قومی بجٹ پیش ہوتے ہی نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے،سوشل میڈیا پر اسکی درگت بنائی جارہی ہے،ماہرین اپنی اپنی جگہ رائے دے رہے ہیں، لیکن زیر عتاب وہ اضافی فنڈ ہے جو شو بز کی دنیا کے لئے رکھا گیا ،یہ بھی عوام الناس کی نظر سے اوجھل رہتا اگر معروف سیاسی مولانا کے فرزند ارجمند اضافہ پر تالی بجا کر داد نہ دیتے،اس کے بعد تو مخالفین اور حامیوں میں گھمسان کی جنگ جاری ہے، مقابلہ کے طور پر ’’ثواب ‘‘ سمجھ کر پرانی وڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہیں، نجانے اس کا مقصد مولانا کی حمایت ہے راوی اس بابت خاموش ہے، مولانا نے بھی اس پر لب کشائی نہ کرنے میں عافیت جانی ہے۔
ہم شرعی لحاظ سے اس منصب پر تو فائز نہیں کہ شو بز کی دنیا کے بارے میں کوئی’’حلال‘‘ رائے قائم کر سکیں، لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ گلوبل ولیج کے اس عہد میں اس شعبہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،یقین کامل ہے کہ ترک میڈیا سے پیش ہونے والے ڈرامے دیکھنے میں یہ طبقہ بھی پیچھے نہیں رہا ہو گا جس نے تالیاں بجائی ہیں۔
کپتانی عہد میں ترک ڈراموں کو قومی ٹی وی سے نشر کرنے کی باضابطہ تلقین کی گئی اور قوم کے مردو خواتین،بچوں نے یہ ڈرامے جی بھر کے دیکھے اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ایسے ڈرامے نسل نوکو دکھائے جائیں۔
اک زمانہ تھا جب فلم دیکھنا بہت ہی بُرا سمجھاجاتا تھا، اہل دیہہ اس کو’’ منڈوا ‘‘کہتے تھے اس دور میں یہ امیروں کی عیاشی تصور ہوتی تھی،فلم دیکھنے کا براہ راست تعلق بندے کے کردار سے ہوتا تھا۔حتیٰ کہ رشتہ نہ ملنے میں فلم بینی بھی آڑے آتی تھی، رات کی تاریکی میں فلم دیکھ کر آنا اور والدین سے بچ کر بستر پر دراز ہونا بڑا معرکہ سمجھا جاتا تھا،بصورت دیگر نتائج کی تمام تر ذمہ داری فلم بین پر ہوتی تھی، شہروں میں یہ سہولت نسل نو کو میسر تھی مگر دیہات کے باسی اس سے محروم تھے وہ جب کبھی شہر آتے تو فلم کو ’’انجوائے‘‘ کرتے تھے لیکن اس سرگرمی کو اسی طرح خفیہ رکھا جاتا تھا جیسے یہ ایٹمی پروگرام ہو۔
تاہم وی سی آر کی ایجاد نے قدرے آسانی پیدا کردی، بزرگوں کی آنکھ سے اوجھل ہو کر کسی گھر میں فلم بینی کی ’’واردات‘‘ اس طرح ڈالی جاتی تھی کہ گھر والوں کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوتی،پھر بتدریج زمانہ
نے پلٹا کھایا انفارمشن ٹیکنالوجی نے نسل نو کے لیے فلم بینی اور ڈرامہ دیکھنا سہل بنا دیا ورنہ کسی مولوی کے’’ احتجاجی خطبہ‘‘ ہی سے معلوم ہوتا تھا کہ کون سی فلم ہماری اخلاقی اور مذہبی اقدار کے خلاف ہے۔
ہم سب اب خود کفیل ہیں بلکہ روزگار کا ذریعہ بنا ہوا ہے وہ والدین جو فلم اور ڈرامہ کو سماج کی سب سے بڑی برائی سمجھتے تھے وہی اپنے بچوں کی ٹک ٹاک پر داد دیتے ہیں، انھیں کہیں چھپ کر فلم دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، ہر فلم اورڈرامہ انکی مٹھی میں بند ہے،اس عہد کے ’’بہادر‘‘ بچوں کی دیدہ دلیری آخری حدوں کو چھو رہی ہے وہ والدین کے ساتھ بیٹھ کر باجماعت دیکھتے ہیں، معلومات کے اس سیلاب کے آگے بند تو نہیں باندھا جاسکتا لیکن بچوں کو اچھے اور برے کی تمیز ضرور بتائی جاسکتی ہے۔ تاہم افسوسناک پہلو یہ ہے اس کی آڑ میں وہ سب کچھ ہورہا ہے جس کی نہ تو ہماری تہذیب اجازت دیتی ہے نہ ہی ہماری ضرورت ہے، سوشل میڈیا، فلم یاڈرامہ، تھیٹر عصر حاضر کی ضرورت ہے لیکن اصل خرابی ان کے مادر پدر آزاد ہونے میں ہے۔ عملی طور پر تو سرحدیں ممالک کے مابین قائم ہیں لیکن فضائی طور پر انکا کوئی وجود نہیں، آپ اپنی تہذیب کو اچھی معیاری فلم ،ڈرامہ کے ذریعہ دوسرے سماج تک منتقل کر سکتے ہیں اس کی بڑی مثال ڈرامہ ترکی ارتغرل غازی کی ہے جو اسلامی تہذیب ،کلچر سے ماخوذ ہے۔
