتے ہیں، کس سے چاہتے ہیں اور کیسے چاہتے ہیں۔ فکری انتشار بڑا واضح ہے لیکن ایک بات بڑی اہم ہے کہ وہ معاملات کو حل نہ ہونے دینے اور بگاڑ و انتشار کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ان کا ایجنڈا بھی شاید یہی ہو کہ موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ پورا سیٹ اپ ہی زمین بوس ہو جائے چاہے پاکستان کو اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔

تبصرے بند ہیں.