ٹیکس دائرہ کار میں وسعت

19

حکمرانوں نے جس سرعت سے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کیا ہے اِس فیصلے سے ہر طبقہ پریشان ہے جسے کسی طور عوامی فیصلہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اِس سے عام آدمی پرمالی بوجھ بڑھ گیا ہے اب پیش کیے گئے سالانہ میزانیہ کے برعکس رئیل اسٹیٹ بروکرز ،تعمیرات اور سیلونز سے وابستہ افراد تک ٹیکس کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے نیز ریسٹورنٹس کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کر لیا گیا ہے مفتاح اسمعٰیل نے اِس امر کا بھی عندیہ دیا ہے کہ چھوٹے دکانداروں اور صرافہ تنظیموں سے بھی ٹیکس کی ادائیگی کے حوالہ سے مشاورت کی جائے گی سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد سے بھی ٹیکس وصولی کے لیے سالانہ آمدن کم کر دی گئی ہے جبکہ پروفیشنل افراد کو قابو کرنے کے لیے الگ پروگرام تشکیل دیا جا چکا ہے حکومت کا خیال ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کا مقصد بیرونی قرض کی بیساکھیوں پر انحصار کم کرنا اور خودانحصاری کی طرف بڑھنا ہے لیکن عام آدمی پر بوجھ بڑھاتے ہوئے اشرافیہ کی مراعات میں کمی کرنے کی بجائے برقرار رکھی گئی ہیں اسی بناپر معاشی ماہرین متفق ہیں کہ حالیہ اقدامات سے ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانا مشکل ہے البتہ مہنگائی میں مزید اضافہ یقینی ہے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے ہی روزمرہ کی اشیا کے ساتھ زرعی و صنعتی خام مال کے نرخوں میں اضافہ ہو چکاہے اِن حالات میں کاشتکاری اور صنعتکاری دونوں کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے وجہ آمدن کم اورلاگت کا بڑھنا ہے پھر بھی یہ توقع رکھنا کہ بیرونی قرضوں پر انحصارختم ہو گا اور مزید ٹیکس نیٹ بڑھانے سے ملک کوپیروں پر کھڑا کرنے میں مدد ملے گی ایسا تصورکرنا کسی طوردرست نہیں بجلی و پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پہلے ہی لوگ پریشان تھا اب سوچے سمجھے بغیر ٹیکس کا دائرہ بڑھانے سے زراعت و صنعت پر مُضر اثرات مرتب ہوں گے علاوہ ازیں ملک ایک فلاحی ریاست بننے کی بجائے عوام کی جیبیں خالی کرانے والی مشین بن کر رہ جائے گا گزشتہ چند برسوں سے جو ٹیکس وصولی میں اضافے کا رجحان ہے وہ بھی بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے اقدامات سے کم ہوگا اور وصولیاں بڑھنے کی بجائے ٹیکس چوری کا رجحان فروغ پائے گا۔
بار بار عوام کو جتایا جارہا ہے کہ عوام کی بہتری کے لیے حکومت فوری عام انتخابات کی طرف نہیں جارہی بلکہ اِس کوشش میں ہے کہ کسی طرح معاشی مشکلات دورکی جائیں اورملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے لیکن قول و فعل کا تضاد اِس قدر ہے کہ عوامی حلقے حکومتی موقف کی تائید سے قاصر ہیں وہ لوگ جو سابق حکومت سے مہنگائی کی وجہ سے ناخوش تھے وہ اب رنجیدہ نظر آتے ہیں لیکن کسی حکومتی وزیر و مشیر کی توجہ اِس رنجیدگی کی طرف دلائی جائے تو جواب میں جھٹ سابق حکومت کا
طرفدار کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے یہ رویہ ہر گزقابل تعریف یا تحسین نہیں بلکہ زمینی حقائق جھٹلانے کے مترادف ہے گزشتہ حکومت پر یہی الزام تھا کہ اُس نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا اقتدار کی تبدیلی سے مہنگائی کم ہوئی ہے اِس سوال کا کوئی ذی شعور ہاں میں جواب نہیں دے سکتا بجلی کی قیمت میں اضافے کے باوجود عوام طویل لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں لیکن حکمران مطمئن ہیں اور اپنی پالیسیوں کو ملکی معیشت کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں ایسی بے نیازی اور بے حسی کسی طور مقبولیت میں اضافہ نہیں کر سکتی اِس لیے وزیرِ خزانہ کو چاہیے کہ عام آدمی کی جیب سے نظر ہٹائیں اور حکومت کے غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کریں کیونکہ محض باتوں سے زیادہ دیر عوامی نفرت کو چھلکنے سے روکا نہیں جا سکتا۔
