معبدیہودسے متحف یہودتک

31

عالمی عدالت انصاف اور لائیڈن یونی ورسٹی کے دیس میں معبدیہود پر پہنچ کرماضی میں دیکھا ہوا معبدیہود یادآیاجس کے بارے میں ہمارامضمون بعضۃ لحظات فی معبدیہودی کے عنوان سے  فی حب مصر میں شامل ہے ۔اب ہم ایمسٹرڈم کے تاریخی متحف یہودکے سامنے تھے۔ یہودکاکوئی عجائب گھردیکھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔عمارت میں وسعت کی جگہ جدت کااحساس نمایاں تھا۔ ٹکٹ گھر پرپہنچے تو حسن نسوانی نے خوش خلقی سے استقبال کیا ۔ ٹکٹ گھرکامنظر خوبصورت اور نفیس تھا اور اس کی کھڑکی میں بیٹھی ہوئی خاتون اگرچہ نسوانیت کی منزل سے بہت قریب نہیں تھی لیکن منزلوں کی مسافت کے باوصف اس کی نسوانیت برقرارتھی۔ میںنے پوچھاکہ کیا میں ماسٹر کارڈ کے ذریعے ٹکٹ خریدسکتاہوں؟اصل میں صبح این فرینک ہائوس کے لیے روانہ کرتے ہوئے میری جیب میں جو کھلے یوروتھے وہ میںنے حذیفہ کودے دیے تھے ۔شباک سے جواب کا پرندہ اثبات کی خبرلایا …شباکی حسن نے پوچھاآپ کہاں سے آئے ہیں ؟میںنے بتایا…’پاکستان سے‘… تویہ جواب سن کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی لکیرپھیلتی چلی گئی …ٹکٹ کی قیمت پندرہ یوروتھی۔میں نے اپنا کارڈ نکالنے کے لیے محفظہ(پرس) کھولاتو اس میں دس یوروکا ایک نوٹ لودے رہاتھا، ساتھ بہت سے سکوں کی جھنکاربھی تھی۔ گنے تو پندرہ یورو بہ آسانی نکل آئے اور میںنے بغیرماسٹرکارڈ استعمال کیے ٹکٹ خرید لیا۔ اس خوش خلق چہرے نے راہ نمائی کرتے ہوئے بتایاکہ اس ٹکٹ میں آپ فلاں فلاں تین میوزیم دیکھ سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ اطلاع بھی دی کہ آج آپ صومعہ میں نہیں جاسکتے کیونکہ آج عبادت کا دن ہے۔یہ صومعہ متحف کے اندرقائم ہے ۔دراصل جرمن یہودکے بناکردہ صومعہ کی عمارت اس عجائب گھرکی عمارت کاقدیم ترین حصہ ہے جو جرمنی سے آنے والے یہودی آبادکاروں نے ۱۶۷۱ء میں تعمیر کیا۔موجودہ متحف جس میں ہم داخل ہورہے تھے ۱۹۳۲ء میں تعمیر ہوالیکن دوسری جنگ عظیم میں اس کے نوادرات بڑی تعدادمیں ضائع ہوگئے ،بحالی کے سفرمیں بہت کم واپس مل سکے۔ ۱۹۵۵ء میں یہ تاریخی متحف دوبارہ کھلااور ایک بارپھر ریزہ ریزہ تاریخ کے آثار تلاش اور جمع کرنا شروع کیے گئے ۔یہ متحف دراصل تاریخ ،مذہب اور ثقافت خاص طور پر’’ ہولوکاسٹ‘‘ کے بعد یہود کی ہالینڈمیں آبادکاری کے آثارکا جامع ہے۔
یہاں یہودی تہذیب و ثقافت اور نیدرلینڈز میں یہودکی آبادکاری سے متعلق آثارکے گیارہ ہزار نمونے ہیں جن میں سے ایک وقت میں پانچ فیصد نمائش کے لیے رکھے جاتے ہیں۔یہودی، نیدرلینڈزمیں کیسے داخل ہوئے، یہاں کے یہودیوں کے ساتھ ان کا میل جول کیسے ہوا، غیریہودی لوگوں کے ساتھ روابط کیسے استوار ہوئے، انھوںنے یہاں آنے کے بعد اپنے کلچرکی حفاظت کیسے کی، یہاں کے کلچرکو یہودی کلچرنے کیاکچھ دیا یہ سب کچھ ان آثارکا موضوع ہے ۔
ہم یہودکے میوزیم میں داخل ہورہے تھے جب میںنے فاروق خالدصاحب سے پوچھا کہ یہاں کوئی ہماری راہ نمائی بھی کرے گا؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں! ہیڈ فون لے لیتے ہیں …اچھا یہاںہیڈ فون کی سہولت میسرہے …میں خوش ہوا
،لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آیاکہ اس کی الگ فیس کے لیے پھر کارڈ اور کیش کی کشمکش کا سامنا ہوگا۔ ہم ہیڈفون کائونٹر پر پہنچے وہاں بیٹھی خاتون نے بڑے اچھے اندازسے ہمیں ہیڈفون دیے لیکن یہ کیا اس پر نہ کوئی نمبر نہ کوئی کان میں لگانے والا حصہ بس ایک ڈبیہ اور گلے میں لٹکانے والی ڈوری… ڈوری کی مدد سے اس ڈبیاکو گلے میںتولٹکالیا لیکن یہ سمجھ نہ آیاکہ اسے استعمال میںکیسے لایاجائے گا ؟ وقت بھی بڑا ستاد ہے رفتہ رفتہ اس کا طریق استعمال معلوم ہوتاگیا۔فارو ق خالدصاحب ،اس میں معاون ہوئے، میںنے انھیں بتایاکہ جاپان میں ہیروشیما کے باغ امن (پیس پارک) میںبھی سیاحوں کی راہ نمائی کے لیے ہیڈفون فراہم کیاجاتاہے لیکن وہاں ریموٹ کی طرح کے آلے میں نمبر بنے ہوئے ہیں اور کان میںلگانے والا حصہ کان میںلگالیا جاتاہے اور پھر آپ جس زبان میںراہنمائی چاہیں آپ اس زبان میں ریکارڈ کی گئی معلومات سے مستفید ہوسکتے ہیں حتیٰ کہ اردو میں بھی اور اچھی اردومیں ،عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہر شے کی بابت بتایاجاتاہے …ترکی میں توپ کپی عجائب گھر میں بھی ہیڈ فون ملتاہے لیکن اس کے الگ چارجز لیے جاتے ہیں غالباً پندرہ لیروں کا ایک ہیڈ فون ملتاہے۔ میں نے وہاں بھی وہ ہیڈ فون لیاتھا اگرچہ اس کا کوئی خاص فائدہ محسوس نہیں ہوا۔جاپان میں البتہ یہ سہولت مجانی(فری) تھی ،پتہ چلاکہ یہاں بھی یہ سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے تاہم اس میں کان میں اڑسنے والی کوئی شے نہیں ہے اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے یہاں بھی کان میں اڑسنے والا ہیڈ فون فراہم کیاجاتاتھا لیکن بعض لوگوں کے کانوں میں انفیکشن یاکوئی الرجی ہوتی ہے جس کے دوسروں کے کانوں میں منتقل ہوجانے کا امکان رہتاہے اس لیے یہ سلسلہ ختم کردیا گیا۔ اب آپ اس ڈبیہ کو عجائب گھر کے اس مظہرکے ساتھ لگے ہوئے ایک خاص نشان کی سمت لے جائیں گے تو اس میں سے موبائل کی طرح اس خاص شے کے بارے میں آواز سنائی دینے لگے گی ۔ایساہی ہوا جب مجھے پتہ چل گیاکہ عجائب گھر میں موجود ہر مظہر کے کسی سمت ریڈیائی لہروں کاساایک نشان بناہواہے۔ بس آپ ڈبیاکارخ اس جانب کریں، ٹک کی سی ایک آواز آتی ہے اورآپ کے پیش نظر شے کے بارے میں تفصیلات کا بیان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بیان جاری رہتاہے جب تک کہ آپ اسے کسی دوسرے مظہرپر بنے ویسے ہی نشان کی جانب نہ کردیں۔ ہم نے اس کے بعد جو بھی عجائبات دیکھے ان پر ثبت کیے گئے ریڈیائی نشان کی جانب اس جادوئی ڈبیاکارخ کیابس نشان اور ڈبیاکوایک دوسرے کے روبرو کرنے کی دیرہے پھر دیکھیے ہوتاہے کیابلکہ بولتاہے کیا……اس متحف میں مجھے  یہودکے پیامبروں سے متعلق عجائبات کی تلاش تھی۔ میںنے فارو ق صاحب سے اپنی اس دل چسپی کا اظہارکیاکہ جس جانب یہود کا پیمبرانہ ورثہ ہواس طرف چلاجائے لیکن انھیں اس کا اندازہ نہ تھا ہم ایک سے دوسرے ہال میں جاتے رہے لیکن وہاں زیادہ تر یہودی عقائدو اعمال سے متعلق تصاویر اور ان کی تاریخ سے متعلق ویڈیوز تھیں یا پھر ان کے معابد میں اداکیے جانے والے مذہبی رسوم کی تفاصیل ۔