ہم نہ اگر سنا سکے!

80

بات صرف اتنی نہیں ہے کہ ہم شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی بحران بھی کچھ کم نہیں، خوفناک اعداد وشمار صرف سودی قرضوں کے شکنجے میں جکڑے جانے کے نہیں، کھوکھلی اخلاقی اقدار، موبائل کلچر، عشق عاشقی کے گھناو¿نے اسکینڈل، منشیات کی فراوانی کے ہوش گم کر دینے والے اعداد وشمار سامنے لا رہے ہیں۔ جنگی بنیادوں پر نوجوان نسل کو فوری فرسٹ ایڈ کی ضرورت ہے۔
صرف لاہور میں ایک ماہ میں ایک رپورٹ کے مطابق نشے سے مرنے والوں کی تعداد 60 ہے۔ ون فائیو کو ملنے والی کالوں پر پولیس رپورٹ سڑکوں کنارے مرے ہوئے پائے جانے والوں کی 102 لاشوں کی 6 ماہ میں اطلاعیں موصول ہوئیں۔ حشیش، ہیروئن اور چرس عام ہے۔ آئی جی کو دی جانے والی اس رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ چھ پناہ گاہیں اب بحالی مراکز میں تبدیل کردی جائیں۔ لاکھوں نشئی غیرعلاج یافتہ غول درغول لاہور شہر میں پائے جاتے ہیں۔ زندگی کی طرف واپس لانے کو فوری بحالی مراکز کی شدید ضرورت ہے۔ کھلے عام منشیات کی فروخت پر کنٹرول درکار ہے۔ یہ طبقہ شدید ذہنی، نفسیاتی مسائل کا شکار، HIV ، کالا یرقان اور ڈپریشن میں بھی مبتلا پایا جاتا ہے۔ انہیں حراست میں سنبھالنا پولیس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ زیر حراست ایسے افراد میں خودکشی کے واقعات بھی بہت بڑھ چکے ہیں۔ یہ ایک نہایت وقت اور محنت طلب، گوناگوں مسائل ومشکلات کا حامل میدان عمل ہے جو فوری توجہ کا طالب ہے۔ لڑکیاں بھی بے ہدف، بے مصرف ہوئی محض فیشن اور علت کے تحت اس گروہ میں شامل ہوئے چلی جا رہی ہیں جو نہایت تشویش ناک ہے۔
اگرچہ رپورٹ لاہور کی ہے مگر کم وبیش ہر جگہ یہی حال ہے۔ لڑکیوں کی طرف سے بے راہ روی جو کالی اسکرینوں کا شاخسانہ ہے الگ درپیش ہے۔ 6 ماہ میں صرف لاہور سے 350 سے زائد لڑکیاں زیور، نقدی لے کر گھروں سے بھاگ گئیں۔ ایک ہزار ستتر کے اغوا کے مقدمے درج ہوئے (جن میں سے بیشتر بعدازاں بہ رضا ورغبت ثابت ہوا کرتے ہیں۔) یہ گھروں، خاندانوں کو زندہ درگور کرنے والے المیے ہیں۔ جن میں میڈیا، ڈرامے، شوبز، ناقص تعلیم، والدین اور آزادی کے پھریرے لہراتی منہ زور عورت سبھی حصہ دار ہیں۔ دینی تربیت، خداخوفی، آخرت میں جواب دہی جو لوازمِ تربیت ہوں تو اخلاق وکردار کو حیا کی بریک خودبخود لگتی ہے۔ اس سے معاشرے کو یکسر تہی دامن کرنے کے سبھی اسباب ہیں۔ اپریل میں آئس کے ایک نشئی کے ہاتھوں خاندان کے 6 افراد مارے گئے۔ ’پب جی‘ کھیل کے نتائج بھی ایسے ہی ہیں۔ کورونا نے تعلیم آن لائن کردی تھی، اس کے مہلکات بھی کچھ کم یوں نہ تھے کہ موبائلوں، کالی اسکرینوں کی فراوانی اور ناقص ترین تعلیمی نتائج نقل اور کاپی پیسٹ، نالائقی، بے کاری فروغ پاتی رہی۔ اب زیادتی کے جرائم کی شرح پنجاب میں خوفناک حد تک بڑھنے کے نتیجے میں ایمرجنسی اس ضمن میں لگائے جانے کا ارادہ ہے۔ جہاں عدالتی نظام موٹروے کے بھیانک
سانحے پر اب تک مجرموں کو مثالی سزا دینے سے قاصر رہے، جرائم کا سدباب کیونکر ممکن ہے۔
