پٹرول ، پالیٹکس اور پاکستان

29

پرانے زمانے کی بات ہے سیٹھ صاحب کے وسیع فارم ہاؤس میں دیسی مرغیوں کا بہت بڑا غول تھا۔ سیٹھ صاحب کے ہاں جب بھی کوئی مہمان آتا تو اس کی ضیافت کے لیے وہ مرغی ذبح کرنے کا اہتمام کیا جاتا یہ کام گاؤں کے مولوی صاحب کے ذمے تھا کہ مرغی وہ حلال کریں گے جب یہ کام معمول بن گیا تو زندہ مرغیوں کو بھی اتنا شعور آگیا کہ جب مولوی صاحب کے ہاتھ میں چھری دیکھتیں تو شور مچانے لگتی۔ جس پر مولوی صاحب نے سیٹھ جی کو کہا کہ مرغی ذبح کرنے کے لیے کوئی اور جگہ ہونی چاہیے کیوں اس سے باقی مرغیوں میں موت کا خوف پھیل رہا ہے۔ پتہ نہیں کہ سیٹھ صاحب نے مولوی کی نصیحت پر عمل کیا یا نہیں مگر حکومت پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار خلق خدا کے خوف کا احساس کر لیا ہے جس کا کریڈٹ وزیراعظم شہباز شریف کو جانا چاہیے پہلی حکومتوں میں ایک دن پہلے ہی ٹی وی پر خبر چل جاتی تھی کہ پٹرول کی قیمت میں 3 روپے یا 5 روپے اضافہ ہونے جا رہا ہے جس سے عوام الناس میں خوف کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ عوام کے اس دکھ کا احساس کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ اضافے کا پیشگی اعلان نہ کیا جائے۔ شروع میں تو یہ تھا کہ عوام کو صبح اٹھ کے پتہ چلتا تھا کہ پٹرول 30 روپے بڑھ چکا ہے مگر ہمارے عہد کے عوام اب چالاک ہو گئے ہیں انہیں پہلے ہی پتہ ہوتا ہے کہ پہلی تاریخ کو پٹرول بڑھنا ہے لہٰذا وہ ایک دن پہلے پٹرول بڑھنے کی چاند رات کو ہی جاکر لائنوں میں لگ جاتے ہیں کہ ٹینکیاں فل کروا لیں۔ عوام کی حالت سیٹھ صاحب کی مرغیوں سے بھی بدتر ہے جنہیں موت کا خوف جینے نہیں دیتا مگر سوائے شور شرابہ کرنے سے وہ عملاً اس قابل نہیں ہیں کہ احتجاج ہی کر سکیں انہیں قطاروں میں لگنے سے فرصت ہی نہیں۔
عمران خان کے 4 سالوں میں قومی بدحالی اس حالت پر پہنچ چکی تھی کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور تھے کہ جیسے بھی ممکن ہواور جو بھی حکومت میں آجائے کسی طرح سے عمرانی دور کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن موجودہ حکومت کی ہاتھ کی صفائی دیکھ کر عوام ایک بار پھر عمران خان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہورہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو پچھلی حکومت کچھ کر سکی اور اس حکومت نے تو عمران خان کے بھی سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ عمران خان نے اپنے دور میں پٹرول پرائس میں 26 روپے لٹر کا تاریخی اضافہ کیا تھا مگر موجودہ عزت مآب نے تو سٹارٹ ہی 30 روپے سے لیا۔
عوام کے لیے کہیں سے بھی خوشی تو کیا نجات کی کوئی خبر دور دور تک نہیں ہے بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوکرائن بحران کی طوالت کی وجہ سے اگلے 18 ماہ تک پٹرول کی عالمی قیمتوں میں کمی کا امکان نظر نہیں آتا اس کا متبادل یہ تھا کہ روس کی یومیہ پیداوار یعنی 60 ہزار ملین بیرل کی کمی کو متبادل ذرائع سے پورا کیا جانا ناممکن نہیں صرف 4 ممالک اگر مان جائیں تو روسی پٹرول کی پٹرول کی منڈیوں میں کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے وہ 4 ممالک سعودی عرب کویت اومان اور عراق ہیں لیکن مسئلہ یہ
ہوا ہے کہ یہ ممالک امریکہ یا عالمی دباؤ میں آکر یومیہ پیداوار بڑھانے کے مخالف ہیں ۔
امریکی صدر جوبائیڈن گزشتہ ماہ جون میں سعودی عرب کا دورہ کرنا چاہتے تھے تاکہ ولی عہد محمد بن سلمان کو قائل کیا جائے کہ وہ یومیہ پیداوار میں اضافہ کریں تاکہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت نیچے لائی جاسکے مگر اس دورہ کو غیر معینہ مدت تک اس لئے ملتوی کیا گیا کہ سعودی عرب اس پر رضا مند نہیں تھا اور امریکیوں کا یہ اصول ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے اتنے ہائی لیول دورے پر تب ہی جاتے ہیں جب انہیں کا میابی کا 100 فیصد یقین ہوتا ہے۔ بلکہ امریکی سفارتی مقولہ بن چکا ہے کہ "We will not go to negotiate to patronise a failure” یعنی ہم ایک ناکامی کی سرپرستی کرنے کے لیے مذاکرات نہیں کریں گے۔
