تب تک آس

44

پرانا محاوہ ہے، جب تک سانس تب تک آس۔ محاورے اپنے اندر آفاقی دانش اور صدیوں کی دانائی کی پہنائی لیے ہوتے ہیں۔ توقف برائے غور و فکر کریں تو یہ روز مرہ محاورے، اکھان اپنے اندر پوشیدہ دانائی کی پوٹلی  چپکے سے گوشِ شعور اور چشمِ بصیرت کے سامنے کھول دیتے ہیں۔ شعور ہوش و گوش ہی کا نام ہے— شور سے نجات دینے والا ہوش و گوش!! عام فہم معانی اس محاورے کے یوں ہیں کہ جب تک سانس کی ڈوری قائم ہے، تب تک اْمید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ سانس کی ڈوری کو زندگی کے تسلسل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ زندگی نَو بہ نَو امکانات کے تسلسل کا نام ہے، اور موت تمام امکانات کے ختم ہو جانے کا نام!! مراد یہ کہ جب تک زندگی موجود ہے، زندگی کے بہتری کے امکانات بھی موجود ہیں۔ کسی بھی لمحے، کسی بھی صبح کچھ بھی ہو سکتا ہے— یعنی کچھ اچھا ہو سکتا ہے۔ اندیشے بے نام ہوتے ہیں، اْمید نام ور ہوتی ہے۔ اْمید کا اپنا بھی ایک نام ہوتا ہے اور یہ کسی کے نام سے منسوب بھی ہوتی ہے۔ کیسی حقیقت ہے کہ محب نارسائی کے باوجود محبوب کے وصال کی اْمید سے کبھی دست بردار نہیں ہوتا۔ جس کی زندگی میں محبوب نہیں، اْسے گویا اْمید سے تعارف ہی نہیں۔
انسان بنیادی طور پر بشر ہے، شر اس کے اندر گوندھا گیا ہے، وہ آدمی بننے کی کوشش میں ہے، جب آدمی بن جائے گا تو انسان بننے کا امکان بھی پیدا ہو جائے گا۔ انسان خطا کا پتلا ہے، وہ خطا کرتا ہے، دھوکا کھا لیتا ہے، تجسس اسے کسی انجانے راستے پہ چلنے پر مجبور کر دیتا ہے  اور یوں وہ جانے اَن جانے میں کسی خطا کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان کی خطا کاری اس کی زندگی پر کوئی کاری ضرب نہیں لگا سکتی کیونکہ وہ اپنی خطا سے آگاہ ہوتا ہے اور فوری طور پر خطا کا اعتراف کر لیتا ہے۔ اعترافِ خطا کے بعد ندامت کا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور ندامت کو توبہ کی شاخ کہا گیا ہے۔ گویا خطا کاری پر توبہ اور ندامت اْسے زیاں کاری سے نجات کا راستہ سجھا دیتی ہے۔ دراصل انسان کا عجز ہی اس کی طاقت ہے۔ انسان اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ خود کو جھکا سکتا ہے۔ اکڑفوں میں رہنے والا، غرور اور تکبر میں اکڑا ہوا اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور ہے، اور یہ مجبوری دراصل ایک کمزوری ہے۔
حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش اپنی شہرہ آفاق تصنیف "کشف المحجوب” کے ایک باب
"اثباتِ علم” میں  یوں رقم طراز ہیں۔ مفہومِ عبارت یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرے اور علم میں کمال حاصل کرے تاکہ وہ جان لے کہ اس کے علم کی حدود کیا ہیں، جب وہ کمالِ علم کو پہنچے گا تو غرورِ علم سے نکل جائے گا اور اس پر کھلے گا کہ وہ حصولِ علم سے کس قدر عاجز ہے، اور یہ نہ بھولنا چاہیے کہ انسان کا تمام تر علم تسمیات کا علم ہے، یعنی اشیاء کے نام رکھنے اور پھر نام یاد رکھنے کا علم ہے، اور انسان کا علم، علمِ الٰہی کے مقابلے میں کچھ بھی علم نہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ تو اتنا علم حاصل کر کہ تو جان لے کہ تو کچھ نہیں جانتا۔ سبحان اللہ!
علم کے راستوں پر چلنے کا شرف صرف انسان کے لیے مقرر ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ علم جنت کے راستوں کا نشان ہے۔ جنت سلامتی کی قیام گاہ ہے۔ لازم ہے کہ یہاں جس علم کا ذکر ہو رہا ہے وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی سلامتی کا ضامن ہوگا۔ احادیثِ مبارکہ میں یہ بھی فرمایا گیا کہ علم کے راستے پر چلنے والوں کے لیے اللہ کی مخلوق دعائیں کرتی ہے ، یہاں تک کہ سمندر کی مخلوق بھی اس کے حق میں دعائیں کرتی ہے۔  مقامِ غور ہے کہ آج کا انسانی علم جو بحر و برّ میں  فساد برپا کر رہا ہے، اس سے متاثر ہونے والی ارضی اور آبی مخلوق ہمارے حق میں دعا کر رہی ہے یا ہم سے پناہ مانگ رہی ہے؟ لازم ہے کہ ہم اپنے علم، ماخدِ علم اور مقاصدِ علم پر غور کریں، اور اپنے اپنے نصابِ تعلیم اور نصابِ زیست کو نئے سرے سے ترتیب دیں۔ جنگ و جدل، مار دھاڑ اور انسانوں اور دیگر مخلوقات پر غلبہ و تصرف حاصل کرنے کا علم انسان کو انسان سے اور انسان کے خالق سے دْور کر دے گا۔
