یہ جولائی 1993کی بات ہے نواز حکومت کو اس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے 58ٹو بی کے ذریعے ختم کر دیا تھا لیکن چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے اس بر طرفی کو غیر آئینی قرا دیتے ہوئے میاں صاحب کی حکومت کو بحال کر دیا تھا لیکن بقول یوسف رضا گیلانی کے کہ ایسے فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں اور جہاں سے ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ کاکڑ فارمولہ کے تحت انھوں نے نواز حکومت کو گھر بھیج کر ہی دم لیا ۔میاں صاحب کو بھی بخوبی علم تھا کہ جب کسی کو نکالا جاتا ہے تو اسے دوبارہ لانے کے لئے ایسا نہیں کیا جاتا لیکن وہ میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور اس وقت آزاد الیکٹرانک میڈیا تو نہیں تھا بس پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی شکل میں سرکار کی بولی بولنے ولا پی ٹی وی تھا ۔میاں صاحب نے اقتدار سے رخصتی کے لئے صدرکے استعفی اور دیگر شرائط کے علاوہ ایک شرط یہ بھی رکھی کہ مستعفی ہونے سے پہلے انھیں پی ٹی وی سے براہ راست عوام سے خطاب کا موقع دیا جائے گا ۔ پاکستان ایسے ملک میں حکومت کسی بھی جماعت کی ہو لیکن ڈھائی تین سال کے بعد عوام میں اس کی مقبولیت قدرے کم ہو جاتی ہے لیکن ہمیں یاد ہے کہ میاں صاحب کی تقریر کے بعد عوام میں ان کے لئے ہمدردی کی ایک زبردست لہر پیدا ہو گئی تھی ۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آج اسی نواز لیگ کا بندہ اتحادی حکومت کا وزیر اعظم ہے اسی جماعت کا وزیر داخلہ ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی اسی جماعت کا ہے اور حلف اٹھانے کے بعد وزیر اعظم سمیت پوری کابینہ نے میاں نواز شریف کی قدم بوسی کے لئے لندن یاترا بھی کی تھی لیکن اس کے باوجود بھی نواز لیگ جسے میڈیا میڈیا کھیلنے میں سب سے زیادہ مہارت ہوا کرتی تھی آج وہ میڈیا کی اہمیت کو کیوں بھول گئی ہے ۔ کیا یہ بات بھی بتانا پڑے گی کہ تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی اور اپنی نا اہلیت کے بوجھ تلے دب کر بستر مرگ پر پڑی عالم نزع کی کیفیت میں تھی لیکن عمران خان کی سازشی تھیوری والی ایک تقریر نے اس کے مردہ تن بدن
میں پھر سے جان ڈال دی تو نواز لیگ اپنایاد کیا ہوا سبق کیوں بھول گئی ۔
ہر وزیر یہی کہہ رہا ہے بلکہ خود وزیر اعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تحریک انصاف کے آئی ایم ایف سے معاہدہ کی وجہ سے بڑھانی پڑیں ۔ ہمیں علم ہے کہ یہ بات حقیقت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ محترم وزیر اعظم اس حوالے سے قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لے رہے ۔ کیا مجبوریاں ہیں کون سی بیڑیاں ہیں جو حکومت کو چلنے نہیں دے رہی ۔ خدارا کھل کر قوم کو بتائیں ۔قوم کو اعتماد میں لے کر جو معاہدہ تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف سے کر کے گئی ہے اسے اب تک عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا ۔تحریک انصاف کی قیادت اور شیخ رشید متعدد بار اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ انھیں عدم اعتماد کی تحریک کا علم گذشتہ سال اکتوبر میں ہی ہو گیا تھا ۔اس کا مطلب ہے کہ سازشی بیانیہ تو اس کے بعد دم توڑ دیتا ہے لیکن ہمارے خیال میں اصل کہانی تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے کہ جب عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کا علم ہوا تو انھوں نے آنے والی حکومت کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھانے کے لئے جان بوجھ کر ایک منفی ہتھکنڈے کے طور پرآئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو توڑا تاکہ آنے والی حکومت مشکلات کا شکار ہو لیکن یہ سب اگر صرف سیاسی حکمت عملی ہوتی تو ٹھیک ہے انھیں ایسا کرنے کا حق تھا لیکن اس معاہدہ کو توڑنے کے انتہائی ہولناک نتائج کا سامنا جس طرح قوم کو کرنا پڑ رہا ہے اور ملک کی معیشت کو جس طرح جھٹکے لگ رہے ہیں تو اس کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ کوئی سیاسی چال نہیں بلکہ یہ ایک سنگین قومی جرم تھا جو کہ ملک سے غداری کے مترادف ہے ۔
اگر عمران خان کو ہر طرح سے کھیلنے کے مواقع دیئے جا رہے ہیں تو آپ نے اپنے ہاتھ کیوں باندھ رکھے ہیں ۔ آپ اگر نشانے بھی لگا رہے تو وہ سب چوک رہے ہیں جس سے مخالفین کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو رہا ہے اس لئے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ سابق خاتون اول کی قریبی سہیلی کہ جس کی کرپشن کا دفاع خود خان صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا تھا اس نے اربوں کی کرپشن کی ہے اور سارے ثبوت موجود ہیں تو کیا موجودہ حکومت کے زعما کو شہزاد اکبر صاحب کی وہ پریس کانفرنسز یاد دلانی پڑیں گی کہ جن میں موصوف کاغذ کے پلندوں کو ہاتھوں میں لہرا لہرا کر انھیں ٹھوس ثبوت قرار دیتے تھے اور انھی پلندوں کو لے کر ان کا حامی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ایک طوفان پبا کر دیتا تھا اور تکلف برطرف یہی ان کی کامیابی کا راز بھی ہے ۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ عمران خان حزب اختلاف میں رہ کر فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں تو حکومت کو کیا مسئلہ ہے کہ وہ بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور ہے ۔ اندازہ کریںکہ خان صاحب کی گڈی جس سازشی تھیوری کے بل پر اڑ رہی ہے آج تک ۱س کا کوئی ایک ثبوت وہ پیش نہیں کر سکے لیکن میڈیا کی خلا کو پر کرنے کے لئے وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے جیسے ہی ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی تھی تو تحریک انصاف نے ان کے لتے لینے شروع کر دیئے اور حکومت جس کے وزراءہر روز کہتے ہیں کہ ان کے پاس آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی کاپی موجود ہے توشہ خانہ اسکینڈل کے ثبوت موجود ہیں فرح گوگی کی کرپشن کے شواہد موجودہ ہیں اور اب تو حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ وہ اربوں روپے جو کہ ملکی خزانہ میں آنے تھے وہ ملک کے ایک مشہور پراپرٹی آئیکون کو دے کر سینکڑوں کنال اراضی اپنے نام کروائی گئی اور اس دستاویز پر مبینہ طور پر ایک انتہائی اہم شخصیت کے دستخط موجود ہیں توجناب انھیں قانون کے دائرے میں لائیں اور کارروائی شروع کریں یا آپ حکومت میں صرف بدنامی مول لینے آئے ہیں۔ اس طرح کام نہیں چلنا جو حقائق ہیں انھیں عوام کے سامنے لانا اشد ضروری ہے ورنہ عوام کی نظروں میںموجودہ حکومت کو مجرم ٹھہرا کر اسے کٹہرے میں لانے کا عمل شروع ہو چکا اور اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت کا ہے کہ وہ ٹھوس ثبوت ہوتے ہوئے بھی انھیں عوام کے سامنے لا کر اصل قصور واروں کا چہرہ عوام کو دکھانے سے گریز کر رہی ہے ۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.