معاشی شفافیت عوامی ریلیف ناگزیر

9

اس بنیادی اقتصادی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کی عالمی معیشت کا زیادہ تر انحصار پٹرولیم مصنوعات اور اس سے حاصل ہونے والی توانائی کے بیش بہا وسائل سے ہے۔ جس ملک نے اپنے وسائل پر بھروسہ اور اپنی افرادی قوت سے استفادہ کیا وہ اقتصادی اور سماجی میدان میں زقندیں بھرتا رہا، آج معاشی انجن پٹرولیم مصنوعات کا محتاج ہے، لیکن ساتھ ہی متبادل توانائی کے نت نئے وسائل کے استعمال کی جستجو میں لگی ریاستیں توانائی بحران کے خاتمے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور اقتصادی اہداف تک رسائی کو قومی خوشحالی کی کلید سمجھتی ہیں۔ مگر ہماری معیشت کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ اسے عدم شفافیت کے باعث پیدا شدہ قیاس آرائیوں، الزامات اور تضادات کا سامنا ہے۔ ادھر ملک میں تشدد، لاقانونیت اور انتہا پسندی کے عفریت نے سیاسی و معاشی استحکام کے حصول کو اقتصادی صحرا کے طویل اور اعصاب شکن مسافت کا روپ دے دیا ہے۔ شائد ہی کسی ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں مبصرین، اقتصادی ماہرین اور سیاست دان اس قدر مہیب تبصرے اور سویپنگ ریمارکس دیتے ہوں جتنے مایوس کن اشارے وہ ملکی معیشت کے نشیب و فراز کے بارے میں دیتے ہیں۔ اس ساری صورحال میں ہمارے سیاست دان بھی کمال کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ایک محبِ وطن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا واقعتاً یہ ہی دنیا کی بڑی اسلامی ایٹمی ریاست ہے جس کے قیام کے وقت تحریکِ پاکستان کے اکابرین نے سوچا تھا کہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک کا محور ہو گی اور یہاں کے مسلمان اپنے جدا گانہ تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے احکامِ الٰہی اور سنتِ نبویﷺ کے مطابق زندگیاں گزار سکیں گے۔
ہم وہ خوش نصیب ملک ہیں جنہوں نے سیاسی حکمت کے سارے تجربے کئے ہیں ہم مگر وہ بد نصیب ملک ہیں جنہوں نے کسی بھی طریقِ سیاست سے کسی قسم کا کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ عوامی حلقوں میں پریشانی، بد اعتمادی اور نفرت کے بڑھتے ہوئے حالات کے باوجود ہمارے سیاست دانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، سیاست دان ان حالات سے کچھ سبق سیکھتے الٹا ان کی ہٹ دھرمیوں اور من مانیوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں ہر قسم کی اخلاقی گراوٹ کا ایسا گھٹیا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا
ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ ان شخصیات سے ایسے اعمال غیر شعوری طور پر سر زد نہیں ہوتے بلکہ وہ یہ سب کچھ دیدہ و دانستہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کر گزرتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ ہمارے لیڈر اپنی ریشہ دوانیوں اور چالاکیوں کی بدولت ہر جائز احتساب سے بچ نکلتے ہیں، یہ سب ایسے کمال کے موقع پرست ہیں کہ ان کا ایجنڈا پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ بن چکا ہے اور ان سب نے مل کر پورے نظام کو برباد کر رکھا ہے۔ انہی کی کارستانیاں ہیں کہ آج ہر ایک کی زبان پر یہی بات ہے کہ کہیں پاکستان دیوالیہ نہ ہو جائے۔میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ حق دار ناامید ہو چکے ہیں، تعلق داروں کو کھلے عام عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ جب کہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ کچھ نہ کچھ گنوا رہے ہیں، اس پر قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ پیسہ کہاں لگ رہا ہے کیونکہ عوام کے لئے کچھ ہوتا بنتا نظر نہیں آ رہا ماسوائے ہوائی قلعوں کے۔امریکہ میں اتنی ہمت کبھی نہیں ہوئی تھی کہ یہ کہے کہ اگر اپنے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں کرو گے تو پاکستان کو نقصان ہو گا۔ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کے شکنجے میں ہم پوری طرح کستے چلے جا رہے ہیں۔ آج امریکہ سے دھمکیوں اور مطالبوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ انگریز بھی عجیب قوم ہے ہر پانچ سال کے بعد الیکشن کرانے کی ریت مسلمانوں میں بھی ڈال کر چلا گیا۔ اچھے خاصے مسلمان حکمران بادشاہت کے مزے لوٹ رہے تھے۔ آج چودھریوں، سرداروں، جاگیرداروں،  نوابوں کو ہر پانچ سال کے بعد عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ عوام کو وہ ووٹ لیتے ہی بھول جاتے ہیں۔ ان حکمرانوں اور سیاست دانوں کو نہیں معلوم آج ان کی وجہ سے تمام کاروبار، سٹاک ایکسچینج، صنعتیں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ عام آدمی کی غربت دور کرنے کے لئے مفید، مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ خطِ افلاس کے نیچے بد ترین حالت میں زبدگی بسر کر رہا ہے۔ اس کے لئے دو وقت کی آبرومندانہ روٹی کا حصول بے لگام مہنگائی کی وجہ سے آج بہت مشکل ہو گیا ہے۔ بد قسمتی سے آج بھی معیارِ زندگی کے لحاظ سے پاکستان عالمی رینکنگ میں انتہائی نچلے نمبروں پر ہے۔ ملک کے حالات کے حوالے سے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ بڑا وائرل تھا، لطیفہ یوں ہے کہ امرتسر میں ایک سردار جی اچانک وفات پا گئے اور ان کی بیوہ یہ خبر سن کر زور زور سے بین کرنے لگی کہ ” وے کہاں جا رہے ہو جہاں نہ بتی نہ دیا”۔” وے کہاں چلے گئے ہو جہاں نہ چارپائی نہ پیڑا”۔” وے کہاں چلے گئے ہو نہ روٹی نہ آٹا”۔ وہ غم سے نڈھال یہ بین کر رہی تھی کہ اتنے میں اس کا معصوم بچہ گھر میں داخل ہوا، اس نے ماں کے بین سن کر نہایت بھولپن سے پوچھا، اماں ابا پاکستان چلا گیا ہے؟
اگر پاکستان سے بذریعہ اقتدار و اختیار لوٹ مار اور بد عنوانی کے کلچر کی بیخ کنی کر دی جائے تو کوئی بعید نہیں کہ مختلف عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لئے مختص فنڈز میں سے چند مونگ پھلی کے چھلکے عوام تک پہنچ سکیں۔ اس پر سوائے اظہارِ تاسف کے اور کیا، کیا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز میں منتخب سیاسی جمہوری حکومت ہو یا غیر منتخب عسکری حکومت، ہر دو ادوار میں عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی جانب کبھی توجہ نہیں دی گئی تاہم غربت مکاؤ مہم قسم کے نعرے ضرور فضاؤں اور ہواؤں میں گونجتے رہے۔ان نعروں کو سن سن کر عام آدمی کے کان سن ہو چکے ہیں۔ یہاں غربت تو ختم نہ ہو سکی البتہ غریب شہری کی زندگی کی کتاب پر وقت سے قبل ہی مقتدر طبقات کی پالیسیاں تمت بالکرب لکھتی رہیں۔عام پاکستانی جاننا چاہتا ہے کہ وہ شبھ گھڑی کب آئے گی جب اسے بیروزگاری اور مہنگائی کے آدم خور عفریت سے نجات ملے گی۔
جس طرح پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کی حکومت پر شب خون مارا اس سے سیاست دانوں کی اقتدار پرستی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ آج یہ حقیقت ہے کہ عوام سیاست دانوں کے حالات کو سنبھال نہ سکنے کے بار بار کے تجربات سے دلبرداشتہ ہوتے جا رہے ہیں اور اب یہ بات برسرِ عام کی جانے لگی ہے کہ سیاست دان بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہر بار حالات کی کنی ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔ صورتحال کا تقاضا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہئیں جس سے جمہوریت اور پورا سسٹم ہی داؤ پر لگ جائے۔ اب بھی موجودہ حکومت کے پاس وقت ہے کہ وہ نئے انتخابات کا اعلان کرے اور تازہ مینڈیٹ لے کر آئے اور پھر حکومت کرے۔ زندہ اور حساس معاشروں میں عوام کی اہمیت ثانوی حیثیت نہیں رکھتی۔ پس وہ اپنی اہمیت کے بل بوتے پر فارمولوں کو طے اور استعمال کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.