5جولائی 2018ء…!

41

5جولائی کا دن گزر گیا ہے۔ یہ دن ہماری قومی تاریخ میں اس حوالے سے اہم گردانا جاتا ہے کہ 45سال قبل 5جولائی 1977ء کی رات کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین مرحوم ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت برطرف کرکے ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کیا تھا۔ مارشل لاء لگانے کا جواز تھا یا نہیں اور آرمی چیف کو یہ اقدام کرنے کی ضرورت تھی یا نہیں  اور کیا پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی زبردست  احتجاجی تحریک جو تحریکِ نفاذ اسلام کی صورت اختیار کیے ہوئے تھی کے نتیجے میں ملک میں امن و امان اور ملک کی یکجہتی اور سلامتی کی صورتحال اس نہج پر پہنچی ہوئی تھی کہ مارشل لاء کا نفاذ ناگزیر ہو گیا تھا؟ یہ ایسے سوال ہیں جو اس وقت موضوع سے متعلق نہیں ہیں۔ جیسا اوپر عنوان میں لکھا گیا ہے، ہمارا موضوع 5جولائی 1977ء کے دن کے بجائے 5جولائی 2018ء کا دن ہے۔ یہ دن عام لوگوں کے لیے یقیناً کسی اہمیت کا حامل نہیں ہو سکتا لیکن میری طرح کے کچھ لوگوں کے لیے بہرکیف یہ دن بڑی اہمیت کا حامل ہے جو اس دن کو وقوع پذیر ہونے والے واقعے یا حادثے کے پس منظر، پیش منظر، اہمیت، نزاکت  اور اسکے ماہ بعد مرتب ہونے والے منفی اثرات اور اسکی وجہ سے ایک انتہائی اُجلی ، بے داغ، راست گو ،انتہائی فرض شناس اور صاحبِ صلاحیت دبنگ شخصیت اور اس کے کنبے گھرانے کو پہنچنے والے شدید صدمے اور بدنامی کے داغوں سے بڑی حد تک آگاہ ہیں۔ چار سال قبل 5جولائی کا دن ہم احباب کے مختصر حلقے کے لیے اس بنا پر منحوس سمجھا جا تا ہے کہ اس دن ہمارے مربی مہربان اور محبی مکرم فواد حسن فواد کو نیب لاہور نے اُس وقت گرفتار کر لیا جب آشیانہ ہاؤسنگ سیکم کیس میں نیب نے انھیں تفتیشی ٹیم کے سامنے بلا رکھا تھا اوروہ اس کیس میں اپنے ملوث نہ ہونے اور اپنے اوپر لگائے گئے ناجائز اثاثوں کے الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد لے کر نیب لاہور کے آفس میں تفتیشی ٹیم کے سامنے پہنچے ہوئے تھے۔
عزیز مکرم و محترم فواد حسن فواد سے میرا تعلق پچھلے تقریباً چھ عشروں سے قائم چلا آ رہا ہے کہ وہ پچھلی صدی کے 60کے عشرے کے آخری برسوں میں (1968-69) میں وہ مختصر وقت کے لیے CBموجودہ (FG) ٹیکنکل ہائی سکول طارق آباد لالکڑتی میں میرے شاگرد رہے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ CBموجودہ (FG)سرسید کالج میں چار سال تک زیرِ تعلیم رہے تو میں اسی کالج کے سکول سیکشن میں پڑھاتا تھا اور محبی مکرم و محترم عرفان صدیقی جو کالج سیکشن میں اُردو کے لیکچرارتھے کی وساطت اور ہماری باہمی دوستی و قربت کی بنا پر عزیزی فواد حسن فواد سے تعلق اور قربت کا رشتہ اور مضبوط ہوا۔ فواد حسن فواد کا شمار سر سید کالج کے ہونہار اور مقبول ترین طلبا ء میں ہوتا تھا۔ وہ سٹوڈنٹ یونین کے جوائنٹ سیکٹری کے عہدے سے لے کر سیکرٹری جنرل اور صدر یونین کے عہدوں پر اپنے ساتھی طلباء کے اکثریتی ووٹ لے کر کامیاب ہوتے رہے۔ یہ تذکرہ جو میں کر رہا ہوں اگرچہ مجھے انتہائی مرغوب ہے اور مزید طویل ہو سکتا ہے لیکن اس وقت جو میرا موضوع ہے وہ اس سے ذرا ہٹ کر ہے اور میں اسی کی طرف آتا ہوں۔
فواد حسن فواد کے بارے میں جیسے بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ وہ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے دور میں کم و بیش چار سال تک اور بعد میں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے تقریباً ایک سالہ دورمیںوہ سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر (Principal Secretary)کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ اس سے قبل 2013ء کے اوائل تک وہ میاں شہباز شریف کے دورِ حکومت کے پانچ سال کے دوران پنجاب گورنمنٹ میں مختلف محکموں کے سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اسی دوران لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (LDA)میں آشیانہ ہاؤسنگ سیکم کا منصوبہ بنا تو وہ وزیرِ اعظم پنجاب کے سیکرٹری عمل در آمد کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ جولائی 2018ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات سے قبل مئی میں مسلم لیگ ن کی وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں ختم ہوئیں تو نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے نام نہاد سکینڈل کی تفتیش شروع کر دی۔ اور فواد حسن فواد پر یہ الزام دھرا گیا کہ انھوں نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے سیکرٹری عمل در آمد کے طور پر اس سکیم کا ٹھیکہ منظور شدہ ٹھیکیدار یا فرم کو دینے کے بجائے دوسری فرم کو دلوانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے ساتھ ان پر ناجائز اثاثے بنانے کا الزام بھی ٹھونس دیا گیا ۔اور انھیں نیب لاہور میں انکوائری کے لیے طلب کیا جانے لگا ۔5جولائی 2018ء کو وہ پانچویں بار نیب لاہور میں تفتیش کاروں کے سوالوں کے جواب دینے اور ساتھ ہی اپنے اوپر لگائے گئے ناجائز اثاثے بنانے کے الزام کو رد کرنے کے لیے ٹھوس شوائد کے ساتھ پیش ہوئے تو ان کے سامنے ایک بند لفافہ کھولا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ اس لفافے میں ان کے وارنٹ گرفتاری ہیں جو اوپر سے جاری کیے گئے ہیں۔ لہٰذا انھیں گرفتار کیا جاتا ہے۔ فواد حسن فواد کے لیے یقینا دکھ اور صدمے کا مقام تھا کہ آخر ایسا کونسا قصور ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ جلد ہی انھیں اس کا جواب مل گیا جب ان کے سامنے ڈیڑھ صفحے پر مشتمل ایک تحریر رکھی گئی  کہ وہ اس پر دستخط کر دیں تو ان کی گرفتاری یا ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی خبر تک بھی جاری نہیں ہو گی اور انہیں باعزت طور پر تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے کر گھر جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔
آخر ڈیڑھ صفحات پر مشتمل یہ تحریر کیا تھی؟ وہ ایک طرح سے ان کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی تحریر تھی جس میں انھوں نے اقرار کرنا تھا کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں انہوں نے جو کردار (مبینہ طور پر) ادا کیا وہ اُوپر (وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ) کی طرف سے آنے والی ہدایات یا احکامات کی روشنی میں کیا تھا۔ فواد حسن فواد کو ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کی طرف سے بھی سمجھایابجھا یا اور ترغیب دی گئی کہ اس تحریر پر دستخط کرنے سے ان کی مشکلات ختم ہو جائیں گی لیکن فواد حسن فواد نے اس تحریر پر دستخط کرنا اپنی اعلیٰ تربیت کے تقاضوں اور اپنے ضمیر کی آواز کے منافی سمجھا اور نیب کی قید میں چلے جانے کو ترجیح دی۔ فواد حسن فواد جو ایک خوبصورت اور کہنہ مشق شاعر بھی ہیں انھوں نے 5جولائی 2018ء کے عنوان سے اپنی ایک خوبصورت نظم میں اس پورے واقعے کو رقم کیا ہے۔ نظم کچھ اس طرح  ہے۔
5جوالائی 2018
یہی وہ دن تھا
جس دن محتسب نے جال پھینکا تھا
میری آنکھوں کے آگے لا کے
ایک تحریر رکھی تھی
مجھے بس اتنا کہنا تھا
کہ جو کچھ بھی لکھا تھا
بس وہی سچ ہے
میرے کچھ چارہ گر سمجھا رہے تھے
اطاعت وقت کے حاکم کی واجب ہے
اگر میں نے نہ اُن کی بات مانی تو
میرے ذمے بہت سے ان کہے اور ان سنے
جرموں کا کھاتا کھولنا ہو گا
مجھے یہ سوچنا ہو گا کہ جس تحریر پر میں
دستخط کرنے کی حامی بھر نہیں پایا
میں جس الزام کو
ایک تیسرے کے نام آخر دھر نہیں پایا
وہ میرا جرم ٹھہرے گا
فرشتے عرش سے اُتریں گے
فرد جرم کے حق میں گواہی لے کے آئیں گے
تمہارے علم میں ہو گا
ہمارے شہر کا قانون ہر ایسی گواہی کو
بلا چوں و چراں منظور کرتا ہے
وہ اتنے معتبر ہیں کہ
کوئی ان کی گواہی پر
جرح بھی کر نہیں سکتا
میں چاہے لاکھ جھٹلاؤں
میں اپنے آپ کو برباد کر کے
دلیلیں دوں، شواہد لے بھی آؤں
مر نہیں سکتا
بس ان سب کا کہا ہر لفظ ہی
دستور ٹھہرے گا
میرے منصب کو بھائے گا
وہی منظور ٹھہرے گا
میں لمحہ بھر ٹھٹھک کر رہ گیا تھا
میری آنکھوں کے آگے
سبھی پیاروں کے چہرے آگئے تھے
مگر پھر دور سے آواز اک آتی سنائی دی
یہی وہ کربلا ہے
جس کو تم مدت سے
تحریروں میں لکھتے آ رہے ہو
یہی وہ معرکہ حق و باطل ہے
یہی وہ ایک گھڑی وہ ایک ساعت ہے
جہاں انسان کی پہچان ہوتی ہے
سو اب یہ فیصلے کی ایک گھڑی
تم تک بھی آپہنچی
تو اب یہ فیصلہ تم نے ہی کرنا ہے
تمہیں ایک عمر بھر آسودگی سے زندہ رہنا  ہے یا پھر
امام کربلا کے قافلے کے ساتھ چلنا ہے
سو میں نے ایک لمحے میں ہی
اپنا فیصلہ ان کو سنا ڈالا
مجھے رب ِ مکان و لامکاں نے
سچ کی حرمت کو بچانے کا
فریضہ سونپ رکھا ہے
میں ان کے جرم میں کوئی اعانت کرنہیں سکتا
مجھے تاریخ کے اوراق میں ہی
زندہ رہنا ہے

تبصرے بند ہیں.