مہنگائی اور اقتصادی راہداری

18

یکم جولائی کا سورج اہلِ وطن کے لیے ایک تکلیف دہ خبر پٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے اضافے کی صورت میں یوں لایا کہ اب فی لیٹر قیمت دو سو انچاس روپے تک جا پہنچی ہے۔ جبکہ اس بُری خبر کے آنے سے پہلے ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 1.01 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد مہنگائی کی مجموعی شرح 28.05 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح حالیہ بجٹ میں حکومت کی طرف سے تخمینہ لگائی گئی شرح سے تقریباً 17 فیصد زیادہ ہے، جس سے مہنگائی کو قابو کرنے کے حوالے سے حکومت کی عدم توجہی کا اندازہ ابھی سے لگایا جا سکتا ہے۔ گزرے ہفتے کے دوران 32 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ حالیہ کچھ مہینوں سے ملک مہنگائی کے جس شدید طوفان کی زد میں ہے اس کی وجہ سے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اس ہوش ربا مہنگائی کی وجہ سے غریب طبقے کی قوتِ خرید تو متاثر ہوئی ہی ہے، سفید پوش طبقے کے لیے بھی اپنی ضروریات کا سامان فراہم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کو وجہ بنا کر ملک میں منافع خوری اور خود ساختہ مہنگائی کا بازار گرم ہے۔ حالانکہ ملک میں خود ساختہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی موجود ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جنگی بنیادوں پر ان کمیٹیوں کو فعال کرے اور ایسے سخت اقدامات کیے جائیں جن سے کم از کم اس خودساختہ مہنگائی پر تو قابو پایا جا سکے۔ تاہم ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پچھلے دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے پاک بحریہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا معاشی مستقبل پاک چین اقتصادی راہداری کی کامیابی سے منسلک ہے۔ اس سے ایک روز قبل گوادر کے دورہ کے موقع پر بھی وزیراعظم نے پاک چین اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں کی ترقیاتی رفتار بڑھانے اور زیر تکمیل منصوبوں کی بروقت تکمیل پر زور دیا۔ ڈیڑھ ماہ کے دوران وزیراعظم کا گوادر کا یہ دوسرا دورہ تھا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت پاک چین اقتصادی راہداری پر تعطل کا تاثر زائل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ کہنے کی حد تک سبھی حکمران اقتصادی راہداری کو ملک کے معاشی مستقبل سے تعبیر کرتے آئے ہیں مگر اس کی عملی تشکیل کی کوششیں محل نظر رہی ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ تین چار برس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اس دوران اقتصادی راہداری کی ترقیاتی رفتار توقع سے بہت سست رہی۔ ایسا کیوں ہوا اس کی متعدد وجوہ نکل آئیں گی تاہم ان توجیہات میں الجھنے کے بجائے حکومت اور اداروں کو اپنی نظریں کارکردگی  پر مرتکز رکھنی چاہئیں۔ ماضی میں جو ہو چکا اس کی تلافی کی یہی ایک صورت ہے کہ کام کی رفتار بڑھا دی جائے اور جو منصوبے التوا کا
شکار رہے ان کی تکمیل ترجیحی بنیادوں پر کی جائے۔ اس سلسلے میں گوادر کے ترقیاتی منصوبوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ یہ اس بین الاقوامی اقتصادی منصوبے کا منبع ہے۔ مگر جس شہر کو ایک عالمی اقتصادی مرکز کے طور پر ترقی دینا مقصود ہے وہاں ڈھنگ کا کوئی ائیر پورٹ بھی نہیں بن سکا۔ ائیر پورٹ تو کیا گوادر کی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بجلی کا کوئی قابلِ بھروسا پیداواری انتظام بھی نہیں جبکہ سمندری پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنانے کے پلانٹ کا جو منصوبہ 2006ء میں حکومتی سطح پر منظور کر لیا گیا تھا اس کی تعمیر ابھی اسی سال مارچ میں شروع ہوئی ہے۔ پینے کے پانی کے پلانٹ کے بعد گوادر کا ائیر پورٹ دوسرا اہم ترین منصوبہ ہے جس نے ترقیاتی تعطل کا ریکارڈ قائم کیا۔ بہرکیف اب وفاقی وزیر منصوبہ بندی یہ امید دلا رہے ہیں کہ نیو گوادر انٹر نیشنل ائیر پورٹ آئندہ برس مارچ سے آپریشنل ہو جائے گا۔ بہترین سفری سہولیات اور وسائل اقتصادی ترقی کا بنیادی تقاضا ہوتے ہیں اس لیے امید کی جاتی ہے کہ اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے اس بین الاقوامی معیار کے ائیر پورٹ کی تکمیل گوادر کی ترقی کے لیے عمل انگیز ثابت ہو گی۔ اقتصادی راہداری کو پاکستان کے معاشی مستقبل کی علامت بنانے کے لیے سپیشل اکنامک زونز کی جلد از جلد تکمیل اور یہاں صنعتی سرگرمیاں یقینی بنانا بھی اہم ہے۔ سی پیک کا ایک ذیلی تصور یہ تھا کہ چینی صنعتوں کو پاکستان منتقل ہونے کی دعوت دی جائے گی اس طرح ملک میں صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جو فی الوقت ہماری ایک اہم ترین ضرورت ہیں۔ مگر یہ تصور کیونکر عملی صورت اختیار کر سکے اگر اکنامک زونز ہی موجود نہ ہوں اور اگر زمین ہو اور وہاں بجلی گیس اور دیگر مطلوبہ سہولیات نہ ہوں۔ ہمارے ملک کی اقتصادی اور صنعتی ترقی سے براہ راست منسلک ان ترقیاتی سرگرمیوں میں بھی غیرمعمولی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ کہ جن سپیشل اکنامک زونز کو 2020ء میں مکمل ہونا تھا وہاں ابھی تک کام مکمل نہیں ہو سکا جبکہ چار اکنامک زونز جنہیں فاست ٹریک پر جلدی مکمل ہونا تھا وہاں ابھی نصف کام بھی نہیں ہو سکا۔ اکنامک زونز کی تعمیر میں یہ سست روی فکر مند ی کا باعث ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز ملک کے بہترین مفاد کے ان منصوبوں کی افادیت کا اتنا بھی ادراک نہیں کر سکتے۔ اکنامک زونز کی تکمیل کے بعد ہی غیر ملکی کمپنیوں کو صنعتیں منتقل کرنے کی دعوت دی جا سکتی ہے اور اگر یہی کام نہیں کر سکے تو صنعتی منصوبوں اور سرمایہ کاری کی آمد روزگار کے مواقع اور برآمدات کا دور تو ابھی بہت دُور کی بات سمجھنی چاہیے۔ مگر اس سلسلے میں دو حقیقتیں مد نظر رہنی چاہئیں ایک یہ کہ پاکستان منتقلی کیلئے تیار چینی صنعتیں ہمیشہ ہمارے انتظار میں نہیں رہیں گی اگر ہم انہیں جگہ اور مطلوبہ سہولیات فراہم کر کے یہاں آنے کے لیے آمادہ نہ کر سکے تو مشرقی ایشیا اور افریقہ میں کاروبار کے لیے متعدد پُر کشش ٹھکانے موجود ہیں؛ چنانچہ ہمیں اپنے روایتی آلکسی رویے سے نکل کر حقیقت کی دنیا اور معاصر دنیا کے کام کرنے کے انداز اور اطوار سیکھنا ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ نوجوان جو ملکی آبادی کا غالب حصہ ہیں انہیں روزگار کے مواقع فراہم نہ کرنا سماجی اور معاشی اعتبار سے خوفناک ہو گا۔ ہمیں اپنی برآمدات کو زرعی پیداواری صنعتوں کے بجائے متنوع بنانا اور برآمدات میں دیگر مصنوعات کا حصہ بڑھانے کے لیے بھی کچھ کرنا ہو گا تاکہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے کم و بیش ایک ہی جگہ پر ساکت برآمدی حجم میں کچھ اضافے کا امکان پیدا ہو سکے۔ اس کے لیے وطن عزیز کو چین کے خصوصی تعاون کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ چین ہر ضرورت کے وقت پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے مگر ہمیں بھی چاہیے کہ کچھ اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور چینی نظام اور کام کرنے کے انداز سے کچھ سیکھیں۔ وزیراعظم صاحب کا کہا بجا ہے کہ ہمارا معاشی مستقبل پاک چین اقتصادی راہداری سے منسلک ہے مگر وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس دلکش اقتصادی منصوبے کے پُر عزم شراکت دار کے طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ گزرے برسوں کے دوران اس سلسلے میں جو کوتاہیاں ہوئیں موجودہ حکومت کو اپنی بھرپور کارکردگی سے ان کا ازالہ کرنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.