لوٹ جائیں والدین اور گھروں کی طرف

115

پہلے میں نے سوچا تھا کہ سابق وزیر اعظم کا ایک ٹی وی پرسن جو سہیل احمد عزیزی کے ساتھ پروگرام کرنے کی وجہ سے مشہور ہوا کے ساتھ انٹرویو پر کچھ لکھتا، پھر گلزار بھائی (سپرنٹنڈنٹ جیل) کا فون آ گیا اور انہوں نے چند واقعات سنائے جن میں ایک سکول ٹیچر جو بنیادی طور پر شکر گڑھ کا رہنے والا تھا 1984 میں وطن عزیز تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ گلزار بھائی نے ان کی ہر ممکن مدد اور خدمت کی اور ان کی مشقت کو قیدیوں کی لکھائی پڑھائی میں بدل دیا۔ ایک دن دورے پر تھے اس قیدی استاد کے پاس گئے وہ ڈائری لکھ رہے تھے خدا جانے یہ ان کی شاعری تھی یا کسی اور کی مگر انہوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو سنائی جو گلزار بھائی کو آج تک ازبر ہے:
کیہ بنے گا پاکستان دا
ساہ اوکھا ہو گیا جان دا
ایتھے جہڑی حکومت آئی اے
کھا پی کے ہر کوئی راہی اے
رخ تک دیا رہیا جہان دا
اج دا ممبر کل دا چور سی
اوہ تے کاں دا بنیا مور سی
اوہدی ڈِھلی کیتی ڈور سی
پڑھ کے ویکھ لو سبق قرآن دا
کی بنے گا پاکستان دا
پھلاں دی کیاری چوں میں کنڈے چُک دا رہنا
ایتھے سارے لوگ فرشتے نیں میں بندے لبدا رہنا
ینگ لائرز آرگنائزیشن گوجرانوالہ کا میں دوستوں کی محبت اور مہربانی سے 2 سال سے زائد صدر اور ایم آر ڈی کا کنوینئر تھا۔ ضیا کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ اپنے اللہ سلامت رکھے گلزار بھائی کے پاس اکثر جایا کرتا تھا رزاق جھرنا جسے ظہور الٰہی قتل اور مولوی مشتاق کو زخمی کرنے جرم میں سزائے موت ہوئی اس کی آخری ملاقات اور آخری رات کوٹ لکھپت جیل میں تھا۔ رزاق جھرنا 22/24 سال کا نوجوان تھا، ساری رات گانا گاتا رہا
زندگی کی نہ ٹوٹے لڑی
پیار کر لے گھڑی دو گھڑی
جب اس کو سولی چڑھانے لے جایا جا رہا تھا تو اس کی زبان پہ بھرپور سنگت کے ساتھ مصرعہ تھا
بازار وکیدیاں تاراں
اسیں بھٹو شہید دے یار آں
ساری زندگی بھٹو صاحب سے ملاقات نہ ہوئی مگر عاشقی تھی۔ جیئے بھٹو کہتا کہتا سولی چڑھ گیا۔ آخری ملاقات میں اس کے والد نے کہا کہ مجھے تمہارے وفادار ہونے پر فخر ہے۔ غریبوں کا بچہ قتل کے الزام میں سولی چڑھ گیا۔ شاہی قلعہ میں بند تھا، کوٹ لکھپت میں سولی چڑھا، ارباب اختیار کے سامنے جب بھی آتا وکٹری کا نشان بناتا۔ یہی نہیں جناب پرویز صالح نے اپنی ساری جائیداد قربان کر دی، ارشد اعوان، بابا الضحیٰ، وحید قریشی نہ جانے کون کون کیا کیا قربانیاں دے گئے۔ محمد سلمان کھوکھر ایڈووکیٹ، حبیب جالب، منو بھائی، عباس اطہر، دکھی پریم نگری، منہاج بھرنا، ایک لامتناہی سلسلہ ہے ہر شعبہ زندگی میں قربانیاں دینے والوں کا۔ سانحہ کارساز کے سیکڑوں شہدا و زخمی اسی طرح اسلام آباد میں محترمہ کی شہادت کے موقع پر جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کو کسی نے نہیں پوچھا، کسی نے نہیں پوچھا کہ ان کے ورثا اور لواحقین کس حال میں ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ 10 کروڑ میں سے 9 کروڑ عوام تھے 18 ماہ اقتدار کے بعد حکومت گرا دی گئی انہوں نے ورکرز کا ہمیشہ خیال رکھا، گریٹ بھٹو نے خیال رکھا۔ بھٹو کی حمایت پر عوام کو سزا نوازشریف کو مسلط کر کے دی گئی اور جب نوازشریف چلتے لمحے کے مقبول ترین رہنما ہوئے تو عوام پر نیازی صاحب مسلط کر دیئے گئے۔ شیخ مجیب الرحمن کی ڈائری میں درج تھا سیاست اقتدار کا زینہ ہے بلاشبہ ایسا ہی ہے مگر وطن عزیز میں کبھی جماعتیں زینہ بنتی رہیں اور کبھی افراد، جماعت اسلامی جیسی جماعت کو بھی لوگ استعمال کر کے اقتدار کی سیاست کے لیے ن لیگ اور پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ ایک پیپلز پارٹی کو تباہ کرنے کے لیے سسٹم برباد کر دیا گیا۔ ن لیگ ہو پی ٹی آئی یا پی پی پی کوئی بھی جماعت ہو اس کی جد و جہد کا زمانہ ہو گا تو چہرے اور ہوں گے اور جب اقتدار کا زمانہ آئے گا تو چہرے دوسرے ہوں گے جب میں ایم آر ڈی میں تھا دور دور تک پیپلز پارٹی میں رحمن ملک(مرحوم)، منظور وٹو، بابر اعوان، ڈاکٹر سومرو، شرجیل میمن کا نام تک نہ تھا اقتدار میں یہ لوگ ہراول دستہ تھے۔ ن لیگ کی جد و جہد میں مانی پہلوان ہو یا کوئی دوسرا جب اقتدار آیا آپ چہرے دیکھ لیں جو منہ چھپائے پھرتے تھے آج عہدے لے رہے ہیں ابھی حال ہی میں عمران دے جلسے وچ نچنے نوں جی کر دا والے دیکھ لیں اور اقتدار ملا تو بزدار، اعظم خان، شہزاد اکبر، فرح گوگی، زلفی بخاری، شہباز گل نہ جانے کیا کیا صورتیں تھیں جو عیاں ہو گئیں اور اقتدار جاتے ہی پنہاں ہو گئیں۔ اہلیت، لگن، شوق، قربانی، فہم، ادراک، تحمل، برداشت، عاجزی، سننے کی صلاحیت سے ہماری قیادتیں محروم ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو کہیں گورنر تعینات کیا، نصیحت فرمائی کہ جب ٹیکس لو گے تو ٹیکس دینے والے کی پیشانی پر نظر ڈال لینا اگر سلوٹیں آئیں تو ٹیکس پر نظرثانی کرنا۔ دنیا کا معاشی اصول ہے کہ ٹیکس کی کم شرح ٹیکس وصولی بڑھانے کی ضمانت ہے۔ سابقہ حکومت نے جو کیا سب کے سامنے ہے اس کے کانٹے چننے کے لیے وقت درکار ہے۔ حکومت کی داخلی مجبوریاں اور خارجی مسائل سب کے سامنے ہیں۔ بجلی کے حالات ٹھیک بھی ہو جائیں، دکانیں رات 8 بجے بند ہونی چاہئیں  ترقی یافتہ دنیا کا ڈنر ٹائم شام 6 بجے ہے اور صبح 6 بجے کام کاج کے لیے ٹرینیں لوگوں سے بھری ہوتی ہیں۔ حکومت لمبے چوڑے مذاکرات کے بجائے آئی ایم ایف سے عام آدمی کا بجٹ ہی بنوا لائے، شاید فرعون کے اس ادارے کو عام آدمی پہ ترس آ جائے۔
ایک دن سیاست پر بات ہو رہی تھی میرے بیٹے نے کہا ’’بابا جیسے وکالت اور لکھنا آپ کا پیشہ اور شوق ہے اسی طرح سیاست سیاستدانوں کا کاروبار ہے‘‘۔ آپ ان کے کاروبار کو ذاتی نفع نقصان نہ سمجھیں۔ ویسے میرے جیالو، جنونیو، اور متوالو! یہ لوگ یعنی حکمران طبقے آپ کو کوئی چھوٹی موٹی ذمہ داری تو دے دیں گے مگر سیاست اور اقتدار میں شامل نہیں کریں گے۔ میں نے رزاق جھرنا، مانی پہلوان، بابا الضحیٰ و دیگران کے نام اس لیے لکھے کہ میری نوجوان نسل سے ہاتھ باندھے درخواست ہے لوٹ جاؤ اپنے والدین کے پاس، اپنے گھروں کو، اپنی اپنی فیلڈ میں محنت کریں اپنی صلاحیت کے مطابق مقام حاصل کریں آپ ان لوگوں کی ضرورت بن جائیں گے جن کے پیچھے آپ اپنے خوشی غمی کے شرکا سے جھگڑ رہے ہیں۔ یہ بے رحم لوگ ہیں لوٹ جاؤ واپس اپنی اپنی آماجگاہ میں، جُت جاؤ اپنے اپنے کام میں، اللہ کریم آپ سب پر فضل کرے گا۔ مانگنے والے کیا دے سکتے ہیں اگر کبھی کوئی سسٹم قائم ہوا تو وہ سسٹم آپ کا محافظ ہو گا۔ جس کا راستہ قدرت خود بنائے گی کیونکہ اقتدار اگر تسلسل کے ساتھ شیطانی قوتوں کے پاس رہے تو قدرت کا قانون اپنا راستہ ضرور بنایا کرتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے محب وطن، جیالے آئے حریت پسند اور آزادی کے متوالے آئے مگر کچھ نہ بدلا 1947 کی آزادی کے بعد کیا معلوم تھا حقیقی تحریک آزادی شروع ہو گی۔ آج بھی ہم آزادی مانگ رہے ہیں، عزت نفس، حق روزگار، حق آزادی رائے، ووٹ کی عزت مانگ رہے ہیں۔ اس مانگ میں اپنی تنی ابھروئیں ڈھیلی کریں چہرے پہ مسکراہٹ لائیں ایک دوسرے کے لیے مثبت سوچیں اور واپس اپنے گھروں اور والدین کی آغوش میں لوٹ جائیں۔ ہماری محبوب و مقبول قیادتیں ہم سے چھین لی گئیں۔ تحریک آزادی اور ہجرت تو آج بھی جاری ہے اس کی تکمیل صرف آئین کی بالادستی اور دانشوروں کی غیرجانبداری سے ممکن ہے ہم تعصب کی عینک کے ساتھ مزید بٹتے اور بکھرتے جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.