علم کو نْور کہا گیا ہے— نْور میں ٹھنڈک ہے— دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک۔ نْور میں تھکن نہیں۔  نْور میں لطافت ہے، کثافت نہیں۔ نْور میں روشنی ہے، نظر چندھیا دینے والی چکاچوند نہیں۔ اگر میں نے اپنے کمرے میں ٹھنڈک پیدا کر لی اور کمرے سے باہر گرمی اور حبس میں اضافہ کر دیا تو یہ کون سی ترقی ہے۔ اپنے گھر کو روشن کرنے کے لیے دوسروں کی دنیا اندھیر کر دی تو یہ کون سی فتح ہے، یہ کیسی ترقی ہے۔ اگر میں ترقی کی دوڑ میں کارخانوں کی چمنیاں اندھا دھند کھڑی کرکے دنیا کو فوگ اور سموگ میں لپیٹ دوں اور خطہ ارضی پر قائم اوزون کی حفاظتی تہ کو تہ و بالا کر دوں تو اس نام نہاد ترقی پر مجھے پچھتاوے اور ندامت کے سوا کیا حاصل ہو گا؟ یہ کمال نہیں، زوال ہے—بلکہ کمال کا زوال ہے۔
لازم ہے کہ انسان مادی ترقی کا رخ اپنے بھائی بندوں کے استحصال سے موڑ لے اور فلاح اور خدمت کے طرف لے جائے۔ اس طرح انسانیت بھی بچ جائے گی اور وہ خود بھی بچ جائے گا۔ بصورتِ دیگر ہم دوسروں کی ہلاکت کی تدبیر میں خود اپنے لیے ہلاکت کا سامان اکٹھا کیے جا رہے ہیں۔ سارے جہاں کی سلامتی میں میرے گھر کی سلامتی ہے۔ دور کسی جنگل میں بھی آگ لگ گئی تو اس کا دھواں میرے گھر تک پہنچے گا، اگر میں دیکھ سکوں تو میں دیکھ سکوں گا کہ میری آنکھوں میں شاید نہ چبھے لیکن میری اولاد کی آنکھوں میں ضرور جلن پیدا کرے گا۔ اس مفہوم کو مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے ایک مختصر لیکن بلیغ جملے میں یوں کہا ہے” سب سلامت تو ہم سلامت” ۔
جہاں علم کو نور کہا گیا ہے ، وہاں علم کو حجاب بھی کہا گیا ہے۔ علم حجابِ اکبر کیسے بنتا ہے؟  علمِ حقیقی ذاتِ حقیقی کے پاس ہے۔ یہاں تک کہ اس ذات کو "العلم” بھی کہا جاتا ہے۔ علم ہی پہلے تھا اور علم ہی آخر میں ہو گا، اْس ذات نے اپنے علم ہی کے سبب ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، اْس کا علم ہی اسے سونے نہیں دیتا۔ کامل علم کامل بیداری لے کر آتی ہے۔ جب علم لینے والا علم دینے والی ذات سے گریزاں ہو جائے تو وہ علم اس کے لیے حجابِ اکبر بن جاتا ہے۔ جب علم صفات کی دنیا میں الجھ کر رہ جائے اور ذات کی طرف متوجہ نہ ہونے دے، تو ایسا علم حجابِ اکبر ہے، کہ وہ ذاتِ اکبر سے غافل کر رہا ہے۔ اگر ذاتِ مطلق کو مطلق علم کہہ دیا جائے تو کسی بھی ذات کا قیام صرف اس ذات سے متعلق ہونے سے ممکن ہو گا، اور اس سے روگردانی کی صورت میں جہل کے مترادف ہو گا۔ ابوالحکم کو ابوجہل بننے میں اتنی ہی دیر لگی تھی جتنی اْس ذاتؐ کو جھٹلانے میں جس ذات کو اْس نے اپنا ذاتی جلوہ دے کر بھیجا تھا— العلم اپنے بندوں سے شہرِ علمؓ اور درِ علمؓ کی معرفت ہم کلام ہوتا ہے— ابو جہل کے برعکس حبش کے بلالؓ ، یمن کے ابوذرؓ اور فارس کے سلمانؓ جب اْس روشن ذات کہ جو کائنات میں روشنی کا سبب ہے— سراجاً منیراً کی طرف  مائل و متوجہ ہو گئے تو جہل سے دور ہو گئے — نورِ علم سے مالا مال ہو گئے ، اک زمانے کو علم کا نور بانٹنے پر مامور ہو گئے۔
جب تک سانس قائم ہے، اْمید قائم رہتی ہے— جب تک سانسوں کی مالا پہ پی کا نام جاری ہے،تب تک آس کے آسن بیٹھ رہنا چاہیے کہ ظلمت و کثافت کا یہ پیکرِ خاکی کسی بھی لمحے، کسی بھی شبھ گھڑی، کسی سمے کے بندھن میں ایسا بندھے کہ حجلہ نور بن جائے۔

تبصرے بند ہیں.