حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ عروج میں عاجزی زوال کی ذلت سے بچاتی ہے کوئی ایک قوم، گروہ، خاندان، فرد نہیں دیکھا پڑھا چاہے ایرانی، عرب، تاتاری، نازی، منگول، فرنگی جو بھی ہو جس نے بھی انصاف کا دامن چھوڑا وقت نے اس کو بے رحم موجوں کے سپرد کر دیا۔ بہادر شاہ ظفر کی نواسی نے 80 سال سے زائد عمر پائی، جو بچپن سے اخلاق احمد دہلوی کے ہاں زندگی بھر رہیں، ان کی باتوں نے خواجہ حسن نظامی سمیت کئی اہل قلم کو مورخ بنا دیا خود بھی ایک مورخ و محقق تھے مغلوں کے زوال اور غدر پر چند واقعات لکھتے ہیں۔
غدر سے ایک برس پہلے دہلی سے باہر جنگل میں چند شہزادے شکار کھیلتے پھرتے تھے اور بے پروائی سے چھوٹی چھوٹی چڑیوں فاختاؤں کو، غلے مار رہے تھے کہ سامنے سے ایک گدڑی پوش فقیر آ نکلا اور اس نے نہایت ادب سے شہزادوں کو سلام کر کے عرض کیا کہ : ’’میاں صاحبزادو! ان بے زبان جانوروں کو کیوں ستاتے ہو، انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ تم بادشاہ کی اولاد ہو، بادشاہوں کو اپنے ملک میں رہنے والوں پر محبت اور مہربانی کرنی چاہئے۔ ان کے ساتھ بھی رحم اور انصاف برتا جائے تو شان بادشاہی سے دور نہیں‘‘۔ بڑے شہزادے نے جس کی عمر 18 برس تھی شرما کر غلیل ہاتھ سے رکھ دی مگر چھوٹے مرزا نصیر الملک بگڑ کر بولے ’’جا رے جا دو ٹکے کا آدمی ہم کو نصیحت کرنے نکلا ہے، تو کون ہوتا ہے ہم کو سمجھانے والا۔ سیر و شکار سب کرتے ہیں، ہم نے کیا تو کون سا گناہ ہو گیا‘‘۔ فقیر بولا ’’صاحب عالم ناراض نہ ہوں، شکار ایسے جانوروں کا کرنا چاہئے، ایک جان جائے تو دس پانچ جانوں کا پیٹ تو بھرے، ان ننھی ننھی چڑیوں کے مارنے سے کیا نتیجہ، بیس مارو گے تب بھی ایک آدمی شکم سیر نہ ہو گا‘‘۔ نصیر مرزا فقیر کے دوبارہ بولنے پر آگ بگولا ہو گئے اور ایک غلہ فقیر کے گھٹنے میں اس زور سے مارا کہ بے چارا منہ کے بل گر پڑا اور بے اختیار اس کی زبان سے نکلا: ’’ہائے ٹانگ توڑ ڈالی‘‘، فقیر کے گرتے ہی شہزادے گھوڑوں پر سوار ہو کر قلعے کی طرف چلے گئے اور فقیر گھسٹتا ہوا سامنے کے قبرستان کی طرف چلنے لگا۔ گھسٹتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا ’’وہ تخت کیوں کر آباد رہے گا جس کے وارث ایسے سفاک ظالم ہیں۔ لڑکے نے تو میری ٹانگ توڑ دی خدا تیری بھی ٹانگیں توڑے اور تجھ کو بھی اسی طرح گھسٹنا نصیب ہو‘‘۔
توپیں گرج رہی تھیں، گولے برس رہے تھے، زمین پر چاروں طرف لاشوں کے ڈھیر نظر آتے تھے۔ شہر دہلی ویران اور سنسان ہوتا جاتا تھا کہ لال
قلعہ سے پھر وہی چند شہزادے گھوڑوں پر سوار بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے نظر آئے اور پہاڑ گنج کی طرف جانے لگے۔ دوسری طرف بیس پچیس گورے سپاہی دھاوا کرتے چلے آتے تھے۔ انہوں نے نوعمر سواروں پر یک لخت بندوقوں کی باڑ ماری۔ گولیوں نے گھوڑوں اور سواروں کو زخمی کر دیا اور یہ شہزادے فرش خاک پر گر کر خون میں تڑپنے لگے۔ گورے جب قریب آئے تو دیکھا کہ دو شہزادے جاں بحق ہو چکے ہیں مگر ایک سانس لے رہا ہے۔ ایک سپاہی نے زندہ شہزادے کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا تو معلوم ہوا کہ اس کے کہیں زخم نہیں آیا۔ گھوڑے کے گرنے سے معمولی کھرنچیں آ گئی ہیں اور دہشت کے مارے غشی طاری ہو گئی ہے۔ صحیح سالم دیکھ کر گھوڑے کی باگ سے شہزادے کے ہاتھ باندھ دیئے گئے اور حراست میں کر کے دو سپاہیوں کے ساتھ کیمپ بھجوا دیا گیا۔ کیمپ پہاڑی پر تھا، جہاں گوروں کے علاوہ کالوں کی فوج بھی تھی۔ جب بڑے صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ بادشاہ کا پوتا نصیر المک ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور حکم ہوا کہ اس کو حفاظت سے رکھا جائے۔
