خواہش، تکمیلِ خواہش اور ربوبیت

18

بھیرہ سے محمد رمضان صاحب کا ایک ریڈیائی خط ( ای میل ) موصول ہوا۔ خط کیا ہے، ایک لمبا چوڑا سوال ہے، بلکہ سوالنامہ ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ السلامْ علیکم! سر! ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی، اللہ پاک یقینا 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، جب بچہ اپنے والدین سے اپنی چھوٹی سی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور والدین اسے پورا نہ کر سکیں تو کتنا تکلیف دہ واقعہ ہوتا ہے۔ اب اس انسان کے لیے، جس کا رب اس سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ  وہ اپنی ماں سے 70 گنا سے زیادہ پیار کرنے والے کے سامنے سخت تکلیف میں روتا ہے، چلّاتا ہے، التجا کرتا ہے، فریاد کرتا ہے ، لیکن سب رائیگاں چلا جاتا ہے۔ آخر بندہ کدھر جائے۔۔۔۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے بہت سی نعمتیں بن مانگے دی ہوئی ہیں، یقیناً ایسا ہی ہے، لیکن جو بیمار ہو گا وہ تو صحت ہی مانگے گا، اس کے لیے باقی ساری آسائشیں بے معنی ہوں گی۔ اس معاملے میں رہنمائی فرما دیں‘‘۔
یہ بہت اچھا سوال ہے، ماں اور بچے کی مثال دے کر سوال مزید بہتر ہو گیا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ماں کے ذمے بچے کی ربوبیت ہے۔ ماں ہر وہ کام کرے گی جو اس کے بچے کی ربوبیت کی بابت ضروری ہے اور وہ ہر اس کام سے بچے کو منع کرے گی جو اس کی دانست میں بچے کے مستقبل قریب یا بعیدمیں اس کی صحت، زندگی اور سلامتی کے لیے کسی خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ماں کے لیے بچے کی خواہش کو پورا کرنا اتنا اہم نہیں جتنا اس کی ربوبیت ضروری ہے۔  رب تعالیٰ کی اپنے بندے کے لیے رحمت، محبت اور ربوبیت کو سمجھانے کے لیے یہ پیمانہ بتایا گیا ہے کہ وہ ماں سے ستّر گنا زیادہ شفیق اور مہربان ہے۔ ماں افراط و تفریط کا شکار ہو سکتی ہے، وہ محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر غیرعادلانہ فیصلہ بھی کر سکتی ہے، لیکن رب العالمین کی ذات جو الحکیم بھی ہے، اس سے کسی غیر عادلانہ فیصلے کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی ہے۔ ماں کا فوکس بچے کی پرورش پر ہوتا ہے، ممکن ہے تربیت پر نہ ہو۔ یہاں مالک الملک اپنی تمام صفات کے ساتھ ہمہ حال متصف ہے، اس کی کوئی ایک صفت اس کی کسی دوسری صفت پر غلبہ نہیں پا سکتی۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے جاتی ہے تو یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غضب کیا ہے، اور رحم کیا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے یہ پیراڈاکس یوں سمجھایا ہے کہ ’’اگر وہ ہمارے اعمال کے مطابق ہمارے ساتھ سلوک کرے تو یہ غضب ہو جائے گا‘‘ یعنی اگر وہ ہمیں ہمارے اعمال کے حوالے کر دے تو یہ غضب
ہے، اگر اس نے ہم سے اپنی نعمتوں کے بارے میں پرسش کی تو یہ گویا قیامت کا دن ہے، قیامت کا دن یومِ حساب ہی تو ہوتا ہے، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جس کا حساب ہو گیا وہ مارا گیا۔ معاملہ یہ ہے کہ اس کی رحمت ہر شے سے زیادہ وسعت رکھنے والی ہے۔حدیثِ قدسی میں بتایا گیا ہے "رَحمَتِی وَسِعَت کْلّ شَئی”۔ یہ اس ذات کی مہربانی ہے کہ وہ مخلوق سے معاملہ رحمت کے ساتھ کرتا ہے، بلکہ کمال مہربانی یہ ہے کہ اس نے اپنی رحمتِ مجسم کو اپنی مخلوق میں مبعوث کر دیا۔ رحمت اور شفاعت ہمیں اس کے عدل کی سختی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ میاں محمد بخشؒ کا شعر یہاں بہتر تفہیم دے گا:
عدل کرے تے تھرتھر کنبن اْچّیاں شاناں والے
جے فضل کرے تے بخشے جاون میں جئے منہ کالے
رحم اور فضل کے بارے میں بھی جان لیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے’’ رحم اس فضل کو کہتے ہیں جو انسانوں پر اْن کی خامیوں کے باوجود کیا جاتا ہے‘‘۔
اب خواہش کا سن لیں۔ خواہش اس محدود عالمِ کون و مکان میں ہماری محدود سوچ کی ایک بازگشت ہے۔ خواہش اسجہانِ امکان میں ہمارے خیال کی آوارہ گردی ہے۔ ہم چاہتے ہیں— یہ ہو جائے تو وہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے تو یہ ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا، یہ نہ ہوتا تو وہ ہو جاتا اور اگر وہ یوں نہ ہوتا تو پھر یوں ہو جاتا— بس اس ’’یوں یوں‘‘کا نام ہے خواہش!!