ساری دنیا میں ٹیکس وصولی ہوتی ہے محب الوطن اور ذمہ دارشہری بروقت ٹیکس جمع کراتے ہیں تاکہ امورِ مملکت میں کوئی رخنہ نہ آئے اسی ٹیکس کے عوض حکومتیں اپنے شہریوں کوبیرونی حملہ آوروں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں صحت اورتعلیم کی سہولتیں دیتے ہوئے اندرونِ ملک امن و امان کو یقینی بنایاجاتا ہے یہ درست ہے کہ ریاست کی ترقی و خوشحالی کے لیے سرمائے کی بہت اہمیت ہے مگر جو ریاست وصولی پر توجہ دے لیکن فلاحی منصوبوں سے آنکھیں چرائے وہاں عوام میں اضطراب پیدا ہونا یقینی ہے یہی اضطراب بعدازاں سیاسی عدمِ استحکام کا باعث بنتا ہے کیسی ستم ظریفی ہے کہ چند لاکھ عام آدمی کو دوہزار تھما کر سمجھا جارہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کم یاکنٹرول ہوجائے گی ایسا سمجھنا کسی طور درست نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے مفتاح اسمعٰیل ممکن ہے ملک کی معاشی مشکلات دور کرنے میں سنجیدہ اور مخلص ہوں مگر اُن کے اقدامات سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ عوامی مشکلات دورکرنے میں بھی سنجیدہ اور مخلص ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اُن کی ترجیحات میں عام اور غریب آدمی کی کوئی اہمیت نہیں اسی لیے خزانے کے لیے مال جمع کرنا تو اُنھیں خوب یا درہتاہے مگر نچلے طبقات کو غربت کی دلدل سے نکالنے کا فریضہ بھول جاتا ہے ٹیکس نیٹ بڑھاتے ہوئے انھوں نے تنخواہ دار طبقے کو شکنجے میں قابو کرلیا ہے لیکن مہنگائی سے پیداہونے والی مشکلات کا رتی بھر احساس نہیں کیااسی لیے بجلی اور پیٹرول میں کمی کرنے پر آمادہ نہیں حالانکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ گر رہے ہیں مگر وزیرِ خزانہ کو یہ کمی نظر ہی نہیں آتی ایسی بے حسی ،بے نیازی اور سفاکی سے کسی طور فلاحی ریاست کا تاثر نہیں بنتا۔
عام اور غریب آدمی کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے حکومت کو چاہیے کہ بڑے عہدوں پر براجمان شخصیات کی مراعات کم کرنے کا طریقہ کار بنائے ایسے جاگیر دار جن کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہے اُن سے ٹیکس کی وصولی کویقینی بنایاجائے وزیر ،مشیر،اور ممبرانِ پارلیمنٹ سب صاحبِ ثروت ہیں انھیںرہائش، بجلی ،پانی،فون پیٹرول کی مفت فراہمی ختم یا کم کرنے پر بھی دھیان دے نیز یہ جو بڑے بڑے وفود غیر ملکی دوروں پر لے جانے کا رواج بن چکاہے اِسے بالکل ختم کیا جائے ٹیکس وصولی کا دائرہ کار بڑھانے سے بھی کرنے والا زیادہ اہم کام یہ ہے کہ ایف بی آر میں ایسی اصلاحات لائی جائیں جن سے ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی ہو افسوسناک امریہ ہے کہ ایف بی آر سے لاکھوں تنخواہ لینے والے ٹیکس چوری میںسہولت کارکاکردار ادا کرتے ہیں کرنے والے اصل کام کی بجائے حکومت کا جب سارا زور عام اورغریب آدمی کی جیب خالی کرانے پر ہو گا تو کوئی بھی شخص ایسے حکمرانوں کو دعائیں نہیں دے گا حالیہ ٹیکس نیٹ میں توسیع ایسا عمل ہے جس سے ملکی صنعت کا پہیہ جام ہوگا اور جب برآمدات ہی نہیں ہوں گی تو ملکی معیشت کیسے بہتر ہو گی ؟اِس حوالے سے بھی حکومت کو سوچنا چاہیے محض ٹیکس نیٹ میں اضافے سے فائدے کی بجائے اُلٹا نقصان کا احتمال ہے۔

تبصرے بند ہیں.