اس ضمن میں اوپیک ممالک کا اپنا ایک موقف ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں پر کساد بازاری یا Recession کا خطرہ منڈلا رہا ہے لگ یہ رہا ہے کہ جب عوام اور حکومتوں کی پرچیزنگ پاور باقی نہیں رہے گی تو پٹرول کون خریدے گا یہ وہ خطرہ سے جس کے پیش نظر تیل پیدا کرنے والے ممالک اس کی پیداوار میں اضافے کے مخالف ہیں۔
اس وقت دنیا عمر میں بینکوں کی شرح سود میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ کساد بازاری سے بچا جا سکے مگر یہی اضافہ اگر پروڈکشن کو تباہ کرے گا تو کساد بازاری کے زیرتریاق بذات خود عالمی معیشت کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گا۔ ایک ہی چیز ہے جو دوا بھی ہے اور وبا بھی ہے ۔یہی معیشت کی پیچیدگی ہے۔
IMF کے مریض ممالک کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ IMF کے معاشی ڈاکٹر اپنے طفیلی ملک کو بچانے کے لیے جو نسخہ تجویز کرتے ہیں وہی نسخہ بعض اوقات ملک کے دیوالیہ ہونے کا سبب بن جاتا ہے جس کی تازہ ترین مثال سری لنکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کے انڈیا اور بنگلہ دیش نے IMF کا سہارا نہیں لیا اور آج ان دونوں ممالک کی معیشت پاکستان سے زیادہ مستحکم ہے۔
پاکستان میں آپ جتنی مرضی حکومتیں بدل لیں جب تک آپ کی معیشت کے فیصلے IMF نے کرنے ہیں اصلاح احوال بہت مشکل ہے دوسری وجہ یہ ہے کے جو بھی حکومت آتی ہے کسی کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے صرف زبانی جمع خرچ اور پرکشش نعرے ہیں عملاً سب زیرو ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر حکومت جب ناکام ہونے لگتی ہے تو وزیر خزانہ بدلا جاتا ہے جو نیا آتا ہے وہ پہلے سے زیادہ تباہ کاری کرتا ہے۔ لہٰذا جب یہ خبر آئی کہ موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو تبدیل کر کے ان کی جگہ اسحاق ڈار کو لایا جار ہا ہے تو ہمیں ذرہ برابر حیرت نہیں ہوئی بلکہ یہ حکمران پارٹی کے اندر کی باہمی adjustment ہے۔ مفتاح کو شہباز شریف کا آدمی سمجھا جاتا ہے جبکہ نواز شریف چاہتے ہیں کہ اسحاق ڈار کی نیابت میں قومی معیشت پران کی ذاتی گرفت ہونی چاہیے عوام کے لیے اس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے بلکہ گھیرا تنگ کرنے کا جو سلسلہ جاری ہے اس میں افاقہ ہونے کی بجائے مزید شدت آنے والی ہے۔ آج کی پٹرول پرائس میں اضافے کے اثرات بھی اگلے مہینے برآمد ہوں گے۔
یہ مضحکہ خیز ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ قیمتوں میں اضافے سے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔اور معیشت بحال ہوگی اور کاروبار ترقی کرے گا۔ موجودہ حکومت نے عدم اعتماد کے ذریعے جب تحریک انصاف کا تختہ الٹ دیا تو بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کے ان کے پاس کوئی متبادل پلان موجود نہیں تھا نہ ان کی تیاری تھی ان کا واحد مقصد اپنے سیاسی اقتدار پر قبضہ کر کے اپنے لیے اگلے الیکشن کی راہ ہموار کرنا تھا مگر اب ایسا لگتا ہے کے حکمران اتحاد خصوصاً ن لیگ کو اس کا سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ برسراقتدار جماعت پر الیکشن کے موقع پر عوامی نامقبولیت اور غیظ وغضب کا نشانہ بنتی ہے عوام انہیں اپنے مسائل کی وجہ سمجھتے ہیں اور موجودہ برسراقتدار فیکٹر تو پہلے سے کہیں زیادہ اس حکومت کو Hit کر ے گا۔ جبکہ دوسری طرف اپوزیشن اپنی تمام تر نا اہلی اور فلاپ حکمرانی کے باوجود ایک دفعہ پھر عوام کا دل لبھا رہی ہے۔ وہ موجودہ مہنگائی اور قیمتوں کا فطری کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں کیونکہ اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ دو وقت کی روٹی ہے۔ بقول علامہ اقبال
وہ عالم کہ بت خانۂ چشم و گوش
جہاں زندگی ہے فقط خورو نوش
وہ عالم کے بت خان چشم گوش جہاں زندگی سے فقط خورد ونوش۔

تبصرے بند ہیں.