خود جمہوریت بے چاری پنجاب میں عجیب الخلقت بن چکی ہے۔ ایک سر اور دو دھڑ والی۔ حکومتی اجلاس مجبوراً ایوان اقبال میں، اپوزیشن اجلاس پنجاب اسمبلی میں۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونے کے لائق جمہوری تاریخ کا عجوبہ۔ اسپیکر اسمبلی الگ منڈلی لگائے بیٹھے ہیں، وزیراعلیٰ کی حکومت الگ بجٹ پیش کر رہی ہے۔ سویلین حکومت ایک تماشا بنا دی گئی۔ اپوزیشن بھی ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ پرویز الٰہی نے کہا تھا ایک وقت میں، کہ ہم مشرف کو 100 بار وردی میں منتخب کروائیںگے۔ اس اظہارِ وفا کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ مشرف کے بستر کی پٹی سے لگے بیٹھے ہوتے مگر وہ آئین میں دراڑیں ڈالنے کی مشرفی روایت نبھانے میں مصروف ہیں۔ آئین بے چارہ صدر صاحب، چودھری صاحبان کے ہاتھوں شکن آلود جبیں لیے نرالی جمہوریت کو صرف گھور ہی سکتاہے۔لاہورہا ئی کورٹ نے30جون کویکم جولائی 4:00بجے وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب کروانے کا فیصلہ صادر کیا،جس میںپرویز الٰہی کی ہار یقینی تھی۔اگلے ہی دن پی ٹی آئی کی اپیل پرسپریم کورٹ نے ہنگامی سماعت میںوزیراعلیٰ کادوبارہ انتخاب22جولائی کو کروانا طے کیا (یعنی 17جولائی ضمنی انتخابات کے بعد)۔ آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا؟پاکستان میں سدا ایسے ہی نت نئے کھیل کھیلے جاتے رہے۔ اپنے وقت کا جابر وآمر ہمہ مقتدر، (بغل میں ق لیگ دابے) پرویزمشرف آج بے بسی بے کسی کی تصویر بنا یاد دلا رہا ہے: سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے۔
ان بیس برسوں میں، جو نائن الیون کے بعد بیتے پاکستان پر سے کیا کچھ نہ ہو گزرا۔ امریکا سے اندھی وفاداری اور بیوپاری کے نتیجے میں سر تا پا پاکستان کی ہیئت ہی بدل گئی۔ امریکا کے رحم وکرم پر نظریہ، اخلاقیات، عدل وانصاف، اقدار و معاشرت، تعلیمی نظام اور بالخصوص عورت….! ماڈریشن کے نام پر اسلام کی جگہ منافقت پھلی پھولی پروان چڑھی سیکولر ازم، لبرلزم کے عنوانات سے۔ میڈیا کا آتش فشاں پھوٹ پڑا۔ دو چار محدود سنبھلے ہوئے چینلز کی جگہ ناچتے، گاتے تھرکتے سو کے لگ بھگ چینلز اخلاقیات کا جنازہ نکالنے یک جا ہو گئے۔ عبدالقدیر خان اور عدلیہ کی تحقیر کی کہانی۔ الطاف حسین کا سالہا سال برطانیہ سے للکارنا۔ ملکی میڈیا کی سٹی گم کرکے فدوی بن کر رطب ویابس سنوانا اور واہ وا کرنا بڑے بڑوں کی مجبوری بن گئی۔ کراچی ملک کا عروس البلاد، معاشی شہ رگ، ٹارگٹ کلنگ، ہڑتالوں کے بیچ خاک چاٹنے پر آ گیا۔ زوال جو شروع ہوا تو آج کراچی کا نام دنیا میں ناقابل رہائش شہروں میں آ چکا۔
اسٹیج کے کردار 2018ءمیں بدلے۔ مکالمے، بیانیے، دھرنے، دھاڑنے کی باری خاں صاحب کی بنی۔ اب جو یکایک زمین…. قالین ان کے قدموں تلے سے کھینچ لیا گیا تو وہ ماہی¿ بے آب کی طرح تڑپتے، بے یقینی کے عالم میں ہیں۔ الطاف حسین کی طرح اسکرینوں تک محدود ہوکر میرے پاکستانیو! سے شروع کرکے بنی گالہ کے کمرے سے ہی ’پاکستان پائندہ باد‘ پر داغے جانے والے بیان ختم کرتے ہیں۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ اب بنی گالہ نائن زیرو بن چلا! اللہ رحم کرے۔ اب انہوں نے اپنے پاکستانیوں سے کہا ہے کہ ’وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے گھر سے نکلیں‘ ۔مگر آپ کے بچوں کے مستقبل کی فکر کون کرے گا؟ ہم تو اس پر دم بخود ہیں!
