ہر سورج کو غروب ہونا ہی ہے!

21

سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف شدید علیل ہیں۔گزشتہ کئی برس سے پرویز مشرف دبئی میں مقیم ہیں۔برسوں سے ہم سنتے ہیں کہ وہ کسی نہایت موذی مرض کا شکار ہیں۔تاہم ان کے گھر والوں نے بصد اہتمام ان کی بیماری کی خبر کو چھپائے رکھا۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کی افواہ گردش کرنے لگی۔ ان کے قریبی حلقوں نے اس کی تردید کی۔ بتایا کہ پرویز مشرف حیات ہیں،البتہ زیر علاج ہیں۔ اب ایک تازہ خبر کے مطابق اطلاع ملی ہے کہ وہ ایک ایسے مرض میں مبتلا ہیں ، جس میں انسانی اعضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ پرویز مشرف کے اعضاء بھی کام کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ ان کی صحت یابی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اہل خانہ کی خواہش ہے کہ انہیں اپنے وطن پاکستان واپس آنے کی اجازت دی جائے۔ ان اطلاعات کے بعد پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بیان دیا کہ پرویز مشرف کی صحت کافی خراب ہے۔ فوج کا موقف ہے کہ انہیں پاکستان واپس آنا چاہیے۔ اس بیان کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لندن سے ایک ٹوئیٹر بیان جاری کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی عناد اور دشمنی نہیں ہے۔ اگر وہ وطن واپس آنا چاہتے ہیں تو حکومت انہیں سہولت فراہم کرے۔
ان دو بیانات کے بعد میڈیا خاص طو ر پر سوشل میڈیا پر ایک بحث جا ری ہے۔ایک حلقے کا خیال ہے کہ پرویز مشرف چونکہ شدید بیمار ہیں۔ انہیں اپنی زندگی کے آخری ایام اپنے ملک میں گزارنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ جبکہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پرویز مشرف کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ سنگین غداری اور آئین شکنی کے مرتکب ہوئے۔ دس برس تک بلا شرکت غیرے اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ ان کے جرائم کی ایک طویل فہرست موجود ہیں۔ انہیں معاف کرنے اور سہولت دینے کے بجائے، قانون کے حوالے کرنا چاہیے۔ایوان بالا میں بھی اس قصے کی گونج سنائی دی۔ کچھ نے پرویز مشرف کی وطن واپسی کی حمایت کی۔ کسی نے اس کی مخالفت کی۔ کسی نے اس سارے معاملے میں سول حکومت کی بے بسی کا اظہار کیا۔  پرویز مشرف کی واپسی کے حامی اور مخالف نقطہ ہائے نگاہ کے حامل افراد اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں۔ یقینا ان میں سے بہت سے دلائل میں وزن بھی ہے۔ لیکن فی الحال اس ساری بحث کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ جنرل مشرف کے بارے میں چھپنے والی خبروں اور ان کی واپسی سے متعلق گفتگو کو سن کر جنرل پرویز مشرف کے عروج کا زمانہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
پرویز مشرف 1999ء میں جمہوری حکومت پر شب خون مار کر اقتدار میں آئے۔انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹا۔ نواز شریف کو ، خاندا ن کے افراد اور قریبی ساتھیوں سمیت قید خانوں میں ڈالا۔اور ملک کے سیاہ سفید کے مالک بن بیٹھے۔ جب انہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کے پاس دو عہدے تھے۔ ایک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور دوسرا چیف آف آرمی سٹاف۔ انہوں نے ملک کے چیف ایگزیکٹوکا عہد ہ تخلیق کیا اور خود ساختہ چیف ایگزیکٹو بن بیٹھے۔ان تین طاقتور عہدوں کے حصول پر بھی انہیں اطمینان نہیں ہوا۔ لہٰذا انہوں نے صدر رفیق تارڑ کو ہٹا کر خود صدر بننے کا فیصلہ کیا۔ مشرف اور ان کے حواریوں نے صدرسے استعفیٰ طلب کیا۔ رفیق تارڑ نے ان سے سوال کیا کہ استعفیٰ وہ کسے دیں؟ بطور صدر وہ افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ پرویز مشرف صدر تارڑ کی دیدہ دلیری پر لاجواب ہو گئے۔ بہرحال پرویز مشرف کو کسی آئینی اور قانونی جواز کی ضرورت نہیں تھی۔  چند روز میں پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹو ایک آرڈر جاری کیا اور منتخب صدر کو اس کے عہدے سے فارغ کر دیا اور یوں خود ساختہ صدر بن بیٹھے۔ یعنی ایک ہی وقت پر وہ چار مناصب پر فائز ہو گئے۔