اللہ مالک الملک، خالق و الحکیم نے بتایا ہے— حالانکہ وہ یہ بات بتانے کا پابند نہ تھا— عین ممکن ہے انسان اپنے لیے وہ  پسند کرے جس میں اس کے لیے شر ہو، اور عین ممکن ہے انسان  اپنے لیے وہ ناپسند کرے جس میں اس کے لیے خیر پوشیدہ ہو۔
ماں اور ماں کو پیدا کرنے والی ذات کا باہم تقابل تو ممکن ہی نہیں— مخلوق کا خالق سے کیا تقابل، کیا مقابلہ—  صرف تمثیل کے انداز میں بات کی جا سکتی ہے۔ ماں اپنے بچے کی ہر خواہش پورا نہیں کرتی—  بالکل نہیں کرتی۔ بچہ چھری مانگتا ہے، ماں اسے نہیں دیتی، بچہ خواہش کرتا ہے کہ ماچس اس کے ہاتھ میں دے دی جائے، بچہ روتا ہے، چلّاتا، فریاد کرتا ہے لیکن ماں کے سامنے اس کا سارا رونا دھونا رائیگاں چلا جاتا ہے۔ بچے کی صحت خراب ہے، بچہ خواہش کرتا ہے کہ اسے ٹھنڈی کولڈ ڈرنک دی  جائے، جوس اور چپس دیے جائیں، ماں اسے نہیں دیتی، کیونکہ وہ بچے کے حق میں شفیق ہے۔ اسے بچے کی زندگی اور صحت مطلوب ہے۔ بچہ ٹیکہ نہیں لگوانا چاہتا، ماں ڈاکٹر سے کہہ کر اسے ٹیکہ لگواتی ہے، کیونکہ اسے بچے کی فلاح مطلوب ہے۔ بچہ سکول نہیں جانا چاہتا، علی الصبح اپنے نرم گرم بستر سے نہیں اٹھنا چاہتا، ماں اسے زبردستی اٹھا دیتی ہے، منہ ہاتھ دھلواتی ہے،کہنا نہ مانے تو ماں اسے ایک چپت بھی رسید کرتی ہے۔ کسی بچے سے پوچھیں کہ ماں نے اس کی کس کس خواہش کا خون کیا ہے۔ عین ممکن ہے یہ بچہ بھی picaپائکا نامی بیماری کا شکارہو —  یہ ایک ایسی بیماری ہوتی ہے جس میں بچہ اصل غذا کی بجائے مٹی وغیرہ کھانے کی طرف رغبت اختیار کر لیتا ہے—ہم بھی پائکا کا شکار میں، صحت مند غذائی سرگرمیاں چھوڑ کر غیر صحت مند سرگرمیاں اختیار کرلیتے ہیں۔  ہماری ہر خواہش مٹی ہے۔ بچہ یہی کہے گا اور ناسمجھی میں یہی کہے جائے گا کہ ٹھیک ہے ماں نے طرح طرح کے کھانے کھلائے، طرح طرح کی نعمتیں مہیا کی ہیں لیکن میری ضروت تو مٹی ہے، مجھے مٹی چاہیے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ ماں اپنے بچے کو مٹی نہیں کھانے دے گی، اسے معلوم ہے مٹی کھانے والا مٹی میں مل جائے گا، مٹی میں رْل جائے گا۔
اللہ ظاہر و باطن میں اللہ ہے، وہ بندے کے ظاہر و باطن کی ربوبیت کرتا ہے۔ اسے اپنے بندے کے جسم کی پرورش کے ساتھ ساتھ اس کی روح کی تربیت و ربوبیت بھی مطلوب ہے۔ اسے اپنے بندے کی اْس زندگی کی فکربھی ہے جو لامتناہی ہے۔ اْس نے اسے اْس لامتناہی اور حقیقی زندگی میں سرخوشی دینے کے لیے اس عارضی زندگی میں اْس کی روح کی ربوبیت کا سامان بھی کیا ہے۔ اْس نے اپنے رسولوں کو پیغامِ فوز وفلاح دے کر بھیجا اور رسولوں کے سلسلے کے آخر میں اپنے محبوب رسولؐ کو نسخہ کیمیا دے کر بھیجا، اس نے کتابِ ہدایت کو ہادی کے ساتھ بھیجا۔ اس میں اس کے بندوں کی ظاہری اور باطنی ربوبیت کا مکمل سامان موجود ہے۔ جو خواہشات اس کے حق میں ضرر رساں ہیں، اس پیغامِ ہدایت میں ان کی نشان دہی موجود ہے۔ یہ اس ذات کی کمال مہربانی اور شفقت ہے کہ انسان کی تمام خواہشات پوری نہیں ہوتیں، وگرنہ وہ اپنے لیے ہلاکت کا سامان اکٹھا کر لیتا، اپنے اختیار والے ہاتھوں سے وہ خود کو ہلاکت میں ڈال دیتا۔ اپنے لیے ایسی زندگی کا انتخاب کر لیتا جس کے بعد اور مابعد میں اسے ایک نہ ختم ہونے والا پچھتاوا حاصل ہوتا۔ انسان اگر خود کو اپنی خواہشوں کے حوالے کر دے تو اس کا نظامِ فکر اور نظامِ زندگی دونوں مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ اگر انسان اپنی کسی تمنا کو پورا نہیں کر پا رہا،  یا اپنی تمام تر کوشش اور دعا کے باوجود اس کی کوئی خواہش ناتمام ہو رہی ہے تو اسے چاہیے کہ اس پر ناخوش و بیزار نہ ہو بلکہ اپنی اس تشنگی تمنا کو مالکِ حقیقی کی حکمتِ تامہ سمجھے اور اپنے حق میں اسے پیغامِ حکمت و معرفت سمجھے۔ سند اس بات کی درِ علم سے میسر آنے والا یہ قولِ حکمت ہے ’’میں نے اپنے رب کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹنے سے‘‘۔

تبصرے بند ہیں.