ہندوستانی فوج کشمیری صحافیوں کو ہراساں کر رہی ہے

5

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بھارت میں حق اور انصاف کیلئے انتھک کوشش کرنیوالے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں اور گرفتار کرنا معمول بن چکا ہے۔ تشدد کے ان واقعات کو عالمی سطح پر لانے سے روکنے کیلئے بھارتی حکومت نے آزادی صحافت کو بھی مسدود کر رکھا ہے۔ تنظیم نے حقوق کے کارکن اور معروف صحافی محمدزیبر کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارتی شاخ کے سربراہ آکار پٹیل نے ایک بیان میں کہا بھارتی حکام زبیر کو جعلی خبروں اور غلط معلومات کا توڑ کرنے اور اقلیتوں کیخلاف امتیازی سلوک کو روکنے کیلئے ان کے کام کیلئے نشانہ بنا رہے ہیں۔ محمد زبیر کی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے بھارت میں انسانی حقوق کے محافظوں کو درپیش خطرہ بحرانی موڑ پر پہنچ گیا ہے۔
فیکٹ چیکنگ ویب سائیٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو دہلی پولیس نے سوموار کی رات ان کی سوشل میڈیا پوسٹ پر گرفتار کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد زیبر کو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کی کاپی فراہم نہیں کی گئی تھی اور عجلت میں کئی گئی انکی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے بھارتی حکام کتنی ڈھٹائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہراساں کرنا، ڈرانادھمکانا، بلاجواز گرفتار یا ں، اور انسانی حقوق کے محافظوں کو سچ اور انصاف کی تلاش کی پاداش میں قید کرنا بھارت میں خطرناک حد تک معمول بن گیا ہے۔
آکار پٹیل نے دہلی پولیس سے زبیر کو فوری طور پر اور غیر مشروط طور پر رہا، صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں کے کو ہراساں کرنے کی کارروئیاں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آلٹ نیوز کے شریک بانی کی گرفتاری اظہار رائے کی آزادی کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حکام کی طرف سے طاقت کا استعمال اس بات کا غماز ہے بھارت میں اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جا رہا۔
مقبوضہ کشمیر میں امن کے سفیر اور متوازن مزاج کے حامل ’ رائزنگ کشمیر کے چیف ایڈیٹر شجاعت بخاری کو افطار پر جاتے ہوئے بھارتی فوج کی طرف سے نشانہ بنایا گیا۔ فائرنگ کا واقعہ لال چوک میں پیش آیا۔ فائرنگ سے شجاعت بخاری کا سیکرٹری بھی شہید ہوگیا۔ شجاعت بخاری اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں دلیری اور جذبے کے ساتھ انجام دینے کیلئے مشہورتھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے دوران اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں 1989 سے اب تک شجاعت بخاری کے علاوہ  10 صحافی شہید ہو چکے ہیں۔ شہید ہونے والے صحافیوں میں شبیر احمد ڈار، مشتاق علی، غلام محمد لون ، غلام رسول آزاد، محمد شعبان وکیل، پرویز محمد سلطان ، مشتاق احمد اور ایک خاتون صحافی آسیہ جیلانی شامل ہیں۔ رپورٹ میںانکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں پر تشدد، اغوا، قاتلانہ حملے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اس ظلم و تشدد کی وجہ سے صحافیوں کیلئے مقبوضہ علاقے میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں کئی صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران زخمی ہو چکے ہیں اور بعض کو فوجیوں نے جھوٹے الزامات کے تحت نظر بند کر دیا۔
پوٹا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ اسی مقصد کیلئے وضع کیے گئے۔ پوٹا کے ذریعے پولیس کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ صحافیوں سے ایسی معلومات کا تقاضا کرے، جن کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے۔ صحافیوں کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ اس قانون کو ان کے حقوق کی پامالی کے لیے استعمال کیا جائیگا۔ ایک دفاعی معاہدے میں کی جانے والی بد عنوانی کو بے نقاب کرنے پر بھارتی حکومت نے تہلکہ ڈاٹ کام کے صحافیوں کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ان کے خلاف نو آبادیاتی دور کا سخت قانون آفیشل سیکرٹ ایکٹ استعمال کیا جارہا ہے۔ تہلکہ ڈاٹ کام کے دو صحافیوں کے خلاف اس قانون کے تحت الزام لگایا گیا کہ ان کے پاس ایسی خفیہ دستاویزات ہیں ، جو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔اسی طرح گجرات کے فسادات اور بعد کی صورتحال کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو خاموش رکھنے کیلئے حکومت نے انہیں ہراساں کیا اور ان پر حملے کروائے۔ 2003  میں ہونے والے فسادات کے بارے میں صحافیوں کی رپورٹوں کی اشاعت روکنے کیلئے حکام نے مسلسل دباؤ ڈالا۔ جو صحافی ان فسادات کی کوریج کر رہے تھے، وہ بے لگام ہجوم کے حملوں کے حوالے سے بالکل غیر محفوظ تھے۔ اس کے علاوہ ان صحافیوں کو پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور حملوں کا بھی خطرہ تھا۔ کیونکہ پولیس نہیں چاہتی تھی کہ اس کے حملوں کا کوئی ثبوت عوام کے سامنے آئے۔
بھارت میں غیر جانبدار حلقے بھی کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھل کر اظہار خیال نہیں کر سکتے۔ لیکن وہ کسی حد تک سچائی بیان کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی جو سالانہ رپورٹ پیش کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں ماوارئے عدالت زیر حراست ہلاکتیں عام ہیں۔ بھارتی فورسز عدالتی حکم کا احترام بھی نہیں کرتیں۔مودی حکومت بظاہر انسانی حقوق کے احترام کا تاثر دیتی ہے۔ لیکن درحقیقت بھارت کے اندر، بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.