آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا وارث میر

21

جنرل ضیاء الحق کے تاریک ترین مارشل لاء دور میں جب ایک طرف پروفیسر وارث میر اردو اخبارات میں اپنی فکر انگیز تحریروں کے ذریعے عوام کے لئے امیدوں کے دیے جلا رہے تھے تو دوسری طرف معروف انقلابی اور لکھاری احمد بشیر روزنامہ ڈان میں بلھے شاہ کے فرضی نام سے لکھے جانے والے اپنے کالم میں بین السطور ضیاء جنتا کا عوام دشمن ایجنڈا بے نقاب کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن پھر ایک روز وارث میر اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ احمد بشیر نے اپنے دوست کی یاد میں ڈان اخبار میں بلھے شاہ کے نام سے جو کالم لکھا اسکا عنوان تھا ”ہی ڈائیڈ ود ہز بوٹس آن”۔ یعنی ”وہ آخری دم تک لڑتے ہوئے مارا گیا”۔ احمد بشیر نے لکھا کہ میرے دوست وارث میر کا خمیر عوام میں سے اٹھا تھا اور اسی لیے اس درویش کا جنازہ لاہور میں فیض احمد فیض کے بعد سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں اس کے نظریاتی دشمن بھی کاندھا دینے آئے تھے کیونکہ وہ اسکی فکری دیانت کے قائل تھے اور اس کی حق گوئی اور جرأت سے مر عوب تھے۔
پروفیسر وارث میرکو ہم سے بچھڑے کئی عشرے بیت گئے مگر آج بھی ان کی پر مغز اور فکر انگیز تحریروں کا مطالعہ کریں تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے جن بھی موضوعات پر لکھا وہ آج بھی تازہ ہی لگتے ہیں حالانکہ انکے دور میں ذرائع ابلاغ محدود تھے، کیبل تھی، نہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، فیس بک تھی نہ یو ٹیوب، موبائل فون تھا نہ گوگل کا نام و نشان، بس چند ایک اخبارات تھے یا پھر ہر وقت حکومتی مدح سرائی کرتا ہوا سرکاری ٹیلی
وژن اور ریڈیو۔ اس دور میں اخبارات پر سخت ترین سنسر شپ عائد تھی کیونکہ جنرل ضیا ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو چکا تھا۔ سیاسی کارکنوں کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں، آئین معطل تھا، جمہوری سرگرمیوں پر پابندی تھی، سچ لکھنے والے صحافیوں کے لئے تازیانے تھے اور بعض کو تو اس دور میں باقاعدہ کوڑے بھی مارے گئے۔ اسکے علاوہ ضیا کے حواری صحافیوں کو پالنے پوسنے کا عمل بھی جاری تھا۔
پروفیسر وارث میر نے ان مشکل ترین حالات میں بڑی جرأت مندی کے ساتھ ضیاء کے نام نہاد اسلامائزیشن کے عمل کی مخالفت کی اور اسکی اسلام کے نام پر اپنے آمرانہ اقتدار کو طول دینے کی کوششوں کو بے نقاب کیا، انہوں نے اسلام کی اپنی مرضی کی تعبیر کے ذریعے عورتوں کے حقوق غصب کرنے کی کوششوں کی مخالفت کی۔ وارث میر نے جذباتیت کے بجائے سنجیدہ علمی انداز میں عورتوں کے حقوق کا مقدمہ لڑا۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کے عمیق مطالعے اور تحقیق کے بعد اپنا طویل سلسلہ مضامین شروع کیا جو ان کی وفات کے بعد ”کیا عورت آدھی ہے؟’’کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ وارث میر نے بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت اور آئینی بالادستی کے حق میں اپنا قلم نشتر کی طرح چلایا، ضیا کے نام نہاد شریعت بل کی شدت سے مخالفت کی، انہوں نے اس سے پہلے کے مارشل لا ادوار کے میں اپنائے گے ہتھکنڈوں کو بھی موضوع تحریر بنایا، اس دور میں ضیا حکومت کی دست راست جماعت اسلامی وارث میر کی شدید مخالف تھی اور بہانے بہانے سے ان کو تنگ کرتی رہتی تھی۔ زندگی کے آخری دنوں میں اس اسلامی ٹولے نے وارث میر کو ایک بڑا صدمہ یہ دیا کہ ان کو بلیک میل کرنے کے لیے اور ذہنی دباؤ میں لانے کے لیے انکے ایک 16 سالہ بیٹے کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کرا دیا۔ بعد میں یہ کیس عدالت میں بھی جھوٹا ثابت ہوا لیکن تب تک وارث میر شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو کر اس جہان سے جوانعمری میں ہی رخصت ہو چکے تھے۔
پروفیسر وارث میر کے اپنے الفاظ میں ایک سچا اور کھرا دانشور اپنے عہد سے جڑا ہوتا ہے۔ وہ عصری مسائل پر بات کرتا اور بہتر مستقبل کے لئے عوام الناس کی فکری رہنمائی کرتا ہے، وہ آج کے حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل میں جھانک لیتا ہے اور اسکی خبر دیتا ہے۔ وارث میر نے بھی اپنے عہد میں آئین شکن ضیاالحق اور اسکے پروردہ مذہبی حلقوں کی پھیلائی ہوئی تنگ نظری اور جہالت کو موضوع بنایا اور بتایا کہ یہ ایک صحت مند معاشرے کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ آنے والے وقت میں ان کا لکھا ہوا ہر حرف درست ثابت ہوا۔ یہی فکری تنگ نظری، شدت پسندی اور رجعت پسندی بعد میں انتہا پسندی اور پھر دہشت گردی میں بدل گئی جس نے پاکستان کے چپے چپے کو لہو رنگ کردیا۔
وارث میر اپنی جان کی پروا کئے بغیر مارشل لا کے حواریوں کے خلاف قلمی اور علمی محاذ پر برسر پیکار رہے۔ وہ مسلمانوں کو جدید سائنسی علوم کے حصول پر قائل کرتے اور مسائل و معاملات میں سائنسی اور عقلی انداز فکر اپنانے پر زور دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوچنا، سوال کرنا، شک کرنا اور انکار کرنا علم و معرفت کی پہلی سیڑھی ہے۔ وارث میر ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک استاد، صحافی،  دانشور اور بلا کے مقرر تھے، انہوں نے زندگی میں ان گنت موضوعات پر قلم اٹھایا اور قوم کی فکری رہنمائی کا فریضہ جرأت مندی سے انجام دیا۔ وہ اپنے نظریات کی عملی شکل تھے، ان کی اچانک اور پراسرار موت پر ایک زمانہ ملول تھا۔ وارث میرکی جنگ دراصل جہل، ظلمت، تنگ نظری، انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف تھی، وہ عمر بھر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے حریت فکر کے چراغ جلاتے رہے، اپنے نظریات کا پرچار ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ جس بات کو وہ درست سمجھتے ہوں اسے زبان پر یا ضبط تحریر میں نہ لائیں۔
پاکستان میں ایسے دانشور کم ہی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے نظریات پر قائم رہنے کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کی ہو۔ وارث میرکا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کی آخری سانس بھی اپنے نظریات کے پرچار کی نذر  کر دی۔ بلاشبہ وارث میر آخری دم تک آمروں سے لڑتے ہوئے وہیں اپنے مورچے میں مارا گیا۔

تبصرے بند ہیں.