دیکھنا یہ ہے کہ جیسے سابق وزیراعلیٰ 900 ایکڑ جعلی انتقال اراضی مقدمے میں طلب کیے جا رہے ہیں اور (پی ٹی آئی رکن) صدر آزاد کشمیر، بیرسٹر سلطان محمود کے لیے مہنگی ترین مرسڈیز کے لیے 10 کروڑ مختص کیے گئے ہیں، کیا اسی نہج پر سب پاکستانی اپنے بچوں کا مستقبل سنواریں؟ ان حضرت نے ایک مرتبہ انٹرویو میں فرمایا تھا کہ اعلیٰ عہدوں پر پروٹوکول گاڑی کے سائرن کی آواز کا انہیں نشہ ہے! مہنگا ترین نشہ! لیڈر اگر ہیلی کاپٹری ہیں تو زمینی، طینی لیڈر بھی کچھ کم نہیں۔ یاد رہے کہ حکومتی کابینہ نے کشمیر اور گلگت بلتستان کا بجٹ، (ان کا منہ مانگا) بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے! تاکہ بیرسٹر منہ مانگی مرسڈیز خرید سکے؟ مقبوضہ کشمیر لہولہان ہے اور یہ قرضوں میں دبے پاکستان سے بے رحمانہ وصولیابی کر رہے ہیں۔ انہیں سرحد پار بھیج دیں۔ انہیں یہاں لے آئیں جنہیں پاکستان کا درد ان سے زیادہ ہے!
اسلام آباد کی خبر یہ بھی ہے کہ یہ رشکِ قمر ہوتا جا رہا ہے، پانی کی عدم دستیابی کی بنا پر۔ بڑھتی پھیلتی بڑی بڑی ہاو¿سنگ سوسائٹیاں پانی کے شدید بحران کا شکار، ٹینکر مافیا اور بوتلوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ پاکستان تعمیراتی صلاحیت میں خوب طاق ہے۔ سو اگر یہاں رہا جاسکتا بنا پانی تو ہاو¿سنگ سوسائٹیوں والے چاند پر بھی کمنڈ ڈال ہی لیںگے۔ وہاں ہمارے عوامی نمایندے بسیرا کرسکیںگے جن کے ظاہر کردہ اثاثے بتا رہے ہیں کہ اصل اثاثے اربوں میں ہی ہوںگے۔ بیویوں میں دولت تقسیم کرکے بھی دولت چھپائے نہیں چھپتی، سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ عوام کی ٹوٹی کمر پر ٹیکسوں کے بوجھ لاد کر آئی ایم ایف کے ادھار چکانے کی بجائے، انہی کی جیب ڈھیلی کی جائے۔
ادھر FATF نجانے فٹافٹ کا مخفف ہے کہ فٹے منہ کا، جو دہشت گردی کے نام پر ملک سے اسلام پرستوں کا صفایا طلب کرتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ، غرباءمساکین کی مدد کو’ٹیرر فنانسگ‘ کا نام دیتا ہے۔ خود اسرائیل اور بھارت کی معاشی سرپرستی کرنے والے ممالک اور روساءکو میلی آنکھوں سے نہیں دیکھتا۔ روس کے مقابل پانی کی طرح یوکرین پر اسلحہ اور پیسہ نچھاور کر رہا ہے۔ افغان عوام کے اثاثے دباکر انہیں روٹی کا لقمہ دینے والوں کو دھر لیتا اور ہم پر دباو¿ ڈال کر عقوبت خانوں میں ڈلواتا ہے۔ یہ اسلام دشمنی، انسانیت کشی، حقوق انسانی کے چیمپئنز کا کریہہ چہرہ دکھاتی ہے۔ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی! پہلے امریکی پاکستان کے دورے کرتے تھے، اب معیشت نے ہمیں ڈس لیا۔ بے ہدف، بدانتظامی کی شاہکار خوفناک شرائط سے بندھے معاہدوں کے عوض قرض لینے والی ساڑھے تین سالہ حکمرانی! اب یورپی یونین کی ٹیمیں دھونس دینے کو آتی ہیں، انسانی حقوق کا جائزہ لینے، جس سے مراد قادیانی حقوق اور گستاخی کے حقوق ہیں!
کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے!

تبصرے بند ہیں.