باغیوں کی فوجیں شکست کھا کر بھاگنے لگیں اور انگریزی لشکر یلغار کرتا ہوا شہر میں گھس گیا۔ بہادر شاہ ہمایوں کے مقبرے میں گرفتار ہو گئے۔ تیموری بزم کا چراغ جھلملا کر گل ہو گیا اور جنگل شریف زادیوں کے برہنہ سروں اور کھلے چہروں سے آباد ہونے لگا۔ باپ بچوں کے سامنے ذبح ہونے لگے اور مائیں اپنے جوان بیٹوں کو خاک و خون میں لوٹتا دیکھ کر چیخیں مارنے لگیں۔ اسی داروگیر میں پہاڑی کیمپ پر مرزا نصیر المک رسی سے بندھے بیٹھے تھے کہ ایک پٹھان سپاہی دوڑا ہوا آیا اور کہا ’’جائیے، میں نے آپ کی رہائی کے لیے صاحب سے اجازت حاصل کر لی ہے۔ جلدی سے بھاگ جاؤ ایسا نہ ہو کسی دوسری بلا میں پھنس جاؤ۔‘‘ مرزا بے چارے پیدل چلنا کیا جانیں، حیران تھے کیا کریں۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا جنگل کی طرف ہو لیے۔ چلتے چلتے پیروں میں چھالے پڑ گئے، زبان خشک ہو گئی، حلق میں کانٹے پڑنے لگے۔ تھوڑی دور ایک بستی نظر آئی، ہمت کر کے لشتم پشتم گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو عجیب سماں نظر آیا۔ ایک درخت کے نیچے سیکڑوں گنوار جمع تھے اور چبوترے پر ایک تیرہ سال کی معصوم لڑکی بیٹھی تھی، جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، کان لہولہان ہو رہے تھے اور دہقانی اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ جونہی مرزا کی نگاہ اس بچی پر پڑی اور اس بے چاری نے مرزا کو دیکھا، دونوں کی چیخیں نکل گئیں۔ بھائی بہن کو اور بہن بھائی کو چمٹ کر رونے لگے، مرزا نصیر الملک کے پوچھنے پر بولی ’’آقا جی گوجروں نے ہم کو لوٹ لیا، نوکروں کو مار ڈالا، اماں جان کو دوسرے گاؤں لے گئے اور مجھے یہاں لے آئے، میری بالیاں نوچ لیں اور مجھے طمانچے مارے‘‘۔ بے کس شہزادے نے اپنی غریب بہن کو دلاسا دیا اور ان گنواروں سے عاجزی کرنے لگا کہ اس کو چھوڑ دو۔ دیکھو ذرا رحم کرو، کل تم ہماری رعیت تھے اور ہم بادشاہ کہلاتے تھے، آج آنکھیں نہ پھیرو، خدا کسی کا وقت نہ بگاڑے، اگر ہمارے دن پھر گئے تو مالا مال کر دیں گے۔ یہ سن کر وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے ’’اوہو! آپ بادشاہ سلامت ہیں، تب تو ہم تم کو فرنگیوں کے ہاتھ بیچیں گے اور یہ چھوکری تو اب ہمارے گاؤں کی ٹہل کرے گی، جھاڑو دے گی، ڈھوروں کے آگے چارہ ڈالے گی، گوبر اٹھائے گی‘‘۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سامنے سے انگریزی فوج آ گئی اور گاؤں والوں کو گھیر لیا اور چار چودھریوں اور ان دونوں شہزادے شہزادی کو پکڑ کر لے گئے۔ مرزا نصیر المک اور ان کی بہن کو انگریز افسر کے سامنے پیش کیا گیا اس نے دونوں کو خورد سال سمجھ کر بے قصور سمجھا اور چھوڑ دیا۔ دونوں نجات پا کر ایک سوداگر کے ہاں نوکر ہو گئے۔ لڑکی تو ہیضہ میں مبتلا ہو کر مر گئی اور مرزا اِدھر اُدھر نوکریاں چاکریاں کرتے رہے۔ آخر سرکار نے پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر کر دی۔ ایک برس کا ذکر ہے کہ دہلی کے بازار میں ایک پیر مرد جن کا چہرہ چنگیزی نسل کا پتہ دیتا تھا، کولہوں کے بل گھسیٹتے پھرا کرتے تھے، ان کے پاؤں شاید فالج سے بیکار ہو گئے تھے، دو قدم چلتے اور راہ گیروں کو حسرت سے دیکھتے۔ جن لوگوں کو ان کا حال معلوم تھا، ترس کھا کر جھولی میں کچھ ڈال دیتے تھے۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ ان کا نام مرزا نصیرالملک ہے اور یہ بہادر شاہ کے پوتے ہیں۔ اس فقیر کا کہنا پورا ہوا جس کی ٹانگ میں انہوں نے غلہ مارا تھا۔ شہزادہ صاحب کا بازار میں گھسٹتا پھرنا سخت سے سخت دل کو موم کر دیتا تھا اور خدا کے خوف سے دل کانپ جاتا تھا۔
عام آدمی کو بھی کیا ہوا اسی دنیا میں بھگت کر جانا ہے۔ صرف ایک سوچ، فہم اور ادراک کی بات مگر جس کے پاس اختیار ہو اس کے لیے محتاط رہنا لازم ہے میں نے بڑے اعلیٰ بیوروکریٹ، جج، جرنیل، سماجی زور آور زندگی میں ڈوبتے سورج کی لاش میں بدلتے دیکھے۔ ڈوبتے سورج کی لاش کے عنوان سے میری کتاب چند ہفتوں میں دوسری اشاعت کے بعد آپ کے پیش خدمت ہو گی۔
بہرحال وقت کی ہر شے غلام، وقت کا ہر ایک پر راج
Prev Post
تبصرے بند ہیں.