ایک قدم آگے دو قدم پیچھے

18

ہندوستان پر برطانوی راج کے دور میں گورننس اور ایڈمنسٹریشن کے بہت سے دلچسپ واقعات میں ایسے ہی ایک موقع پر انگریز سرکار کو پٹواری بھرتی کرنے کا مرحلہ در پیش تھا جو لکھنا پڑھنا اور تھوڑا بہت حساب کتاب جانتے ہوں۔ ہندوستان تحصیل دار نے کامیاب امیدوار کو فائنل منظوری کے لیے انگریز اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش کیا ۔ گورا صاحب نے امیدوار کو پوچھا 4×9کتنے ہوتے ہیں تو اس نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا 40 انگریز نے غصے سے تحصیل دار کی طرف دیکھا جس نے اسے بھرتی کیا تھا تو تحصیل دار نے صاحب کو بتایا کہ باقی جتنے امیدوار باہر کھڑے ہیں ان سب کا 4×9 کا جواب 50 سے اوپر آرہا تھا اس کو اس لیے شارٹ لسٹ کیا گیا ہے کہ اس کا جواب درست جواب کے قریب ترین ہے۔ انگریز باس بھی راضی ہو گیا اور امیدوار کو بھرتی کر لیا گیا۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اس دور میں مذکورہ پٹواری نے اپنے سرکاری فرائض منصبی کیسے سر انجام دیئے ہوں گے۔ آج 100 سال بعد بھی مملکت خدا داد پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کے پاس کوئی ثقہ بند ماہر معیشت نہیں ہے جو خزانہ کے معاملات چلا سکے۔ یہ سیاسی پارٹی جب اقتدار میں آتی ہے تو ان کے پاس کوئی وزیر خزانہ کے قابل سیاستدان نہیں ہوتا لہٰذا یہ عہدہ اکثر و بیشتر پارٹی کے باہر سے outsource کیا جاتا ہے اس میں یا تو ورلڈ بینک سے حفیظ شیخ کو لایا جاتا ہے یا کسی کاروباری گروپ کی بھاری بھر کم شخصیت کے نام قرعۂ فال نکلتا ہے۔ جس میں شوکت ترین، مفتاح اسماعیل یا رزاق داؤد جیسے نام ابھر کر سامنے آتے ہیں ان لوگوں کی خزانہ کے معاملات میں Accuracy انگریز دور کے اس پٹواری کی سی ہوتی ہے جو 4×9کو 40 کہتا تھا۔ نتائج آپ سب کے سامنے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو گزشتہ 50 سال سے نظام کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور نظام ہے کہ بگڑتا جا رہا ہے۔ ان میں اسد عمر کا نام غلطی سے مس ہو گیا ہے۔
پٹرول پر سبسڈی کے خاتمے کے نتیجے میں ملک میں جو مہنگائی کا نیا حشر برپا ہے اس نے تو عمران خان کے گزشتہ 4 سالہ دور کے قصے پرانے کر دیئے ہیں ایک دفعہ تحریک انصاف نے پٹرول کی قیمت میں اکٹھا 9 روپے کا اضافہ کیا تو ہر کوئی یہ کہنے پر مجبور تھا کہ یہ اخیر ہو گئی ہے مگر اب یہ حال ہے کہ 30 روپے کا
اضافہ معمول بن چکا ہے لہٰذا اس دفعہ 24 روپے بڑھنے پر عوام میں 6 روپے کے ریلیف کا احساس ہونے لگا ہے۔ پی ڈی ایم خصوصاً ن لیگ دن بدن عوامی غیر مقبولیت کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ لیکن اس کے متوازی تھیوری یہ ہے کہ انتقال اقتدار میں عوام کی کوئی مرضی شامل ہوتی ہے جو ان کے لیے باعث نقصان ثابت ہو گی۔
ہم نے آج تک یہی سنا تھا کہ شہباز شریف بہت بڑے ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن وہ جب سے وزیراعظم بنے ہیں ان کی روایتی انتظامی کرشمہ سازیاں ابھی تک کہیں نظر نہیں آئیں ابھی تک ایک قدم آگے اور پھر دو قدم پیچھے والی حکمت عملی چل رہی ہے۔ معاملات اتنے پیچیدہ ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی کیا کرنا ہے ان کی پی ڈی ایم کے اندر اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ن لیگ کے اندر بہت سے معاملات میں سے same page کا فقدان ہے سب کے اپنے اپنے پیج ہیں۔ ان کے وزیراعظم اور حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے سے dynasty یا موروثیت کو تقویت ملی ہے جو ان کے لیے منفی مقبولیت کا باعث بنے گی۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ سبسڈی ختم کیے بغیر بھی اتنے فنڈز بچائے جا سکتے تھے جس سے زرمبادلہ کا انتظام ہو سکتا تھا۔ ٹیکسیشن کا نظام بہتر نہیں بنایا جا سکا تاجر طبقے پر ٹیکس نہیں لگائے جا سکے۔ بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں کمی کر کے وہ پیسہ غریبوں پر لگایا جا سکتا تھا کوئی قابل ذکر کفایت شعاری مہم کا اعلان نہیں کیا گیا جس سے سرکاری اخراجات میں کمی کا شائبہ بھی ہو۔ اعلیٰ افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کا کوئی اعلان نہیں ہوا۔ ترقیاتی اخراجات ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اس بجٹ کے ترقیاتی اخراجات حکومتی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ میں بانٹے جائیں گے یہ سب کو پتہ ہے کہ یہ الیکشن کا سال ہے یہ پیسہ ایک تو سیاسی رشوت کے طور پر انتخابی حلقوں میں دکھایا جا ئے گا جی ہاں دکھایاکا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ان فنڈز کا غبن ہو گا اور ممبران پارلیمنٹ اس فنڈ کو اپنی انتخابی مہم پر خرچ کریں گے۔
ملک میں مہنگائی اس لیے ہو رہی ہے کہ سارا پیسہ باہر سے پٹرول خریدنے پر امپورٹ بل کی صورت چلا جا تا ہے امپورٹ بل میں کمی کے لیے پٹرو ل کی کھپت میں کمی ضروری ہے یہ وہ پٹرول ہے جس کا بڑا حصہ بجلی پیدا کرنے پر لگ جاتا ہے۔ اس وقت جب ملک میں مہنگائی نے ایک حالت جنگ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے توآپ اب بھی سرکاری دفاتر میں جائیں تو صاحب کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی تمام اے سی چلا دیے جاتے ہیں ایک اے سی کابل اوسط درجے کے 5 نان اے سی گھرانوں کی بجلی ضروریات کے لیے کافی ہوتا ہے۔ کیا اے سی کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی جنگ میں تو سب کچھ جائز ہوتا ہے کاروباری اوقات اور مارکیٹوں کے اوقات کار اچھی بات ہے مگر ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر بجلی اور پٹرول کے بے رحم زیاں کو روکا جائے۔ سرکاری گاڑیوں کا ذاتی استعمال بند کرایا جائے اور مراعات یافتہ طبقے کی تنخواہوں میں کمی کی جائے۔  ایک اور سیاسی فیصلہ قابل ذکر ہے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازم درجہ چہارم کا بھی ہو تو وہ بے روزگاروں سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔ا یسے حالات میں جب پرائیویٹ سیکٹر میں تنخواہیں نہیں بڑھ رہی تو سرکاری سیکٹر میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کے ووٹ  حاصل کرنا چاہتی ہے اور یہ اقدام 2 فیصد کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ گویا آپ نے غریب عوام سے جو سبسڈی کی مد میں پیسہ واپس لیا وہ آپ نے مراعات  یافتہ طبقے کو دے دیا ہے۔ اس بندر بانٹ کو کیا نام دیا جائے۔ شہباز شریف کی جس طرح کی سیاسی repute رہی ہے اس کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری کابینہ سے رضا کارانہ طور پر یہ اعلان کرایا جاتا کہ وہ پروٹوکول نہیں لیں گے تنخواہ نہیں لیں گے فری پٹرول نہیں لیں گے ۔ اس کے علاوہ مشیران کی فوج جو وزیر کے برابر فوائد لیتے ہیں مگر ان کا کوئی کام نہیں ہے ان کی طرف سے بھی رضا کارانہ دست برداری کا اعلان ہونا چاہیے تھا مگر حکومت اپنے جال میں خود ہی پھنس چکی ہے اور اب ان کا مطمع نظر یہ نہیں کہ عوام کی خوشنودی حاصل کریں بلکہ انہیں خوشنودی کا سرچشمہ کہیں اور نظر آتا ہے جہاں سے انہیں دوبارہ اقتدار کا پروانہ جاری ہونے کی امید ہے۔ بہرحال حکمرانوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ان کے نام اقتدار سے سرفراز ہونے والوں کی فہرست میں شامل کر لیے گئے ہیں البتہ عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پارٹی کوئی بھی ہو وزیراعظم کوئی بھی ہو عام آدمی کے مسائل اور مہنگائی میں ترقی کا عمل روکنا ناممکن ہے۔

تبصرے بند ہیں.