ایک زمانہ تک ہمارے ٹی وی ڈرامے برصغیر میں بہت مقبول رہے کیونکہ وہ ہماری تہذیب کے عکاس تھے ان میں ہمارے ہی مسائل زیر بحث لائے جاتے تھے، ہندوستان کی فلمیں پوری دنیا میں دیکھی جاتی تھیں اس طرح ہمارے ڈرامے بھارت میں بڑی دلچسپی سے دیکھے جاتے ۔ فلمی دنیا کی کمائی دیکھ کر پنجاب ،بھارت میں بھی فلم سازی کا آغاز ہو اہے، سکھ کیمونٹی نے اپنی ثقافت، تہذیب، کلچر کو اس میں نمایاں کیا، دنیا بھر میں اِسکی فلمیں پہنچیں، ہمارے نسل نو میں بھی ان کے نغمے اور فلمیں مقبول ہیں، اگرچہ اب ان میں بھی لچر پن آتا جارہا ہے ۔ ہمارے ہاں جو ڈرامے اِس وقت ٹی وی چینل پر پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں گلیمر کاوہ جہاں آباد ہے جس کا ہمارے رہن سہن سے کوئی تعلق ہے نہ ہی ہمارے مسائل سے انکا کوئی واسطہ ہے نہ ہماری غالب آبادی کی وہ پہچان ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ شوبز سے تعلق رکھنے والے ہمارے بنیادی، فکری،سماجی مسائل ہی سے لا علم ہیں تو بے جا نہ ہو گا،ہماری مسلم تہذیب اتنی بانجھ تو نہیں کہ نسل نو کی تربیت کا فریضہ انجام نہ دے سکے، اس ہجوم کو قوم نہ بنا سکے، اس میں سے فروعی، لسانی ،علاقائی تعصبات کو مٹا نہ سکے، ناخواندگی، جہالت، بدعنوانی، لاقانونیت، نفسا نفسی، خود غرضی ، صنفی تعصب، عدم برداشت یہ ہمارے مسائل اور رویئے ہیں جن کا حل فلم سازوں کو تلاش کرنا ہے، مگر ہمارے ڈرامے تو خاندانوں کی شکست و ریخت کا ذریعہ بن رہے ہیں، پرانے زمانے میں فلم اور ڈرامہ بینی کو غیراخلاقی فعل سمجھنے میں یہی سوچ کارفرما تھی۔
فلمی دنیا سے ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو تحقیق کی بنیاد پر بنی اورسپر پاورز تک نے متاثر ہو کراپنی خارجی پالیسیاں مرتب کیں، فلم، ڈرامہ نے دنیا کو آنے والے حالات سے آگاہ کیا، عوام کو نئے ماحول میں زندگی بسر کرنے پر آمادہ کیا۔ کیا ہمارے فلم ساز اسلامی دنیا سے وہ طرز حکمرانی، نظام عدل پیش نہیں کر سکتے جہاں لاکھوں مربع میل پر حکومت کرنے والا خلیفہ رات کی تاریکی میں عوام کی بغیر پروٹوکول خبر گیری کرتاتھا ،غیر مسلم فدیہ دے کر اس ریاست میں رہنا پسند کرتے تھے،انیسویں صدی کی ترقی مسلم دنیا کے علمی خزانہ سے عبارت ہے، جدید ذرائع ابلاغ سے ہمیں اپنی دنیا آپ پیدا نہیں کرنی چاہیے؟
ہم اگر اپنی تہذیب نسل نو کو دکھانے میں ناکام ہوئے تو پھر ہمیں کوئی حق نہیں کہ مغربی تہذیب کے دلدادہ بننے کا انھیں طعنہ دیں۔ ہر ڈرامہ نویس والدین کی مرضی کے بغیر لڑکے اور لڑکی شادی کے موضوع کو فرض عین سمجھتا ہے، ساس بہو، نند بھاوج،دیور بھابی کی لڑائی کے بغیر ان کا کوئی ڈرامہ مکمل نہیں ہوتا، سب بڑی مشکل اب یہ ہے کہ فیملی ساتھ ڈرامہ دیکھنا محال ہے۔ ہم مولانا سے یہ کہیں گے کہ وہ سماج میں نکاح کے عمل کو آسان تر بنا کر ڈرامہ اور فلم نویسوں کی مشکل حل کر دیں تاکہ ہمیں ڈرامہ اور فلم مرضی کی شادی کے بغیردیکھنانصیب ہو۔ ہمارا مقابلہ مغربی تہذیب سے ہے اس کا مقابلہ فلم اور ڈرامہ کے میدان میں بھی کیا جاسکتا ہے،ہم دنیا کو صاف ستھر ا خاندانی کلچر دے کر اپنی جانب متوجہ کر سکتے ہیں۔ لازم ہے کہ ہم تحقیق پر مبنی فلم، ڈرامے بنائیں، جس میں نا انصافیوں پر مبنی مغرب کا مسخ شدہ چہرہ بھی دنیا کو دکھا سکیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.