سامی مذہب ہونے کے ناتے میرے لیے ان رسوم میں کوئی خاص نئی بات نہ تھی حتیٰ کہ وہ شوکیس جس میں فاروق صاحب کو بہت دلچسپی ہوئی اور جس کے بارے میں انھوںنے مجھے خاص طور پربلاکر دکھاناچاہامیں ان سے پہلے دیکھ چکاتھا۔ اس شوکیس میں ختنے کے اوزار رکھے تھے ۔میں ان سے پہلے یہ اوزار دیکھ چکاتھا۔ انھوںنے اس حوالے سے مجھ سے بہت سے سوالات کرڈالے، جن میں مصر یوں کے ہاں پائی جانے والی ختان الاناث کی رسم پر ان کے تحفظات بھی تھے ۔اس رسم کے بارے میں اپنے زمانہ قیام مصر میں خودمیں بھی سوالات کرتا رہا تھا۔ میرے سوالات پر بعض مصری اساتذہ کے دلچسپ جوابات مجھے یادہیں لیکن ان کے بیان کا یہ محل نہیں۔یہاں میں نے فاروق خالدصاحب کو اس موضوع پر نیلم احمد بشیرکے افسانے پڑھنے کا مشورہ دیاکیونکہ فاروق خالدصاحب خود بھی ایک کہنہ مشق افسانہ نگاراور ناول نگار ہیں۔
یہود کے مذہبی راہنمائوں کے عالی شان لباس اوران کی مذہبی رسوم کی ادائیگی کے طور طریقے دیکھتے دیکھتے ہم اس متحف کے ایک منفرد حصے میں پہنچ گئے ۔اس متحف یامیوزیم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں جہاں قدیم ترین تاریخی معبدکی عمارت موجود ہے،نیدرلینڈزمیں یہودکی آمداور ان کی معاشرت سے متعلق تفاصیل ہیں وہاں نئی نسلوں کو بھی فراموش نہیں کیاگیاہے۔ ۲۰۰۶ء میں اس متحف میں بچوں کے میوزیم کا اضافہ کیاگیاجس کا نام Joods Museum Junior  رکھاگیاہے ۔ محض ماضی کی تصویریں دکھاکرترقی کا سفر نہیں کیاجاسکتا جب تک نئی نسلوں اور نئے زمانوں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہ لیاجائے ۔ہزاروں نمونوں، فن پاروں، خطوط ،ڈائریوں، تصاویر، پورٹریٹ، رسالوں کے ہجوم میں بچوں کی دلچسپیوں کا سامان بھی رکھاگیاہے بلکہ اس کے لیے ایک الگ گوشہ مختص کیاگیاہے ۔ایسااہتمام پہلے کسی متحف میں نہیں دیکھاتھا۔
جب ہم بہت سے اطراف میں گھوم چکے اور یہودکی قدیم تاریخ سے متعلق کچھ نہ ملا تو میںنے ایک خاتون اور ایک جوان سے اس بارے میں دریافت کیا۔ انھوںنے قیاسی طور پر کہہ دیاکہ گرائونڈ فلور پر لیکن حقیقت میں یہ عجائب گھر صرف نیدرلینڈز میں یہودکی آمداور آبادکاری کی تاریخ سے متعلق تھا اس لیے اس میں رکھی گئی اشیا کی تاریخ سولھویں صدی سے پیچھے نہیں جاتی ۔باہر نکل کر دیکھا تو میوزیم کے دروازے پر اس میں رکھے گئے نوادر کا زمانہ بھی درج تھا بلکہ ہر ہال کے باہر اس میں رکھے جانے والے نوادر کے سنین بھی درج تھے ۔جن چیزوں میں فاروق صاحب نے زیادہ دل چسپی لی ان میں ایک کا تو ذکرہوچکاکچھ دوسری چیزیں بھی تھیں ۔ ان میںایک وہ دوربین تھی جس میں یہودکی یہاں آمدکے زمانے میں ایمسٹرڈم کے مناظر محفوظ کیے گئے تھے۔ یہ کلائیڈوسکوپ جیساایک آلہ تھا،آپ اس کی کل کو دباتے جائیں اور سولھویں صدی میں یہاں آکر آبادہونیوالے یہود کے پیشوں، ان کے لباسوں، گلی کوچوں اور رہن سہن کی تصاویردیکھتے جائیں ۔یہ سب کچھ بہت دلچسپ تھا۔جدید تمدن نے جس طرح دیہات سے ان کی سادگی چھین لی ہے یہ تصاویردیکھ کر اس کا احساس گہراہوتاگیا۔مغربی دیہات کے یہ مناظر دیکھے بھالے سے لگتے تھے ۔اس سیربین سے معلوم ہواکہ سولھویں صدی کے مغرب کا دیہاتی  سماج ہمارے دیہات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا …ع
اے کاش نئی تہذیب کی رو شہروں سے نہ آتی گائوں میں

تبصرے بند ہیں.