یہ شام کب ڈھلے گی

63

قدرت کے اپنے کچھ فیصلے ہیں مگر غفلت کی نیند سوئے ہوئے انسان اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنا تو دور ، سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ دراصل انسانی زندگی سراسر مجموعہ اضداد ہے ، خوشی و مسرت ، رنج و غم کا ایک عجیب سنگم ہے ، پل میں مصیبت ، پل میں راحت لیکن نا تو دنیاوی زندگی کے فرحت و سکون کے لمحات کو دوام ہے اور نا ہی درد و الم کے صدمات کو قرار ، ساری زندگی ہی تغیر و تبدل سے عبارت ہے ۔ خوشی کے تمام لمحات غیر محسوس طریقے سے گزر جاتے ہیں جبکہ مصائب و مشکلات کا معمولی سا وقفہ بھی بحرِ حیات میں تلاتم اور ہلچل بپاکر کے رکھ دیتا ہے ، مبتلائے درد کے لیے پل پل کوہِ گراں ثابت ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت آسانی اور خوشی کی خوگر اور عادی ہے ، امتحان و آزمائش ، درد و الم اور رنج و غم کی ہلکی سی پھواربھی سوہانِ روح اور طوفانِ بلاخیر ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے ۔ ۔ لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی ، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا ، تا کہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے ، شاید وہ باز آ جائیں ۔ ۔یعنی خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمالِ بد کے باعث عذاب پھیل گیا۔ آج تک دنیا میں جو بھی مشکلیں اور مصیبتیں انسانوں پر آئیں ،مثال کے طور پر قحط، وبائیں ، زلزلے ، سیلاب ،ظالموں کا تسلط ، ان کا اصل سبب یہ تھا کہ لوگوں نے اللہ سبحان تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور اس طرح کی مصیبتیں اپنا نصیب بنا لیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ ہم سے پہلے کتنی ہی قومیں اپنے اعمال کے باعث تباہی و زوال کا شکار ہوئیں ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے ۔ پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انھیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں ۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں بلکہ دل اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں ۔(سورۃ الحج)سانحہ مری کو ابھی چند ماہ ہی گزرے ہیں مگر اس کے اثرات ملکہ ِ کوہسار پر بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔23 قیمتی جانی چلی گئیں ، سینکڑوں مسافروں نے رات برف کی قبروں میں گزاری ۔ بدقسمتی سے سرکاری ادارے سیاحوں اورہوٹل مالکان پر ذمہ داری ڈالتے رہے جبکہ ہوٹل مالکان سرکاری اداروں اور کچھ تو سیاحوں کو موردالزام ٹھہراتے رہے لیکن آج جب پورا ملک شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہے مگر تاحال مری میں کاروباری سرگرمیاں اپنے عروج پر نا پہنچ سکی ہیں ۔ ماضی میں ملکہ کوہسار مری میں تل دھرنے تک کی جگہ نہیں ملتی تھی ۔ آج وہی آسمان کو چھوتی عمارتیں ویران پڑی ہیں یقیناً یہ ان 23قیمتی جانوں اور سینکڑوں سیاحوں کی یخ بستہ ٹھٹھرتی رات میں کمسن بچوں اور خاندان کے ساتھ گزری اس درد ناک ، قیامت خیز رات کا بدلہ ہے ۔اہلیانِ مری تو اپنے اعمال بھول سکتے ہیں مگر قدرت نہیں ۔اہلیانِ مری کے اعمال اور خاموشی اہلیانِ کوفہ سے بے حساب مماثلت رکھتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے ۔ اور تم کو اے گناہگاروں جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمھارے ہی ہاتھوں کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے اور بہت سی تو درگزر ہی کر دیتا ہے ۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بلا ضرورت بازاروں اور گھروں سے نکلنا ممنوع ہے اور باوقتِ مغرب شیاطین کو گھر میں داخلے سے روکنے کے لیے دروازے بند کر دینے کا حکم ہے۔ ہمارے حالات ایسے ہیں کہ فجر کے وقت کاروبار شروع کرنے کی سوچ ہی ناپید ہے حالانکہ اس وقت فرشتے رزق لے کر نکلتے ہیں ۔ لمپی پاکس نے جنوبی پنجاب میں تباہی مچا رکھی ہے وہیں زیادہ تر کسانوں کا سرمایہ ڈوب چکا ہے ۔ عید قرباں سر پر ہے اور زیادہ تر عوام خریداری کی سکت نہیں رکھتی ۔ بے وقت کی بارشیں ،پریشانی ، تکلیف، آسمان کو چھوتی مہنگائی ،زلزلوں کی کثرت ، ہر شے کو تہس نہس کرنے والا سیلاب، عذابِ الٰہی کی ہر زمانے میںنہ تو کوئی متعین شکل رہی ہے اور نا اس کے لیے طبعی عوامل کی خلاف ورزی ضروری ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ مجرم اور گناہگار قوموں کو اسی ماحول ،حالات اور اسباب کے ذریعے عذاب سے دوچار کرتے ہیں ۔ جن سے وہ اپنی عام زندگی میں مستفید ہوتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ یہی اسباب جو آج ہمارے لیے زندگی کا سامان بنے ہوئے ہیں ، کبھی ہمارے لیے ہلاکت کا باعث بھی بن سکتے ہیں ۔جیسے قوم عاد کو جو گھمنڈ تھا کہ ہم سے بڑا روئے زمین پرطاقتور کوئی نہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ہوائوں کے عذاب کو مسلط کر کے انہیں زمین پر یوں بکھیرا جیسے کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہوں ۔قوم ثمود اور قومِ مدین کے لوگوں پر چھنگاڑ کو مسلط کیا گیا اور وہ تباہی اور بربادی کا نشانہ بن گئے ۔ قوم ثمود نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی اُ نٹنی اور اس کے بچے کو قتل کیا تھا ۔ چناچہ اللہ تعالی نے انہیں عذاب میں مبتلا کر دیا ۔ قوم مدین کے لوگ کاروباری بے اعتدالیوں پر اصرار کرتے رہے چنانچہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے ۔اسی طرح قرم سدوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمان و زمین کے درمیان اُ ٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پتھروں کے ذریعے ان کے وجود کو مسل دیا کیونکہ وہ نا فرمان تھے ۔ انسان غافل ہے اور بے شک خسارے اور جلد بازی میں ہے ۔
اس سرابِ زندگانی میں۔۔ ، اے خالقِ کن فیکون
میری حقیقت ہے یہی ۔۔،اِناللہ ِ واِنا اِلیہ راجعون

تبصرے بند ہیں.