آزادی اظہار رائے ہر عہد کے لئے ہے!

16

سینئر صحافی اور معروف کالم نگار ایاز امیر پر ہونے والے حملے کی کا واقعہ آج کل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ ہر طبقہ فکر کے افراد کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو ہدایت کی ہے کہ حملے میں ملوث افراد کی فوری نشاندہی کی جائے اور حملہ آوروں کی گرفتاری کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر داخلہ پر امید ہیں کہ چند ہی دنوں میں حملہ آور قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ تاہم سچ یہ ہے کہ ماضی کو پیش نظر رکھیں تو ملزمان کی گرفتاری کو کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں صحافیوں کے ساتھ تشدد کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ان کو غوا کیا جاتا رہا۔ نوکریوں سے فارغ کروایا گیا۔ یہاں تک کہ قتل کر دیا گیا۔ مجرم قانون کی گرفت سے کوسوں دور رہے۔ دعا ہے کہ اس مرتبہ یہ معاملہ مذمتی بیانات سے آگے بڑھے۔ ا یاز امیر کے حملہ آور قانون کی گرفت میں آئیں اور کڑی سزا پائیں۔
چند دن پہلے ایاز امیر نے ایک تقریب میں پاکستانی فوج سے متعلق کچھ معاملات کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ ایک حلقہ اس حملے کو اس تنقید کیساتھ نتھی کر رہا ہے۔ سیاسی مخالفین اسے شہباز حکومت کی کارروائی بھی قرار دیتے ہیں۔ کچھ ایسے تبصرے بھی مجھے سننے کو ملے جن میں خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ سڑک پر کھومتے پھرتے غنڈوں کی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ جنہوں نے پہلے ڈرائیور کو زد و کوب کیا۔ اس کے بعد ایاز امیر کو تشدد کانشانہ بنایا۔ ان کا پرس اور موبائیل چھینا اور فرار ہوگئے۔ بہتر ہے کہ کسی بھی قسم کے نتائج پر پہنچنے سے قبل تحقیقات مکمل ہونے کا انتظار کیا جائے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد اس واقعے کی تحقیقات مکمل کرے اور اصل حقائق قوم کے سامنے لائے۔
یہ واقعہ چونکہ ایک صحافی کیساتھ پیش آیا ہے تو اسے لامحالہ آزادی اظہار رائے اور زبان بندی جیسے معاملات کیساتھ نتھی کیا جا رہا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ ہمارے ہاں آزادی اظہار رائے کی حالت کون سی بہت عمدہ ہے؟ آج سے نہیں گزشتہ کئی برس سے حالات بد سے بدترین کی جانب گامزن ہیں۔ لیکن آزادی اظہار رائے پر بات کرنے سے قبل اس واقعے سے جڑے ایک اہم پہلو پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ واقعہ شہر لاہور میں پیش آیا ہے۔وہ بھی کسی گمنام ویران سڑک یا علاقے میں نہیں۔ بلکہ ایک معروف اور بارونق علاقے کی مصروف سڑک پر۔ اس جگہ سرکاری ٹیلی ویژن پی۔ٹی۔وی کا دفتر واقع ہے۔ قریب ہی ڈی۔جی۔پی۔آر جیسا اہم ادارہ قائم ہے۔ ذرا فاصلے پر ریڈیو پاکستان کا دفتر ہے۔نجی ٹیلی ویژن دنیا ٹی وی کا ہیڈ آفس بھی یہیں واقع ہے۔ جیو، جنگ اور دی نیوز کے دفاتر اس جگہ پر قائم ہیں۔سارے شہر کے صحافیوں کا مسکن، لاہور پریس کلب بھی یہیں واقع ہے۔ نادرا کا دفتر بھی قریب واقع ہے۔کچھ ہی فاصلے پر گورنرہاؤس بھی ہے۔ یعنی یہ ایک مصروف اور حساس علاقہ ہے۔ اس کے باوجود  امن عامہ کی حالت دیکھیے۔ نہایت سہولت اور دیدہ دلیر ی کیساتھ چند غنڈوں نے سر راہ ایک شخص کو زدو کوب کیا۔ اس کا موبائیل اور پرس چھینا اور کسی روک ٹوک کے بغیر چلتے بنے۔  یہ وہ شہر ہے جہاں کروڑوں روپے کی مالیت سے سیف سٹی پروجیکٹ قائم ہے۔ اس کے باوجود اگر امن عامہ کی یہ صورتحال ہے تو اندازہ کیجیے کہ عام آدمی کی جان و مال کس قدر محفوظ ہے۔ شہر کی انتظامیہ کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔
