کپتان اور فوج مدِمقابل

44

پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر سیاسی معاملات کی تشریح بند کریں اور سیاسی معاملات سیاستدانوں کو حل کرنے دیں۔ اُس نے کہا کہ بیرونی مداخلت کے الفاظ مراسلے میں استعمال ہوئے ہیں اور مراسلے میں کہا گیا کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو پاکستان کے لیے مشکل ہوگا۔ خط میں سیدھی سیدھی پاکستان کو دھمکی دی گئی تھی۔ اسد عمر سے پہلے شیخ رشید یہ کہہ چکا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کسی بھی سروس چیف نے یہ نہیں کہا کہ سازش نہیں ہوئی۔ جواباََ دنیا نیوز کے پروگرام ”آن دی فرنٹ“ میں میزبان کامران شاہد سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف امریکی سازش کے بیانیے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ میٹنگ میں تینو ں سروسز چیفس موجود تھے اور شرکاءکو ایجنسیز کی طرف سے آگاہ کیا گیا تھا کہ کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے۔ اُنہوں نے کہا ”چیفس کے حوالے سے ترجمان مَیں ہی ہوں اور اگر اِس بارے میں کوئی اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو میری ذمہ داری بنتی ہے کہ وضاحت کروں۔ میں نے جو وضاحت کی وہ یہ تھی کہ اِس میٹنگ میں سروسز چیفس اورڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے بالکل واضح کر دیا گیا تھا کہ کسی قسم کی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یہ میری جانب سے وضاحتی بیان تھا اِس میں کوئی سیاسی بات نہیں تھی“۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی اپنی ”اِن پُٹ“ لے کر جاتے ہیں اور وہ اِن پُٹ رائے نہیں ہوتی۔ یہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر انفارمیشن تھی اِس لیے اجلاس میں موجود سیاسی قیادت نے بھی میٹنگ کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں کیا۔اُنہوں نے کہا ” میٹنگ میں واضح بتادیا گیا تھا کہ سازش کے شواہد نہیں ملے۔ حقائق کو مسخ کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے افواجِ پاکستان اور لیڈرشپ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپنی رائے کا حق سب کو ہے لیکن جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے“۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے چوتھی مرتبہ پوری صراحت سے تحریکِ انصاف کے سازشی خط کے بیانیے کو نہ صرف یکسر مسترد کیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اُن کی یہ اطلاع انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بنیاد پر ہے۔ دوسری طرف ”میں نہ مانوںکی رَٹ برقرار۔
پاک فوج کے ترجمان کی اِس وضاحت کے باوجود عمران خاں نے کہا ”کیا ڈی جی آئی ایس پی آر فیصلہ کریں گے کہ سازش تھی یا نہیں؟۔ وہ رائے دے سکتے ہیں فیصلہ نہیں۔ فیصلہ کروانا ہے تو صدرِمملکت نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ تحقیقات کروائیں، سب نے مان لیا تھا کہ مداخلت ہے“۔ قومی سلامتی کمیٹی کی 2 دفعہ منعقد کی جانے والی میٹنگز میں یہ صراحت کی جا چکی کہ کسی قسم کی کوئی سازش نہیں ہوئی اور سفارتی زبان میں مداخلت کا وہ مطلب نہیں جو تحریکِ انصاف نکالنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ حیرت ہے کہ عمران خاں ایک طرف تو ”نیوٹرلز“ کو بار بار منتیں ترلے کر رہے ہیں کہ اُنہیں دوبارہ ”گود“ میں اُٹھا لیا جائے اور دوتہائی اکثریت کے ساتھ دوبارہ شیروانی پہنا دی جائے جبکہ دوسری طرف اُنہی نیوٹرلز کو آنکھیں بھی دکھا رہے ہیں۔ دراصل عمران خاں اِس قسم کے بیانات دے کر عوام کی توجہ اُس کرپشن کی طرف سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا بہت شور ہے اور جس کے دھڑادھڑ ثبوت سامنے آرہے ہیں۔
