پاکستان کا قرض کیسے اتر سکتا ہے؟

37

گوادر میں کاروباری اور چنیدہ کالم نگاروں کے دورے میں شمولیت کا موقع ملا۔ خوبصورت نیلگوں پانیوں اور قدرتی گہری بندرگاہ کی یہ سرزمین قدرت کی طرف پاکستان کے لیے انمول تحفہ ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کو ہرگز قبول نہیں کہ گوادر ڈویلپ ہو اور دنیا کو سی پیک کے ذریعے تجارت کا نیا راستہ میسر آ جائے۔ سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر پراجیکٹ ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس پراجیکٹ کے تالے کی چابی گوادر ہے۔ گوادر میں چیئرمین پورٹ اتھارٹی نصیر خان کاشانی کی سربراہی میں ان کی ٹیم سے ملنے کا موقع ملا۔ تمام لوگ نہایت پروفیشنل اور پُرعزم نظر آئے۔ ایک بات جس کی کمی نظر آئی وہ تھی قابل اور پروفیشنل پاکستان بزنس کمیونٹی کو گوادر میں سرمایہ کاری کے لیے مضبوط حکمت عملی کے ذریعے دعوت دینا۔ گوادر میں لوگ انویسٹ کر رہے ہیں لیکن اس کی رفتار بہت کم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف گوادر بلکہ پاکستان میں موجود تمام ایسے بڑے مواقع پر سب سے پہلے مقامی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی جامع پالیسی بنائے۔ گزشتہ تین کالموں میں تسلسل سے میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ پاکستان جس معاشی گرداب میں پھنسا ہے۔ اس میں سے نکلنے کا واحد راستہ قومی وسائل اور باصلاحیت کاروباری طبقے پر انحصار کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین ہے کیمونسٹ پارٹی آف چائنہ نے طویل جنگی جدوجہد اور لاکھوں انسانی قربانیوں کے ذریعے بادشاہی نظام سے چھٹکارہ تو حاصل کیا۔ لیکن اس کا اصل چیلنج چینیوں کو غربت سے نکالنا تھا۔ یہ آسان کام نہ تھا۔ چینی انقلاب کے پہلے مرحلے میں عظیم لیڈر ماؤزے تنگ نے زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداروں سے زمین لے کے عام چینی کسانوں میں تقسیم کر دی۔ 1949 سے 1980 تک چین کا شمار غریب ممالک میں ہوتا تھا، چین کی فی کس آمدنی ہندوستان سے بھی کم تھی۔ چینی لیڈر اس سوچ بچار میں سرگرداں رہتے تھے کہ کس طرح اس خوفناک غربت سے نکلا جائے۔ اس دوران چین کا ہمسایہ سنگاپور تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ اس وقت چین کے صدر ڈینگ ژیاؤپنگ نے سنگا پور کے عظیم لیڈر لیکوان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ژیاؤپنگ نے لیکوان سے سنگا پور کی ترقی کا راز پوچھا۔ لیکوان نے کہا آئین و قانون کی حکمرانی، میرٹ اور کڑی سزائیں سنگا پور کی ترقی کا راز ہیں۔ چینی قیادت نے سنگا پور کی مدد سے اپنے معاشی ماڈل میں تبدیلی کی۔ چین کو بات سمجھ میں آ گئی۔ معاشی ترقی کے لیے ایسے قوانین
بنائے گئے جس نے چین کے لیے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیئے۔ چین نے صرف 40 سال کے مختصر عرصے میں 700 ملین (70 کروڑ) افراد کو غربت سے نکالا ہے۔ یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ گزشتہ 8 برس میں ہر سال ایک کروڑ افراد غربت سے باہر نکلے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں پچھلے 4 برس کے دوران تبدیلی سرکار کے دور اقتدار میں 2 کروڑ مزید افراد خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ سے جب پوچھا گیا کہ انھوں نے یہ کارنامہ کیسے انجام دیا۔ ان کا جواب تھا کہ گروتھ کے تسلسل کو برقرار رکھنے سے یہ معجزہ ممکن ہوا ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل کے نتیجے میں چین آج دنیا میں ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہوا ہے۔ سب سے پہلے چین نے کسی قسم کی بیرونی مداخلت کو قبول نہیں کیا۔ چین میں گراس روٹ لیول تک جمہوری نظام رائج ہے۔ عوام کو حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی سے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے اوپر صرف میرٹوکریسی کا نظام ہے۔ سرکاری ملازمین کی اہلیت اور میرٹ جانچنے کے لیے شفاف امتحانات کا نظام بنایا گیا۔ میرٹ اور پرفارمنس کی بنیاد پر ہی ترقی دی جاتی ہے۔ لیڈر بننے کے لیے شرط ہے کہ اس شخص نے غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع فراہم کرنے، مقامی معاشی ترقی اور ماحولیاتی اور سماجی تحفظ کے لیے کام کیا ہوا ہو۔ اس سارے عمل کو قائم رکھنے کے لیے ایک مضبوط احتسابی نظام قائم ہے۔ کرپشن ناقابل برداشت جرم ہے۔ ثابت ہونے پر سزائے موت دی جاتی ہے۔ چین میں سیکڑوں افسران کو کرپشن کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ اس عمل نے چین کے پورے نظام کو سہارا دیا ہوا ہے۔ آج اگر چین میں کرپشن کی سزا میں نرمی کر دی جائے تو پورا نظام ریت کی دیوار ثابت ہو گا۔ پاکستا ن میں واقعی حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو صرف ایک کا م کر دیں۔ کرپشن پر موت کی سزا مقرر کر دیں۔ یقین جانیں دو چار کرپٹ افسروں، سیاستدانوں اور کرپٹ ٹھیکیداروں کو پھانسی دے دی گئی تو پورا نظام تیر کی طرح سیدھا ہو جائے گا۔ حکومت کو ٹیکس لینے کے لیے کسی کی منتیں نہیں کرنا پڑیں گی۔ کسی کاروباری شخص کو اپنی فائل پر سائن کرانے کے لیے سرکاری افسر کے دفتر کے باہر بیٹھ کر گھنٹوں بیٹھ کر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ یہاں ایک فیکٹری کا این او سی لینے کے لیے کئی سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک سرکاری بابو جو عوام کے ٹیکسوں سے بہترین گھر، گاڑی اور ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں موج اڑا رہا ہے۔ صرف اس لیے فائل دبا کر بیٹھا رہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ رشوت وصول کر سکے۔ اس ملک میں کاروبار چلانا اس قدر مشکل ہو گیا ہے کہ اگر کسی فیکٹری مالک کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو سرکاری افسر اس سے براہ راست ملنا چاہتے ہیں۔ اس کے کسی نمائندے سے اس لیے بات نہیں کرتے تاکہ زیادہ سے زیادہ رشوت لے سکیں۔ سسٹم اور پروسیجر کے تحت مسئلہ حل کرنا ترجیح نہیں ہوتی۔ اب بتائیں بھلا ایسے نظام میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کار کیسے کام کر سکتے ہیں۔ ہمیں معاشی ترقی کی بنیاد میرٹو کریسی پر رکھنا ہو گی۔ میرٹ، میرٹ اور صرف میرٹ۔ بات گوادر سے شروع ہوئی تھی۔ ریئر ایڈمرل جواد سے ملاقات نے میری معلومات میں بے حد اضافہ کیا۔ ایڈمرل جواد آج کل پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی وزارت کے ساتھ کئی اہم منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ پلاننگ کے موجودہ وزیر احسن اقبال نے جہاں سے کام چھوڑا تھا پھر سے پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ایڈمرل جواد نے بتایا کہ گوادر سے منسلک ساحلی پٹی ایک ہزار کلومیڑ طویل ہے جو اپنے پُر کشش ساحلوں کی وجہ سے ٹورازم کے لیے بہترین مقام ہے۔ میں پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے وزیر جناب احسن اقبال صاحب کو تجویز دینا چاہتا ہوں کہ وہ صرف اس ایک کام کو یقینی بنا لیں تو پاکستان کا قرض نہ صرف بآسا نی اتر جائے گا بلکہ پاکستان کے لیے معاشی ترقی کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ملک میں سے 100 بڑے کاروباری افراد کو مدعو کریں۔ ان کو گوادر کی ساحلی پٹی کو ڈویلپ کرنے کے لیے 10 کلو میٹر کا علاقہ 20 سال کی لیز پر دیں تاکہ انویسٹمنٹ مع منافع واپس لے سکیں۔ حکومت تمام سہولیات کی گارنٹی دے۔ اس علاقے کو ٹیکس فری زون قرار دے دیں۔ اس میں ہوٹل، نئی ہاؤسنگ سکیمیں، انڈسٹریل زون بنانے کی اجازت دی جائے۔ ان سارے ایریا کو سی پیک کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ سیاحتی اور کاروباری مرکز بننے سے یہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ آنے والے چند برس میں گوادر کی ویلیو دوبئی سے بھی زیادہ ہو گی۔ یہی فارمولا شمالی علاقہ جات میں بھی اپنایا جائے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات سوئٹرزلینڈ سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔ مطلوبہ ڈویلپمنٹ کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ سب تجربہ کار پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کریں۔ پھر نتائج دیکھیں۔ صرف 200 لوگ اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ حکومت کو ون ونڈو آپریشن کے ذریعے سرمایہ کاروں کو تمام سہولیات دینے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ ایک طویل المدتی معاشی پالیسی بنائیں جسے کوئی حکومت تبدیل نہ کر سکے۔ پارلیمان کے ذریعے قوانیں میں تبدیلیاں لائیں۔ اس میں رکاوٹ یا رخنہ ڈالنے والے بیوروکریٹ کو عبرت کا نشان بنا دیں۔ پھر دیکھیں کہ یہ ملک ترقی کرتا ہے یا نہیں۔

تبصرے بند ہیں.