قومی سلامتی اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات

4

گزشتہ روز منعقد ہونے والے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت اور سیاسی رہنمائوں نے شرکت کی۔اجلاس میں عسکری قیادت کی جانب سے ملک کی مجموعی سیکورٹی صورتحال اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔افغانستان کی حکومت کی سہولت کاری سے کابل میں کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات ممکن ہوئے،جیسے ہی مذاکرات کی خبریں منظر عام پہ آئیںتو پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اس اہم معاملے پہ بات چیت یا کوئی بھی اہم اجلاس کرنے سے پہلے پارلیمان کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے اور فیصلے باہمی مشاورت سے ہونے چاہیے۔اس پرپوزل کے بعد پارلیمان کو اعتماد میں لیا گیا جس کے بعد 22جون کو قومی سلامتی کا اجلاس طلب کیا گیا۔
اگر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اگر حکومتی اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے تھا تو حالیہ اجلاس پارلیمانی جماعتوں اور سیاسی قیادت کا اعتماد بحال کرنے کی جانب اگلا قدم دکھائی دیتا ہے۔مذاکرات کے لیے 53رکنی مذاکراتی کمیٹی کا انتخاب کیا گیا ،اس کمیٹی کے53 ممبران کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ اس کے ممبران میں طالبان پر اثر رکھنے والے قبائلی رہنمائوں اور عمائدین کے ساتھ ساتھ طالبان رہنمائوں کے قریبی رشتے دار بھی شامل ہوں۔
میرے اندازے کے مطابق مذاکراتی ٹیم میں اس بات کا خیال اس لیے رکھا گیا کہ اُن سے مذاکرات کرنے سے اور بات منوانے میں آسانی ہو سکے۔ایک اہم بات جو میں کہنا چاہوں گی کہ یہ مذاکرات تو کافی وقت سے چل رہے تھے مگر تحریک طالبان اور بعض سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بیچ کچھ مسائل حل طلب تھے جس کے لیے اس کمیٹی کے طا لبان کے ساتھ کابل میں یہ مذاکرات کرنا اس لیے بھی ضروری تھا۔
اب اس اجلاس میں ٹی ٹی پی کے کیا مطالبات تھے؟ اصل مدعا بھی یہی ہے جو آج تک وقتا فوقتا مذاکرات تو ہوتے ہیں مگر مذاکرات کس قدر کامیاب ہو سکیں گے اس سارے اجلاس کی کامیابی ٹی ٹی پی کے مطالبات پہ بھی منحصر ہے،کیونکہ اس مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کی جانب سے وہ تمام مطالبات دہرائے گئے جو مطالبات عرصہ دراز سے  ٹی ٹی پی کی طرف سے رکھے گئے تھے،ٹی ٹی پی کی قیادت نے کابل مذاکرات میں اُن کے ساتھ سب سے زیادہ جس مطالبے پہ زور دیا وہ تھا کہ کہ وہ فاٹا کی قبائلی اور آزاد حیثیت کی بحالی تھا۔
اب ٹی ٹی پی کا یہ جو مطالبہ ہے، حقیقتاً یہی بنیادی مسئلہ ہے اب اگر فاٹا کی قبائلی اور آزاد حیثیت کو مانا جائے گا تو اُس کے بڑے تین اہم فیکٹر ہونگے ،اور یہی اہم مطالبہ ٹی ٹی پی کی طرف سے ہے اب وہ تین اہم فیکٹر کیا ہیں اور اُس کے آنے والے وقتوں میں کیا ثمرات ہونگے وہ میں بتانا چاہوں گی۔
نمبر 1،، اگر فاٹا کو قبائلی یا اختیار دے دیا جائے تو وہاں کے سردار بہت ایکٹو ہو جائیں گے اور اُن کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا ۔ اس وقت ٹی ٹی پی کی سر گرمیاں اتنی نہ تو آزاد ہیں اور نہ اُن کو وہ سہولیات ہیں اگر قبائلی علاقوں کو اختیار دے دیا گیا تو وہاں کے سردار اُن کو سہولیات آسانی سے فراہم کرنا شروع کر دیں گے جس سے یہ لوگ اپنی سرگرمیاں انڈر گرائونڈ تیز کر دیں گے جس کا آنیوالے وقتوں میں نہ صرف منفی اثر پڑے گا ،نہ صرف فاٹا بلکہ پاکستان کا خطہ بھی اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔
نمبر2،،اُن قبائلی علاقوںمیں گورنمنٹ آف پاکستان کی رٹ ختم ہو جائے گی اور وہاں کے قبائلی سرداروں کا اثر و رسوخ اُن علاقوں میں بڑھ جائے گا
نمبر3،،فاٹا اور قبائلی علاقوں میں سب سے زیادہ ہماری پاک آرمی کے جوانوں کی شہادتیں ہوئیں جنہیں کوئی بھی فیصلہ لیتے ہوئے ہمیں کسی بھی طرح نہیں بھولنا چاہیے۔
یہ تین اہم پہلو ہیں حکومت کو فیصلہ لیتے وقت ان پہلوئوں کو لازمی مد نظر رکھنا چاہیے کیونکہ یہ صرف مسئلہ فاٹا یا قبائلی علاقوں کا نہیں ہے بلکہ فاٹا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خطے کے امن کا بھی سوال ہے اور پاکستان میں تو پہلے ہی امن کو قائم کرنے کے لیے بڑی مشکلات اور قربانیاں رہی ہیں۔ کیونکہ یہ بات نہایت الارمنگ ہے ،،طالبان کا زیادہ فوکس مستقبل میں اُن کی تنظیمی سر گرمیوں کی آزادی ،بظام انصاف اور جرگوں کی آزادی پر تھا،اس لیے میرا یہ کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے ذمہ دار حلقے اور سیاسی قیادت مل کر بیٹھیں اور ہر معاملے پہ ہم آہنگی اور اتفاق رائے قائم کیا جائے۔کیونکہ قومی سلامتی میں ہمہ گیری کا عنصر ایسے اہم فیصلوں میں پائیداری کا ضامن ہوتا ہے۔
جہاں تک ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات ہے تو یقینا بہت سے ایسے دہشتگرد ہیں جن کے جرائم ناقابل معافی ہیں مگر کئی ایسے بھی ہونگے جو دہشتگردی کے اس ماحول سے نکلنا چاہتے ہیں ،مذاکرات اور معاہدوں زیر اثر ایسے افراد کو انتہا پسندی کی دُنیا سے کنارہ کشی اور سماج کا حصہ بننے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔میرے خیال سے ریاست کو اس اعتماد کے ساتھ مذاکرات میں شامل رہنا چاہیے کہ آئین کے مطابق جائز مطالبات مانے جائیں جو کوئی ان شرائط کے مطابق سرنڈر کرتا ہے اسی سے بات چیت بڑھائی جائے۔
دہشتگردی کے خلاف امن کا ہتھیار اپنی جگہ اہم ہے اور ریاستی سطح پر کہیں بھی اس آپشن کو رد نہیں کیا جا سکتا۔افواج پاکستان اور سکیورٹی فورسز کے دیگر اداروں اور عوام کی بے مثال قربانیوں سے وطن عزیز میں امن اور ریاستی ریاستی عمل داری بحال کرنے کی بے مثال قربانیوں سے وطن عزیز میں امن اور معمول کی زندگی یقینی بنانے میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے اسے پائیدار بنانے کیلئے اگر امن اور مذاکرات کا راستہ ہموار ہوتا ہے تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں ریاست اور ریاستی اداروں کی جانب سے جو یقین دہانی کروائی گئی ہے یقینا اس کی اہمیت ہے ،اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کو قائم رکھنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کا بھی ایک پیج پہ ہوناضروری ہے۔اس اہم معاملے پر بندکمرہ اجلاس کیا گیا جس میں اکثریت حکومتی نمائندوں کی تھی،مگر یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ حکومتی جماعت کی طرف سے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی مدعو کیا گیا ۔

تبصرے بند ہیں.