صدر کے مسترد کرنے کے باوجود نیب اور الیکشن ترمیمی بل قانون بن گئے 

28

 

اسلام آباد: صدر مملکت نے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2022 ء بغیر دستخط کے واپس کر دیا۔  صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2022  ء بغیر دستخط وزیراعظم آفس واپس بھجوا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں پارلیمنٹ سے منظور  شدہ  یہ بل رجعت پسندانہ نوعیت کا ہے جس سے قانون کے لمبے ہاتھوں کو مفلوج  کرکے بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا۔ نیب اور الیکشن ترمیمی بل خود بخود قانون بن جائیں گے۔

 

صدر مملکت نے کہا   کہ نیب ترمیمی بل بدعنوان عناصر جن کے بارے میں پاکستانی عوام میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی کہ انہوں نے بے تحاشا دولت اکٹھی کررکھی ہے کیلئے واضح پیغام ہے کہ وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور بلاخوف و خطر اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکتے ہیں۔

 

صدر مملکت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمزور آدمی معمولی جرائم میں  بھی پکڑا جائے گا جب کہ بااثر بدعنوان  عناصرکو قوم کا خون چوسنے کے مکروہ عمل کی کھلی آزادی مل جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتساب کے عمل کو کمزور کرنا نہ صرف خلاف آئین ہے  بلکہ  پہلے سے مسائل زدہ پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کےبھی  خلاف ہے ۔

 

انہوں نے کہا کہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ  صدر پاکستان  کے بل پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ بل پر دستخط نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ دنیا   بھر کے ممالک کو وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کررہے ہیں۔

 

صدر مملکت نے کہا کہ سیاسی عناصر کا کالا دھن جوکہ ٹیکس چوری، جرائم اور بدعنوانی کے دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑتا کہ جس کا کھوج لگایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جو کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے دہائیوں سے کام کررہا ہے۔

 

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسے معاملات پر اسلامی فقہ سے بھی ہدایت لینی چاہیے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر کے ایک کے واقعے کا حوالہ دیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے  اپنی چادر کیلئے کپڑے کے دو ٹکڑے کیسے حاصل کیے جب  کہ سب کے حصے میں ایک ٹکڑا آیا تھا۔  چونکہ حضرت عمر  کے پاس  وہ کپڑا موجود تھا تو انہوں نے اس کے ماخذ کی وضاحت کی۔

 

صدر مملکت نے  کہا کہ یہ واقعہ احتساب کے دو بنیادی اصولوں کا تعین  کرتا ہے ۔ اول یہ کہ استغاثہ یا الزام لگانے والے کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بات کو ثابت کرے کہ اس  معاملے میں کپڑے کا ایک اضافی ٹکڑا اس شخص (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کے پاس  موجود ہے ۔ دوم یہ کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع کے بارے میں ثبوت فراہم کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے ۔

 

صدر مملکت نے مزید وضاحت کرتے ہوئے  کہا کہ یہ انصاف کا  بنیادی اصول ہے کہ فرد جرم ثابت ہونے تک ملزم کو بے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔  ما سوائے یہ کہ ملزم کو ذرائع آمدن کے بارے میں ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں مثال کے طور پر ‘اس نے کپڑے کا اضافی ٹکڑا ، یا جائیداد ، یا دولت کہاں سے اور کیسے حاصل کی ؟ ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جب جرم کا کوئی آلہ، مثال کے طور پر ملزم کے قبضے سے بندوق ملتی ہے تو اسے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اس نے یہ  بندوق کیسے حاصل کی ۔ یہی  اصول نیب آرڈیننس میں بھی موجود تھا کہ  دولت کی ملکیت ثابت کرنا استغاثہ کی جب کہ دولت کے ذرائع ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری تھی ۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ نامعلوم ذرائع سے دولت کا حصول پاکستان میں ایک جرم تھا مگر ان ترامیم سے اس تصور کو کمزور کر کے اسے کافی حد تک غیر موثر بنا دیا گیا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ  نے بھی اس عام تاثر کی عکاسی  کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے نیب آرڈیننس کے نفاذ میں خامیاں موجود ہیں۔ یہ  قانون بھی دیگر قوانین کی طرح  انتظامیہ کو اختیار دیتا ہے کہ اس کا استعمال طاقتور عناصر کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جاسکے۔

 

اس کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات کی وجہ سے پاکستان میں احتساب کا عمل کافی حد تک غیر موثر ہوا۔ ایک طرف جب عوام کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تقاضا کیا جاتا رہا تو دوسری طرف طویل عدالتی کارروائیوں اور غیر موثر استغاثہ نے بدعنوانی کو بے نقاب کرنا، روکنا اور ختم کرنا بہت مشکل بنا دیا۔

 

صدر مملکت نے کہا کہ ہمیں گزشتہ چند دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں ان قوانین میں موجود واضح سقم دور کرنے ، انصاف کی فراہمی مؤثر بنانے کیلئے ترامیم  لانی چاہیے تھی۔ اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ پچھلی حکومتوں کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے گا اور احتساب کے عمل کو ناقابل یقین حد تک کمزور بنادیا جائے گا۔

صدرمملکت نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ  ادارے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لانے کی بجائے بغیر کسی متبادل نظام کے احتساب کے عمل کو زمین بوس کرنا، احتساب کے عمل کو غیر مؤثر بنانے اور استحصالی اداروں اور نظام کو فروغ دینے کے مترادف ہیں ۔ اس طرح کے کمزور قوانین انصاف کے لبادے میں بدعنوان اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں جو اقوام ایسے قوانین اپناتی ہیں وہ  نہ صرف عام آدمی کے استحصال کا موجب بنتی ہیں بلکہ معاشرے  میں ناانصافی کے فروغ کا بھی باعث بنتی ہیں۔

صدرمملکت نے اس امر کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر پاکستان کے آئین کی تقلید اور پاسداری کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔میں خود  کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں اور اس سے معافی کا طلب گار  رہتا ہوں اس لیے میرا ضمیر مجھے اس بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

تبصرے بند ہیں.