پنجاب اسمبلی کا بحران ٹل گیا؟

6

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاسی افق پر منڈلاتے بے یقینی اور نااتفاقی کے بادل ، گھنے بادل اپنے حالیہ فیصلے کے ذریعے صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ سپریم کورٹ کے پہلے حکم کے مطابق منتخب کردہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کا ایک بار پھر 22 جولائی کو انتخاب کرانے کا حکم دیا ہے کیونکہ حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 اراکین، منحرف قرار دیئے جانے کے بعد ڈی سیٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 20 کا براہ راست انتخاب 17 جولائی کو ہونے جا رہا ہے کیونکہ 25 اراکین کے ڈی سیٹ ہو جانے کے بعد ایوان مکمل نہیں تھا اس لئے ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوری الیکشن کی بجائے حمزہ شہباز اور چودھری پرویز الٰہی کے درمیان مقابلہ، وزارت اعلیٰ کا مقابلہ، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 22 جولائی کو ہو گا۔ ہمارے سیاستدان گزرے دو ماہ کے دوران تین دفعہ عدالت جا چکے ہیں۔ عدالتیں تین مرتبہ پارلیمانی امور کو سدھارنے کے لئے فیصلے دے چکی ہیں پہلے سپریم کورٹ، پھر ہائیکورٹ اور اب پھر سپریم کورٹ کی مداخلت کے ذریعے 22 جولائی کو حمزہ شہباز شریف کی جاری وزارت اعلیٰ کا فیصلہ اسمبلی میں کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ ہماری سپریم کورٹ نے جس طرح فریقین کو بلا بلا کر، پوچھ پوچھ کر اپنے تئیں ایک خوبصورت فیصلہ صادر فرمایا ہے اور بحران حل کر دکھایا ہے اس کی تعریف کی جانی چاہئے۔
ہمارے ہاں مقننہ اور عدلیہ کی کارکردگی کی تاریخ کوئی بہت زیادہ صاف شفاف اور قابل تعریف ہرگز نہیں ہے۔ عدالتیں انصاف نہیں بلکہ فیصلے کرتی ہیں۔ شہادتوں کے مطابق، حالات و واقعات کے مطابق، گواہوں کے مطابق، دلیلوں کی روشنی میں وہ 1947 سے فیصلے کرتی چلی آ رہی ہیں، فریقین کبھی خوش اور کبھی ناخوش ہوتے ہیں۔ عدالتیں ویسے کی ویسی ہیں۔ فیصلے کرتی چلی جا رہی ہیں۔ ہماری عدلیہ کے رویوں میں تبدیلی نہیں آئی ہے کسی بھی جوہری تبدیلی کے بغیر ہماری عدلیہ وہی کچھ کر رہی ہے جو وہ 1947، 1948 سے کر رہی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ویسے ہی کر رہی ہے جیسے وہ عرصہ دراز سے کرتی رہی ہے۔
عمران خان اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ایک نئے طرز فکر و عمل پر چل رہے ہیں اور وہ ہے ”میں نہ مانوں“۔ 10 اپریل کے بعد انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ اسمبلی کے فیصلے کو نہ ماننے کا اعلان کرتے ہوئے ایوان اقتدار سے اپنی رخصتی کو امریکی سازش قرار دے کر عوامی ردعمل کا طوفان اٹھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے اور نئے انتخابات کی تاریخ لئے بغیر وہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ ہم سب نے دیکھا کہ وہ اپنی گرفتاری سے کس قدر خوفزدہ تھے اس لئے وہ کے پی کے کی طرف سے لانگ مارچ میں شریک ہوئے۔ رانا ثناءاللہ کی طرف سے تادیبی کارروائیوں کے باعث تحریک انصاف لانگ مارچ میں اپنے حامیوں کی معقول تعداد لانے میں ناکام ہو گئی۔ سپریم کورٹ کی مداخلت پر حکومت ”نیوٹرل“ بھی ہو گئی لیکن اس قت تک لانگ مارچ ناکامی کا شکار ہو چکا تھا۔ عمران خان 6 دنوں بعد دوبارہ دھاوا بولنے کا کہہ کر اسلام آباد سے رخصت ہو گئے۔ انہیں فوری طور پر عام انتخابات کی تاریخ نہ مل سکی۔ وہ چھ دن بعد بھی کچھ حاصل نہ کر سکے۔ پھر پنجاب میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی۔ بزدار حکومت یہاں سے بھی رخصت کر دی گئی۔ پی ٹی آئی نے ق لیگ کے ساتھ مل کر یہاں بھی بحرانی کیفیت پیدا کرنے کی کامیاب کاوشیں کیں، ایسی کاوشوں میں پی ٹی آئی اپنے 25 اراکین اسمبلی گنوا بیٹھی اور پی ایم ایل ق دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ن لیگ اتحادی امیدوار حمزہ شہباز شریف اکثریت سے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔ اس انتخاب سے پہلے ہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کی جا چکی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی یہاں دنگافساد برپا کئے ہوئے ہیں۔ ن لیگ پی ٹی آئی کے گورنر کو بھی صوبے سے رخصت کر چکی ہے۔ بجٹ اجلاس کے وقت صوبائی اسمبلی کے دو اجلاس الگ الگ جگہوں پر منعقد ہوئے۔ پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے حکم پر منعقد کرنے جا پہنچے۔ گزشتہ روز ہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا تو پی ٹی آئی کے ادنیٰ اور اعلیٰ قائدین نے اسے آئین و قانون کی فتح قرار دیتے ہوئے اپنی فتح قرار دے کر بھنگڑے ڈالے۔ میڈیا پر اپنی فتح کے اعلانات کا طوفان برپا کر دیا لیکن چند ہی گھنٹوں بعد جب تفصیلی فیصلہ سامنے آیا تو ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ ہائیکورٹ نے ہر شے، ہر سٹیپ کی تشریح کر دی لیکن اپنی ہی درخواست پر، عدلیہ کے فیصلے کے بعد، پی ٹی آئی، اپنی طے شدہ حکمت عملی ”میں نہ مانوں“ کے مطابق سپریم کورٹ میں چلی گئی کہ ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا جائے۔ کیا خوب حکمت عملی ہے کہ ہر بات پر ”میں نہ مانوں“ کی رٹ لگائی جائے۔ پی ٹی آئی اور بچھی کھچی ق لیگ کو قطعاً مطلقاً پتہ ہے کہ وہ اسمبلی میں عددی مقابلے کے ذریعے کبھی بھی وزارت اعلیٰ کے منصب تک نہیں پہنچ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وہ حربہ استعمال کر رہے ہیں جس سے پارلیمانی جمہوری طرز فکروعمل کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ لانگ مارچ ہو یا شارٹ مارچ، سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی انارکی ہو یا عدلیہ کا دروازہ پیٹنا، وہ ہر ایسا قدم اٹھا رہے ہیں جس سے حالات معمول پر نہ آئیں حکومت کام نہ کر سکے، ناکام ہو جائے جہاں تک نئے عام انتخابات کا تعلق ہے پی ٹی آئی بڑے زوروشور کے ساتھ یہ مطالبہ کر رہی ہے اور اسے تمام مسائل کا حل بھی قرار دے رہی ہے۔ اس رو میں، اس روانی میں وہ شہباز شریف حکومت کو ماننے سے بھی انکاری ہے اور اس روانی میں چیف الیکشن کمیشن کو ن لیگی قرار دے کر ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہے گویا ”میں نہ مانوں“ کی پالیسی ہے کہ ہم ایک ایسی حکومت سے الیکشن کرانے کی تاریخ مانگ رہے ہیں جو سلیکٹڈ ہے اور جس ادارے نے الیکشن کرانے ہیں اس پر بھی عدم اعتمادکر رہے ہیں۔ عمران خان بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف لے جا رہے ہیں وہ ہر شخص، ہر شخصیت، ہر ادارے کو بلڈوز کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو ان کی خواہش اقتدار اور حصول اقتدار کی راہ میں مزاحم ہے یا ہو سکتا ہے۔ بدکلامی اور بدزبانی کے کلچر کے فروغ کے ذریعے اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کی سوچی سمجھی پالیسی کی ناکامی کے بعد انہوں نے اس طرح کے دیگر بیانیے تشکیل دیئے۔ رجیم چینج اور امریکہ مخالف بیانیے کی ناکامی کے بعد اب وہ ”میں نہ مانوں“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہو چکے ہیں۔ 17 جولائی کو ہونے والے 20 نشستوں کے انتخابی نتائج کے حوالے سے انہوں نے نتائج ظاہر ہونے سے پہلے ہی ”میں نہ مانوں“ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ 20 میں سے 18 نشستوں پر ن لیگی امیدواروں کی کامیابی کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ یعنی ابھی کچھ ہوا ہی نہیں اور عمران خان دھاندلی کا راگ الاپنا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے 17 جولائی کو 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہے۔انہیں یقین واثق ہے کہ وہ ان انتخابات میں بری طرح ہارنے والے ہیں اس لئے ”میں نہ مانوں“ کی پالیسی کے تحت انہوں نے پہلے ہی دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں ہر وہ قدم ناجائز اور نتیجہ غلط لگتا ہے جو انہیں اقتدار کی طرف نہیں لے کر جاتا ہے پارلیمانی جمہوری طرز حکمرانی میں عمران خان اور ان کی پارٹی مکمل طور پر پٹ چکی ہے۔ ان کی پارٹی فکری و عملی طور پر انتشار کا شکار ہیں۔ عام انتخابات کے نتائج بھی انہیں قبول نہ ہوئے تو پھر کیا ہو گا؟ ذمہ داران حلقوں کو اس پر غوروفکر کرنا چاہئے کیونکہ اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں نہیں آتے تو وہ ”میں نہ مانوں“ کی پالیسی کے تحت عام انتخابات کے نتائج بھی تسلیم نہیں کریں گے۔

تبصرے بند ہیں.