پرویز مشرف ملکی تاریخ کے طاقتور ترین حکمران تھے۔ سارے ادارے ان کے اشارہ ابرو سے بندھے تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں عدالتوں سے من مرضی کے فیصلے حاصل کئے۔ نیب کے ذریعے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں کو توڑا اور مسلم لیگ ق بنائی۔  پرویز الٰہی جیسے مشرف کے حواری کہا کرتے تھے کہ ہم مشرف کو سو بار وردی میں منتخب کروائیں گے۔اس زمانے میں پرویز مشرف مکے لہرایا کرتے تھے۔مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سرکاری ٹیلی ویژن پر بیٹھا کر معافی منگوائی۔ انہیں نظر بند رکھا ۔ اکبر بگٹی کو پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ آپ کو ایسے ماریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کیا آکر لگا ہے۔ اور پھر واقعتا غار میں میزائل داغ کر اکبر بگٹی کو ہلاک کر دیا گیا۔
امریکہ میں 9/11 کے بعد جنرل مشرف نے امریکی مطالبے پر پاکستانی قوم کو امریکی جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاکستانی ہوائے اڈے امریکہ کے حوالے کر ڈالے۔ اگلے کئی برس تک پاکستان، پرویز مشرف کے فیصلے کو بھگتتا رہا۔ دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں سینکڑوں لوگوں کو امریکہ کے حوالے کیاگیا۔مشرف نے قبائلی علاقوں میں امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی ۔ ان حملوں میں سینکڑوں معصوم جانیں گئیں۔ ان کے دور میں لال مسجد کا واقعہ ہوا جس میں میں بے گناہ جانیں شہید ہوئیں۔  پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی کا نفاذ کیا۔اور ایک مرتبہ پھر آئین شکنی کے مرتکب ہوئے۔اس زمانے میںچیف جسٹس آف پاکستان کو بالوں اور کالر سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ بارہ مئی کو کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی جسے مشرف اور اس کے حواریوں نے عوامی طاقت کا مظاہرہ قرار دیا۔
نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ مشرف پر غداری کا مقدمہ کھلا تو شور برپا ہو گیا۔نتیجہ یہ کہ نواز شریف مشکل میں پڑ گئے، ان کی حکومت گئی۔ تاہم پرویز مشرف نہایت سہولت کیساتھ دبئی جا پہنچے۔ کئی برس تک وہاں رنگ و نور کی محفلوں کی زینت بنتے رہے۔آج اپنے وقت کا طاقتور ترین آدمی بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ وہ وطن واپس آنا چاہتا ہے۔ یہ جملے لکھ رہی ہوں تو خیال آتا ہے کہ انسان بھی کیا بے بس و بے کس مخلوق ہے۔ وہ جس قدر بھی طاقتور ہو جائے۔ جس مقام پر جا پہنچے۔ جتنا با اختیار بن جائے۔ بالآخر ایک دن اس کے اختیار اور اقتدار کا سورج غروب ہو جاتا ہے۔اگرچہ اختیار اور اقتدار کی موجودگی میں یہ بات کم کم ہی سمجھ میں آتی ہے۔ مگر ایک وقت آتا ہے جب انسان اس حقیقت کو جان لیتا ہے۔ یہ صرف ایک پرویز مشرف کا قصہ نہیں ہے۔ اپنے اپنے دور اختیار میں ہم میں سے بیشتر لوگ پرویز مشرف بنے رہتے ہیں۔ خیال اس وقت آتا ہے جب ہمارے اقتدار اور اختیار کا زمانہ بیت جاتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ اقتدار، اختیار، صحت تندرستی، مال و دولت اور یہ زندگی سب عارضی باتیں ہیں۔ ہم سب کو آخر کار اس جہان فانی سے رخصت ہونا ہے اور وہ بھی بالکل خالی ہاتھ۔

تبصرے بند ہیں.