مشکل بجٹ، مشکل فیصلے

20

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 10 جون کو قومی اسمبلی میں 2022-23ء کے وفاقی بجٹ کا اعلان کر دیا۔ ایوان کا ماحول انتہائی خوشگوار، کوئی ہنگامہ آرائی نہ سپیکر ڈائس کا گھیراؤ۔ 30 سال میں پہلا ’’پُر سکون بجٹ‘‘ ارکان نے سوتے جاگتے وزیر خزانہ کی تقریر سنی۔ 9502 ارب کا بجٹ، 3798 روپے کا خسارہ، ٹیکس ریونیو کا ہدف 7004 ارب مقرر، امیروں پر ٹیکس، سپر ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس عائد، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد، پنشن میں 5 فیصد اضافہ، ملازمین نے فوراً اعتراض کیا مہنگائی 25 فیصد اضافہ 15 فیصد، حکومت کیا کرے 25 فیصد اضافہ کہاں سے لائے۔ نجی اداروں کے ملازمین بدستور محروم۔ 786 پر پیغام دیں 2 ہزار مل جائیں گے۔ اس سے کیا ہو گا۔ پٹرول، گیس، بجلی مزید مہنگی ہو گی، کیسے مقابلہ کریں گے۔ سولر پینل، زرعی آلات، مشینری، ادویات کا خام مال اور فلم مشینری سستی ہو گی۔ پٹرول، بجلی، گیس، سگریٹ، الیکٹرک اور بڑی گاڑیاں، جائیداد کی فروخت، موبائل فونز، بزنس کلاس میں ہوائی سفر اور کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر ٹیکس عائد، تنخواہ دار طبقہ کو البتہ سہولت مل گئی۔ 12 لاکھ سالانہ سے اوپر تنخواہ پر ٹیکس عائد، بجٹ کو تاجروں، صنعتکاروں اور بیشتر تجزیہ کاروں نے متوازن ہی کہا مشکل حالات میں مشکل فیصلے، ڈیڑھ دو ماہ کی حکومت نے مختصر وقت میں جو ہو سکتا تھا کر دیا۔ پاکستان کو معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے 37 ارب ڈالر چاہئیں۔ کہاں سے آئیں گے من و سلویٰ کی شکل میں آسمان سے تو نازل ہونے سے رہے۔ لا محالہ آئی ایم ایف اور عالمی اداروں سے رابطے کرنا ہوں گے۔ دوست ممالک ساڑھے تین سال تک دے دے کر تنگ آ گئے ملک پر 47 ہزار ارب کا قرضہ۔ سابق حکومت نے 20 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ مزید کے لیے شرائط پر دستخط کر دیے، شیخ رشید، کہیں نہ کہیں معاشی تباہی کے لیے ان کے جگری یار بارودی سرنگیں تو بچھا گئے کاش شیخ صاحب کسی ٹی وی چینل پر یہ بتا سکتے کہ 20 ہزار ارب ڈالر کہاں خرچ کیے۔ ’’جھوٹ کی ہر طرف حکومت تھی سچ تو ڈھونڈے سے بھی نہ مل پایا۔‘‘ حکومت کے سامنے لا تعداد مشکلات، بے شمار اہداف، ابتدائی اقدامات کے طور پر لگژری گاڑیوں اور سمارٹ فونز پر پابندی لگا دی درآمدی خوراک پر پابندی لگائی تو فون آنے لگے۔ گرجنے برسنے والے وزیر اعظم کیا ہمیں بھوکا مارو گے ہمارے گھروں میں کھانا نہیں پکتا باہر ہی سے آتا ہے چنانچہ ہلکی پھلکی رعایت دینا پڑی۔ ملکی درآمدات 76 ارب برآمدات 35 ارب متوقع اہداف کیسے پورا ہوں گے۔ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ، زمینی حقائق انتہائی تلخ بے شمار بے حساب ٹیکس، معمولی ٹوٹھ پیسٹ پر جی ایس ٹی، بجلی، گیس اور پانی کے بلوں میں بالائی ٹیکس کون کہتا ہے عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ 22 کروڑ 47 لاکھ آبادی سے کسی نہ کسی بہانے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ تاجر صنعتکار صارفین سے ٹیکس وصول کر کے خزانے کا پیٹ بھرتے ہیں۔ ہر غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا شخص اپنی
بساط کے مطابق ٹیکس ادا کرتا ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے انسان تو انسان ملک میں گدھوں کی تعداد 57 لاکھ ہو گئی۔ ان ہی کو امریکا برآمد کر کے زر مبادلہ کما لیا جائے۔ امریکی تو گدھوں اور الوئوں کی بہت قدر کرتے ہیں۔ پاکستان سے گدھوں کی تعداد کم ہو جائے تو شاید ملک آگے بڑھ سکے یہ الگ بات کہ فضاؤں میں گدھ منڈلاتے رہیں گے۔ ’’ہم کہاں آ گئے بات ہی بات میں‘‘ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا۔ بہت کچھ بھگتنا ہو گا۔ ’’جب بن رہا تھا قصر تو کٹوا دیے تھے ہاتھ، جب گر رہا ہے قصر تو معمار کیا کرے‘‘ اس سے زیادہ ریلیف فی الحال ممکن نہیں تھا۔ ساڑھے 3 سال قرضوں پر عیش کرنے والے بھی بجٹ کو ہدف تنقید نہ بنا سکے۔ دبے دبے لفظوں میں کہا ’’مہنگائی بڑھے گی‘‘ گزشتہ برسوں میں کس نے بڑھائی۔ امریکی سازش ہو سکتی ہے عالمی ادارے دشمن ہو گئے یا باہر سے آنے والے مشیروں نے ڈبویا۔ ماشاء اللہ اپنا ہی یہ حال تھا بلکہ ہے کہ ’’آتا نہیں ہے کھیل مگر کھیل رہے ہیں۔‘‘ ایسا سونامی لائے کہ ملک بھر میں آگ لگ گئی۔ جنگلات میں آگ، گھروں میں آگ، اربوں کا نقصان، درخت جل گئے۔ بلین ٹری پر اربوں خرچ کرنے والوں نے ایک لفظ نہ کہا۔ مہنگائی کی آگ، غربت کی آگ، کل پھر کسی غریب نے تنگ آ کے بھوک سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو نیلام کر دیا۔ اسی پر بس نہیں ملک میں معاشی تباہی کی آگ عدم استحکام کی آگ اور اس پر اب تک موجودہ حکومت کو گرانے کے منصوبے روزانہ لانگ مارچ کی دھمکیاں 25 اور 26 مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی سے سبق نہیں سیکھا۔ کسی نے کہا ’’تھکن کے ساتھ اداسی بھی لے کے لوٹ آیا۔ بہت مصر تھا وہ ڈی چوک دیکھنے کے لیے‘‘۔ اب کیا صورتحال ہے کپتان مایوس دل گرفتہ 3 ہفتوں کی ضمانت کے باوجود خوف زدہ پشاور سے راہداری ضمانت کے باوجود ہیلی کاپٹر سے بنی گالہ پہنچا۔ ’’کھوئے کھوئے ہوئے کپتان نظر آتے ہیں، سیاست کی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں‘‘ 20 لاکھ عوام ڈی چوک پہنچانے کا خواب بکھر گیا۔ لانگ مارچ کا سودا اب بھی دماغ سے نہیں نکلا کہا کہ سپریم کورٹ سے تحفظ ملنے کے بعد تاریخ کا اعلان کروں گا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ کور کمیٹی میں بیشتر ارکان لانگ مارچ کے مخالف، اپنے ہی ایک نائب صدر نے بقول رانا ثناء اللہ پاگل قرار دے دیا۔ اسلام آباد پریس کلب میں کیا گیا ڈرامہ بھی کام نہ آیا۔ اوپر والوں نے تردید کر دی کسی نے 90 دن میں انتخاب کرانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ بجٹ کے بعد کسی نامعلوم انقلاب کے دعوے دم توڑتے نظر آتے ہیں۔ نجومیوں نے بھی وارننگ دے دی کہ 27 جون تک ستارے گردش میں ہیں احتیاط کریں اسٹیبلشمنٹ نے بھی چین سے بیٹھنے کو کہا ہے حیرت ہے شیخ رشید کے بقول میں نے کپتان کو 4 ماہ پہلے بتا دیا تھا کہ حکومت کے خاتمہ کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد امریکی سازش قتل کی سازش اور دیگر سازشوں کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا۔ ابھی تک ’’چوروں ڈاکوؤں‘‘ کی حکومت سے نالاں، مگر اپنی بُکل میں چھپے چوروں سے لا علم، پتا ہی نہیں کہ کرپشن کے سارے ماہرین اربوں کمانے والے پوت اور پوتینیاں بکل میں چھپی ہوئی ہیں۔ نیب چیئرمین نے 805 ارب برآمد کیے قومی خزانے میں صرف 5 ارب پہنچے۔ باقی کہاں گئے چار قیراط کی انگوٹھی کس نے مانگی کسی نے پہنی، شنید ہے کہ 30 ارکان پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے فارورڈ بلاک بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ شیرازہ بکھر رہا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی ہے۔ اس پر بھی عوامی حمایت کے دعوے باہر نکل کر تو دیکھیں ’’زمانہ چال قیامت کی چل گیا پنج پیارے اوروں کے دامن میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ حرف آخر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل حکومت استحکام کی جانب گامزن کپتان صرف ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، فیصلے ہو چکے حکمران جانے والے نہیں۔ انتخابات ایک سال تین ماہ بعد ہی ہوں گے۔ ’’ستم گروں کی حکومت پہ ناز ہے جن کو فضائے دہر میں اک دن بہائیں گے آنسو۔‘‘ ابن انشاء یاد آ گئے لکھا تھا ’’راہوں میں پتھر، جلسوں میں پتھر، سینوں میں پتھر، عقلوں پہ پتھر، آستانوں پہ پتھر، دیوانوں پہ پتھر، پتھر ہی پتھر یہ زمانہ پتھر کا زمانہ کہلاتا ہے۔‘‘ ان ہی پتھروں پہ چلنے والے فگار پاؤں کے ساتھ بجٹ کے اہداف پورے کرنے اور ملکی معیشت کو تباہی اور دیوالیہ پن سے نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں کامیاب ہوں گے یا نہیں، واللہ اعلم بالصواب۔

تبصرے بند ہیں.