عمران خاں نے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کو روحانیت کی بہت آگے والی منزل پر پہنچنے والی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُس کا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن حقائق اِس سے یکسر مختلف نکل رہے ہیں۔ شنید ہے کہ فرح گوگی کی جتنی بھی کمپنیاں ہیں اُن میں بشریٰ بی بی کا بھی حصّہ ہے۔ ہم نے اپنے ایک کالم میں ملک ریاض کے حوالے سے القادر یونیورسٹی کا نہ صرف ذکر کیا تھا بلکہ یہ بھی بتایا کہ انگلینڈ میں ملک ریاض کی مَنی لانڈرنگ ثابت ہونے کے بعد لگ بھگ 40 ارب روپے کی خطیر رقم پاکستان کو واپس کی گئی۔ یہ رقم جو حکومتِ پاکستان کی تھی اُسے شہزاد اکبر نے ملک ریاض کو واپس کر دیا۔ اِسی رقم کے عوض ملک ریاض نے القادرٹرسٹ کے لیے 458 کنال زمین دی اور اِس ڈیل پر بشریٰ بی بی کے دستخط ہیں۔ کاغذات میں اِس زمین کی مالیت 53 کروڑ روپے لکھی گئی جبکہ اِس کی اصل قیمت 5 ارب روپے سے زائد ہے۔ اِس یونیورسٹی کی گورننگ باڈی میں صرف 3 افراد یعنی عمران خاں، بشریٰ بی بی اور فرح گوگی شامل ہیں۔ آجکل اِسی ڈیل کا بہت شور ہے اور وزیرِداخلہ رانا ثناءاللہ اِس معاملے پر بھرپور کانفرنس بھی کر چکے۔ رانا صاحب نے ڈاکومنٹس سامنے رکھ کر یہ پریس کانفرنس کی۔ سوال یہ ہے کہ وہ خطیر رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونی تھی اُسے ملک ریاض کو واپس کرکے اُس کے عوض زمین اور ہیروں کے ہار وصول کرنا اگر کرپشن نہیں تو اور کیا ہے؟۔ اِس سلسلے میں ملک ریاض اور اُس کی بیٹی کی مبینہ آڈیو بھی منظرِعام پر آچکی ہے جس میں ملک ریاض کی بیٹی کہتی ہے کہ خاتونِ اوّل کو تین نہیں پانچ قیراط کی ہیرے کی انگوٹھی چاہیے۔
عمران خاں کرپشن فری ”نیا پاکستان“ بنانے کا دعویٰ کرکے میدانِ سیاست میں داخل ہوئے اور زورآوروں نے اپنی طاقت کے بے محابہ استعمال کے بعد اُن کے سَر پر اقتدار کا ہما بٹھایا۔ یہی نہیں بلکہ تین سالوں تک قدم قدم پر اُن کی مدد کے لیے سامنے آتے رہے۔ بقول چودھری پرویز الٰہی اسٹیبلشمنٹ نے ”نیپی“ باندھے عمران خاں کو گود میں بٹھائے رکھااور نیچے اُترنے ہی نہیں دیا۔ اِسی لیے وہ سیاست کی الف بے بھی نہ سیکھ سکے۔ ”سلطنتِ عمرانیہ“ کے سربراہ متواتر حماقتیں کرتے رہے اور بدنام اسٹیبلشمنٹ ہوتی رہی۔ بالآخر اکتوبر 2021ءمیں اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل ہونے میں ہی عافیت جانی۔ جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اعلان کیا کہ فوج نیوٹرل ہے تب سے اب تک عمران خاں کا یہی شور کہ نیوٹرل توجانور ہوتا ہے اور امر بالمعروف کے مطابق کوئی بھی انسان یا تو نیکی کا ساتھ دے گا یا بدی کا، وہ نیوٹرل ہو ہی نہیں سکتا۔ عمران خاں کا یہ دعویٰ بھی عجیب کہ نیکی کا عَلم اُن کے ہاتھ میں ہے۔ اُن کی ذاتی زندگی سے قطع نظر سیاسی زندگی میں وہ منتقم مزاج، جھوٹے، ضدی اور نرگسیت کا شکار کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے ساڑھے تین سالہ دَور میںاپوزیشن کو تباہ وبرباد کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ دراصل اُن کے اندر ایک بَدترین آمر چھُپا بیٹھا ہے۔ اِسی آمر نے جب اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانا شروع کیں تو مُنہ کی کھائی اور اب وہ کبھی خیبرپختونخوا میں پناہ لیتا ہے تو کبھی حفاظتی ضمانت کے ذریعے بنی گالہ میں نظربند ہو جاتاہے۔ اُدھر ہمارے وزیرِداخلہ رانا ثناءاللہ بھی شرارتوں سے باز نہیں آتے۔ وہ ہر روز یہ ”شُرلی“ چھوڑ دیتے ہیں کہ عمران خاں 25 جون تک حفاظتی ضمانت پر ہے جس کے بعد حکومت کی جانب سے مقرر کردہ اُس کا حفاظتی دستہ ہی اُسے گرفتار کر لے گا۔ تحریکِ انصاف کی اندرونی توڑ پھوڑ سب پر عیاں ہو چکی اور وہ جماعت جو پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی تھی، اب اُس کی چہرہ نمائی خال خال۔ نیوٹرلز سے مایوس عمران خاں نے عدلیہ کا دَر کھٹکٹاتے ہوئے یہ درخواست کی کہ اُسے لانگ مارچ کی اجازت دی جائے۔ دراصل عمران خاں اعلیٰ عدلیہ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے لانگ مارچ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کندھا بھی دستیاب نہ ہوا تو اب اُنہوں نے کہا ”اِس تماشے کے خاتمے کے لیے سب کو باہر نکلنا ہوگا ورنہ مزید مہنگائی ہوگی۔ اتوار کی رات 10 بجے قوم سے مخاطب ہوںگاجس میں لائحہ عمل دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں بحیثیت قوم کیا کرنا چاہیے۔ چاہتا ہوں احتجاج کے لیے سب اپنے اپنے شہروں میں نکلیں جس سے اِن لوگوں کو پیغام جائے کہ ملک کو سنبھال نہیں سکتے تھے تو کیوں سازش کی گئی؟“۔ حقیقت یہ کہ آسمانوں کو چھوتی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور کمر توڑ مہنگائی کی واحد ذمہ دار عمران خاں کی حکومت ہی ہے ۔ اِس لیے اُن کی کال پر پہلے بھی 2 دفعہ لوگوں نے باہر نکلنے کی زحمت نہیں کی اور آج رات بھی قوم دیکھ لے گی کہ کتنے لوگ باہر نکلتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.