جہاںتک آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں کامل آزادی ہمیں کبھی حاصل نہیں رہی۔ کسی بھی دور کو صحافتی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کیلئے مثالی دور نہیں کہا جا سکتا ۔ فوجی آمریتوں کے دوران آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹا ہی گیا، تاہم جمہوری ادوار بھی کچھ پیچھے نہیں رہے۔ ان حکومتوں نے بھی حتی المقدور کوشش کی صحافیوں کی آوازوں پر قدغنیں نافذ رہیں۔ مطلب یہ کہ صحافیوں کو کسی بھی زمانے میں سکھ کا سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔ لیکن گزشتہ چار پانچ برس سے ہمارے ہاں آزادی اظہار رائے کی  حالت بدترین رہی ہے۔ سینئر صحافی نوحہ کناں رہے کہ اس قدر پابندیوں اور خوف و ہراس کا سامنا انہیں ماشل لائی ادوار میں بھی نہیں کرنا پڑا۔صرف پاکستانی صحافی ہی نہیں، ملکی اور بین الاقوامی ادارے جو صحافتی اور شہری آزادیوں کو ماپتے اور ان کی درجہ بندی کرتے ہیں، ان کی رپورٹس بھی ہمیں یہی بتاتی رہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ، ہیومین رائٹس واچ، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر، فریڈم نیٹ ورک اور دیگر ادارے جب بھی اپنی اپنی رپورٹیں شائع کرتے اس میں ہم گزشتہ برس کے مقابلے میں کئی درجے نیچے لڑھک گئے ہوتے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ حکومتی اور ریاستی چھتری کے نیچے ہوتا رہا۔ہیومن رائٹس واچ کی تازہ رپورٹ میری نگاہ سے گزری۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ  2021″ میں پاکستانی حکومت ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے اور اختلاف رائے کا گلا دبانے کی کوششوں میں تیزی لائی ہے۔ حکام نے سرکاری عہدیداروں اور پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے والے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنان کو ہراساں کیا اور بعض اوقات حراست میں لیا۔ ذرائع ابلاغ کے لوگوں پر پر تشدد حملے بھی جاری رہے۔ حکام نے اختلاف رائے کو دبانے کے لئے غداری اور انسداد دہشت گردی قوانین کے اطلاق کا دائرہ وسیع کیا اور حکومتی کارروائیوں اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والی سول سوسائٹی تنظیموں پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ حکام نے مخالف سیاسی جماعتوں کے اراکین اور حامیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا۔”
یہ ایک طویل رپورٹ ہے۔ جس میں مختلف قسم کی آزادیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ آج کل ہم آزادی رائے کے حوالے سے مخصوص قسم کی آوازیں سن رہے ہیں۔چند ٹی وی اینکرز بہت شد و مد سے آزادی اظہار رائے کی دہائی دے رہے ہیں۔ فوج کے ادارے کو سر عام ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ حکومت وقت کو گالیوں سے نواز رہے ہیں۔چند برس پہلے تک آزادی اظہار رائے کے یہ علمبردار دیگر صحافیوں کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ کسی کی مار پیٹ ہوا کرتی۔ کسی کو گولی لگتی۔ کسی پر تشدد ہوتا۔ کسی کا اغوا ہوتا۔ کسی کی نوکری جاتی۔ مذمت یا  اظہار افسوس کے بجائے مذاق اڑایا جاتا۔ سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتیں۔ 2021 میں معروف صحافی ابصارعالم کو گھر کے باہر گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اسد طور نامی صحافی کے گھر میں گھس کر اس پر تشدد ہوا۔ مطیع اللہ جان کے اغوا کی کوشش کی گئی۔ تب بہت سوں کو لگتا تھا کہ یہ سب کچھ کھیل تماشا ہے۔ کہا گیا کہ یہ سب شہرت سمیٹنے کے حربے ہیں ۔ حامد میر کا ٹی وی پروگرام کئی ماہ تک بند رہا۔ طلعت حسین سمیت کئی صحافیوں کو نوکری سے فارغ کیا گیا ۔ تب کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ آج ان اینکروں کو آزادی اظہار کا خیال آرہا ہے۔مجھ جیسے صحافت کے طالب علم تو ہر زمانے میں آزادی اظہار رائے کے حق میں لکھتے بولتے رہے ہیں۔ عمران دور حکومت میںجو غلط ہوا کرتا تھا ، اسے غلط لکھا بولا کرتے تھے۔ آج شہباز دور حکومت میں بھی صحافیوں یا آزادی اظہار کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو وہ بھی اسی قدر غلط ہو گا، جتنا گزشتہ دور میں تھا ۔ نہایت ضروری ہے کہ یہ بات یاد رکھی جائے کہ آزادی اظہار رائے ہر عہد اور ہر زمانے کے لئے ہے۔ آزادی اظہار رائے ہر شہری، ہر صحافی اور ہر نقطہ نظر کے حامل افراد کے لئے ہے۔ یہ صرف کسی ایک زمانے، کسی ایک عہد حکومت، کسی ایک طبقہ فکر  یا کسی ایک ٹولے کے لئے مخصوص نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.