عوامی ہیجان

13

بیشتر سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت اور ملک و بیرونِ ملک املاک، جائیدادوں اور اثاثوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کے عوام کو بری طرح لوٹا گیا ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں کی شناخت کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ درست ہے کہ ہم اپنے ان مجرموں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچا سکے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں احتساب کی مشینری بالکل ناکارہ ہو چکی ہے جس کے باعث ہماری قوم ان مجرموں کا دامن پکڑنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے احتسابی ادارے کہیں اور سے ہدایات لیتے ہیں، ان پر پریشر بھی ہے جیسے کہ گزشتہ روز سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک کالم نگار کو انٹر ویو میں کہا ہے کہ ہم احتساب کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ، چیئر مین نیب کہیں اور سے ہدایت لیتا تھا۔ ہمارے ہاں احتساب کی مشینری بالکل ناکارہ ہو چکی ہے جس کے باعث قوم ایسے افراد کا دامن پکڑنے سے قاصر ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم کسی خالص جمہوری نظام میں نہیں رہتے۔ ہمارے حکمران منتخب ہو کر ضرور آتے ہیں لیکن ان کے تمام تر رویے جمہوریت کے اعلیٰ ترین اصولوں کے خلاف ہیں۔ ہمارے ادارے بھی کمزور ہیں اور وہ ان حکمرانوں کا بجا طور سے احتساب کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے نتیجہ انسدادِ بد عنوانی کے ٹھوس اقدامات کی صورت میں سامنے نہیں آتا۔ سابق وزیرِ اعظم احتساب کے حوالے سے جو بھی کوششیں کرتے رہے لیکن ہمارے نظام نے ان پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ گزشتہ سال ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے کرپشن کا پیمانہ جانچنے کے لئے کرائے گئے ” نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2021ء ” کی رپورٹ کے مطابق جس میں ملک میں کرپشن، مہنگائی اور بیروزگاری کی بڑی وجوہ کے بارے میں پاکستانی عوام کی رائے طلب کی گئی تھی۔ سروے کے نتائج سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ احتساب کا کمزور نظام، طاقتور طبقے کی ہوس کرپشن کی بڑی وجوہات ہیں جب کہ انتظامی نا اہلی، سیاست دانوں کی کارِ سرکار میں مداخلت اور کرپشن سے معاشرتی تفریق گہری ہوتی جا رہی ہے، ایک قلیل سا طبقہ امیر تر اور دوسرا غریب تر ہوتا جا رہا ہے، جو ملک کی پسماندگی اور معاشی تنزلی کا باعث ہے۔
احتساب کا کمزور نظام ہی ہے جس کی وجہ سے
اراکینِ اسمبلی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعددولت کے ڈھیر تلاش کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ اپنے ذاتی مسائل اور مفاد کی دیکھ بھال اور حفاظت میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عوام کے مسائل اور ان کی فلاح و بہبود کو سرد خانے کی نظر کر دیتے ہیں نتیجتاً حکمران طبقہ تو عیش و عشرت کی زندگیاں گزارتا ہے اور امپورٹڈ اشیاء کے استعمال کا ذکر مغرورانہ انداز میں کرتا ہے جب کہ غریب عوام یوٹیلٹی سٹورز کے سامنے گرم چلچلاتی دھوپ میں لمبی لمبی قطاریں لگائے گھنٹوں آٹے، دالوں، گھی، شکر اور دوسری ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لئے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں یا فاقہ کشی کرتے ہیں اور خود کشی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج چاروں جانب مایوسی، بے چینی، اضطراب، غربت، بیماری اور بد دیانتی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اہلِ اقتدار لوگوںکی خواہشوں اور امیدوں کے برعکس صرف اپنا مستقبل محفوظ کر رہے ہیں۔ کوئی اپنے کیسیز سیدھے کر رہا ہے تو کہیں مہنگائی کا دور دورہ ہے۔ جو باتیں اپوزیشن تحریکِ انصاف کے دورِ اقتدار میں پوائنٹ اسکورنگ کے لئے کیا کرتی تھی وہ آج حکومت میں آنے کے بعد خود سے کر رہی ہے۔ لوگوں کا غصہ ان کی روز مرہ گفتگو میں نظر آ رہا ہے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے موجودہ حکمرانوں، مقتدر اداروں، انصاف دینے والی کرسیوں اور سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ایجنسیوں کے اہلکاروں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، ان سے نفرت کرنے لگے ہیں، ان کی تصویر دیکھ کر ان کا خون کھولنے لگتا ہے۔ یہ غصہ گھر کی چار دیواری، دفاتر کے بند کمروں اور جا بجا محفلوں میں کثرت سے نظر آ رہا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے میری ذاتی رائے میں یہ بڑی گھمبیر صورتحال ہے اور لوگوں کی اکثریت ایک بار پھر سے تبدیلی کے جذبے سے ابلنے اور کھولنے لگی ہے، جو کہ عمران خان کی کال پر نکلنے والی لوگوں کی تعداد سے بخوبی دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ آج وہ وقت ہے جب کوئی شخص حکمرانوں کی تعریف کرنا بھی چاہے تو لوگوں کے خوف سے نہیں کر سکتا۔ آج معاشرے میں ایسی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کہ حکمرانوں کی تعریف صرف ان کے کارندوں، پارٹی ورکروں، زر خرید یا خوف زدہ میڈیا کے سوا کوئی کرنے کی جرأت نہیں کر رہا ہے۔ عام آدمی کی نفرت اس قدر زیادہ ہے کہ لوگ ذرہ سی بھی حمایت کرنے سے ڈرنے لگے ہیں کہیں انہیں بھی بد دیانتوں کی صف میں نہ کھڑا کر دیا جائے۔ ایسی ہی کیفیت آج وطنِ عزیز میں چہار سو چھائی ہوئی ہے، جہاں بھی چلے جائیں حکمرانوں کو برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ مجھے گزشتہ دنوں میں دوسرے شہروں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا ہر جگہ ایسی ملتی جلتی کیفیت چاروں اطراف احاطہ کئے ہوئے ہے۔
آج یہ صورتحال ہے جو تجزیہ نگار یا اینکر پرسن حکومت یا حکمرانوں کی حمایت کررہا ہے چند ہی دنوں میں اس کا پروگرام مقبولیت کے گراف سے گر جاتا ہے۔ جس اینکر پرسن پر عوام کو شک ہو جائے کہ یہ دانستہ طور پر حکومت کی طرف داری کر رہا ہے تو اس سے خواہ وہ کتنی محبت کرتے ہوں، اس کے پروگرام مقبولیت کی انتہا پر ہو، لوگ یکدم اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ یہ وہ کیفیت ہے جس میں ابلتا ہوا غم و غصہ کسی ایک لمحے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی ملک میں تبدیلی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو ایک واقعہ ایسا ضرور ملے گا جس نے پورے ماحول میں ایک ایسی آگ لگائی کہ وہ اس وقت تک نہ تھمی جب تک اس نے حکومت کے ایوانوں کو خس و خاشاک میں تبدیل نہ کر دیا۔ ہم نے دیکھا کہ جلسوں میں پہلے بھی لوگ شریک ہوتے تھے لیکن یہ صورتحال پہلی بار دیکھی جا رہی ہے کہ لوگ بن بلائے ہی پہنچ رہے ہیں ہر کوئی اس آفت زدہ صورتحال سے چھٹکارہ چاہتا ہے۔ کیا پاکستان میں ایسا عالم نہیں کہ حکومت کے حق میں بات کرنے والے تجزیہ نگار مقبولیت کھو دے، کیا محفلوں میں لوگوں کے غصے کی وجہ سے حکومت کے کسی اچھے کام کی تعریف سے نہیں کتراتے، کیا لوگوں میں ایک ہیجان اور اپنے اندر موجودہ قیادت پر عدم اعتماد موجود نہیں؟
جو کیفیت ملک میں آج ہے شائد اس سے قبل کبھی بھی نہ ہو گی، عوامی رائے جس حد تک اداروں کی مداخلت کا ببانگِ دہل ذکر کرتی نظر آ رہی ہے اس کے نتائج کچھ اچھے نہیں ہوں گے۔ جب کہ ان اٹھنے والی آوازوں کو ہر طرف سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ معاملات کو سدھارا جائے الٹا دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں اگر اس صورتحال کو کنٹرول کرنی کی کوشش نہ کی گئی تو نتائج بہت مضر اور خطرناک رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ جب بڑے بڑے فیصلے کئے جاتے ہیں تو ان میں غلطی کا احتمال ہمیشہ سے رہتا ہے اس پر سبکی محسوس نہیں کرنی چاہئے، بڑا پن یہ ہے کہ ان غلطیوں کے تصیح کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔

تبصرے بند ہیں.