ینگ مائیکرو بائیولوجسٹس ایسوسی ایشن کے صدر فرحان ظفر چوہدری اور اسی شعبے میں پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی سکالرز فادیہ ناہید اور فائزہ ناز میرے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں اور انہیں ایک عجیب مسئلے کا سامنا تھا کہ دنیا انہیں لائف سائنٹسٹ قرار دیتی اور زندگی بہتر بنانے کی خدمات کا بہترین معاوضہ دیتی ہے مگر پاکستان میں ان کے لئے نہ ملازمتوں کے مواقع ہیں اور نہ ہی کسی جگہ ملازمت ملنے کے بعد کوئی جاب سٹرکچر یعنی ایشو یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں اور سائنس سبجیکٹس لیں مگر جب وہ سائنس سبجیکٹس میں بیچلرز، ماسٹرز یا ڈاکٹریٹ کر لیتے ہیں تو ہمارے پاس نہ اتنی فرصت ہوتی ہے اور نہ ہی دماغ کہ ہم ان کی اپنے اداروں میں موجودگی یقینی بنا سکیں، ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکیں، ایسے قوانین اورضابطے بنا سکیں جن کے تحت اداروں پر ضروری ہو کہ وہ عطائیوں اور اناڑیوں کی بجائے اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کو لازمی نوکریاں دیں۔ اس سے جہاں ہم بطور قوم اشیاء اور خدمات کے معیار کو بہتر بناسکتے ہیں وہاں اعلیٰ تعلیم کے باوجود بے روزگاری کے دیوکا سامنا کرنے والے نوجوانوں کے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔
شائد آپ مائیکروبائیولوجسٹس کے بہت زیادہ ٹیکنیکل نام اور کام سے نہ سمجھ سکیں۔ میں نے یہ شکایت ینگ انجینئرز سے بھی سنی تھی جب وہ لاہور پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سازش کے تحت ڈپلومہ ہولڈرز کو انجینئرز کے مساوی قرار دیا جا رہا ہے او ر اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ الیکٹریکل اور مکینیکل سمیت دیگر شعبوں میں باقاعدہ انجینئرنگ کرکے آنے والوں کی بجائے محض ڈپلومہ ہولڈرز کو نوکریاں دی جار ہی ہیں۔ اس سے مختلف ادارے اپنی وہ تنخواہیں بچا رہے ہیں جو انہیں انجینئرز کو دینی پڑتیں مگراس کے نتیجے میں انجینئرز میں بے روزگاری کی شرح خوفناک حد تک بڑھتی چلی جار ہی ہے۔ جہاں تک انجینئرز کا ایشو ہے ان کے پاس اپنی انجینئرنگ کونسل موجود ہے جو اس حوالے سے قواعد و ضوابط بنا سکتی ہے مگر مائیکربائیولوجسٹس کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ ان کے پاس اپنی نمائندگی اور قواعد وضوابط کے لئے کوئی ایسی باڈی بھی نہیں جیسی ڈاکٹروں کے پاس پی ایم ڈی سی کی شکل میں ہے یا وکیلوں کے پاس بار کونسلز کی صورت۔ مجھے بتایا گیا کہ اس سلسلے میں آدھا پاکستان سمجھا جانے والا پنجاب سب سے پیچھے ہے، خیبرپختونخوا میں ایسی تنظیم بنائی جا چکی ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ اس مسئلے کے بارے زیادہ کنفیوژ ہوں، میں آپ کو لائف سائنٹسٹس کے بارے کچھ بتاتا چلوں، یہ انسانوں، جانوروں اور پودوں میں زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں ، انہیں درپیش بیماریوں اور مسائل کا حل تلاشتے ہیں۔ یہ بیالوجی سے بھی ہوسکتے ہیں اور کیمسٹری وغیرہ سے بھی۔ ان میں مائیکرو بائیولوجسٹس جراثیم اور بیماریوں پر سٹڈی کرتے ہیں اور ان کی موجودگی ہر ہسپتال اور ہر لیبارٹری میں ضروری ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کورونا جیسی بیماری کی ویکسین مائیکرو بائیولوجسٹس ہی کی ایجاد ہے۔
اب ایشو کے ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں کہ جس طرح مشرف دور میں الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد ہر یونیورسٹی نے جرنلزم پڑھانی شروع کر دی اسی طرح پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے فروغ کے ساتھ اس وقت ستر یونیورسٹیوں سمیت سو کے لگ بھگ اداروں میں مائیکروبائیولوجی پر بیچلرز کی ڈگری دی جا رہی ہے، اس کے بعد بہت سارے طالب علم ایم فل اور پی ایچ ڈی کی طرف چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صرف بی ایس کرنے کے بعد انہیں نوکری نہیں ملے گی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں ہر ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہسپتال میں مائیکرو بائیولوجسٹس ہونے چاہئے تھے، ان کے لئے کہیں بھی نوکریاں رکھی ہی نہیں گئیں۔ جیسا میں نے پہلے کہا کہ لائف سائنٹسٹس کی کوئی ایسی نمائندہ تنظیم بھی موجودنہیں جسے سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہو تو ان کے لئے سفارشات بھی کوئی تیار نہیں کرتا جو حکومت کے سامنے رکھی جا سکیں۔ اب عملی صورتحال یہ ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مائیکرو بائیولوجسٹس تو تیار ہورہے ہیں کیونکہ وہ بہت سارے بچے جو اسی نوے فیصد تک نمبر لینے کے بعد میرٹ کسی بھی دوسری وجہ سے ایم بی بی ایس وغیرہ میں نہیں جاتے مگر انہوں نے سائنس مضامین پڑھے ہوتے ہیں وہ بائیالوجی میں اپنا مستقبل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایسے طالب علموں کے لئے یونیورسٹیوں سمیت دیگرتعلیمی اداروں نے اپنے دروازے کھول دئیے ہیں کیونکہ ان سے فیسیں بھی ا چھی خاصی لی جاتی ہیں۔ اب ستم ظریفی یہ ہے کہ سلیبس مکمل کرنے کے بعد ان سٹوڈنٹس کو جاب آفرز تو ایک طرف رہیں لازمی انٹرن شپ کے مواقعے تک نہیں ملتے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مختلف ادارے انہیں انٹرن شپ کے لئے بلائیں، اس انٹرن شپ کا بھی معاوضہ دیں اور پھر نوکریاں مگر انہیں انٹرن شپ بھی اس شرط پر آفر کی جاتی ہے کہ یہ سٹوڈنٹس ان کی خدمت بھی کریں گے اور ساتھ میں ان اداروں کو پیسے بھی دیں گے کیونکہ ڈگری مکمل کرنے کے لئے انٹرن شپ ان کی مجبوری ہے۔
میں وزیراعظم کی توجہ ان کے مسائل کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت صرف پنجاب میں دس ہزار کے لگ بھگ اور ملک بھر میں بیس ہزار کے لگ بھگ مائیکرو بائیولوجسٹس نوکریوں کے لئے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے لئے سٹرکچر بنائے، اس شعبے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار ہر برس ہزاروں کی تعداد میں بڑھتے چلے جار ہے ہیں۔ مختلف ہسپتالوں اور لیبارٹریوں سمیت سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں جہاں مائیکروبائیولوجسٹس کو بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے موجود ہونا چاہئے وہاں ان کی سیٹوں پر غیر متعلقہ لوگوں کو نوکریاں دینے کی راہ روکی جانی چاہیے ۔ ان بچوں سے ان کے خاندان والے پوچھتے ہیں کہ تم اتنا پڑھ لکھ کے، سائنسدان بن کے بھی کون سی توپ چلا رہے ہو، کہاں نوکری کرر ہے ہو تو ان کے پاس منہ چھپانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جاب کی موجودگی یقینی بنانے کا کام حکومت ہی کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل اور بالخصوص وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق لائف سائنٹسٹس کے لئے ایک ریگولیٹری باڈی بنانے اور پھر نوکریاں دینے کے لئے قانون سازی کر کے ہزاروں خاندانوں کی دعائیں لے سکتے ہیں۔ ہمارا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل تعلیم سے دور ہے مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل نوکری اور روزگار سے اس سے بھی زیادہ دور ہے۔
عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا اور اگر وہ محض بیانات کی بجائے اصلاحات پر جاتے تو یہ کام ناممکن نہیں تھا۔ میں اس سلسلے میں شہباز شریف کو زیادہ بہتر اس لئے سمجھتا ہوں کہ وہ پنجاب میں میری درخواست پر ینگ ڈاکٹروں کے سروس سٹرکچر کے مسئلے کا نوٹس لے چکے اوراس پر بہت سارے اقدامات کر چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تھوڑی سی توجہ اور کچھ مینجمنٹ کے ذریعے نوکریاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ یہ نوکریاں محض روزگار نہیں ہوں گی بلکہ انسانی صحت کے تحفظ اوربیماریوں سے بچاو کے لئے تحقیق کی ضرورت کو بھی پورا کریں گی ورنہ وہ خود کو ان کے والدین کی جگہ رکھ کے سوچیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کے اور والدین کا بڑا خرچہ کروا کے سائنسدان بن جائیں مگر پتا چلے کہ حکومت کے پاس تو سائنسدانوں کے لئے نوکریاں ہی نہیں ہیں، نوکریاں تو صرف مال پانی والوں کے لئے ہیں تو وہ حکومت کو کن الفاظ میں یاد کریں گے؟
تبصرے بند ہیں.