وفاقی حکومت کا مالی سال 23-2022 کاعوام دوست بجٹ

70

پاکستان کے مالی سال 23-2022 کاعوام دوست وفاقی بجٹ 10 جون بروز جمعہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔بجٹ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پیش کریں گے، حکومت کا ٹیکس آمد کا ہدف 7 ہزار 225 ارب جب کہ ترقیاتی حجم 700 سے 900 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے 10 جون کو وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق 10 جون کو ہی وفاقی بجٹ سینیٹ کو بھجوایا جائے گا۔سیکرٹری خزانہ نے سیکرٹری کابینہ کو خط لکھا ہے کہ بجٹ تجاویز کی منظوری کیلئے کابینہ اجلاس 10 جون کو طلب کیا جائے۔بجٹ میں ٹیکس آمدن کا ہدف 7225 ارب روپے جب کہ ترقیاتی بجٹ کا حجم 700 سے 900 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔خیال رہے کہ چند روز قبل وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ حکومت عوام اور کاروبار دوست بجٹ پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی سے ملاقات کے موقع پر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ میکرو اکنامک استحکام موجودہ حکومت کی اولین فکر ہے، حکومت مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے کی راہ پر گامزن ہے. صدر ایف پی سی سی آئی نے وفاقی بجٹ 2022-23 کے لیے تجاویز پیش کیں اور وزیر خزانہ کو تاجر برادری کو درپیش ٹیکس سے متعلق مسائل سے بھی آگاہ کیا۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے معاشی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی اور معیشت کی بہتری کیلئے ایف پی سی سی آئی کے اراکین کی بجٹ تجاویز کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ حکومت عوام اور کاروبار دوست بجٹ پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔کسی سیاسی حکومت کا بجٹ اس کے سیاسی ایجنڈے اور انتخابی منشور کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ دیکھنے میں تو بجٹ اعداد و شمار سے بوجھل دستاویز لگتا ہے مگر اس میں سیاسی حکومت اپنے وژن کے مطابق وسائل کو ان شعبوں کی جانب موڑتی ہے جن سے معیشت کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جاسکے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابقہ کسی بھی بجٹ میں یہ صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی اور معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار رہی جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ یوں روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور بے روزگاری اور غربت کے شکار افراد کی تعداد بھی بڑھ گئی۔پاکستان تحریک انصاف کا تیسرا بجٹ چوتھے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں پیش کیاتھا۔ بجٹ کو پیش کرتے ہوئے شوکت ترین نے ایک بہت ہی عجیب جملہ اپنی تقریر کا حصہ بنایاتھا۔ کہ ’میرا اصول ہے کہ قبرستان میں کھڑے ہوکر مردوں کو اکھاڑنے سے بہتر ہے کہ باہر نکلا جائے اور قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے‘۔شاید انہوں نے یہ جملہ اپنے دائیں جانب براجمان عمران خان کے لیے کہا تھا کیونکہ عمران خان اور ان کی کابینہ ہر کام کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر ڈالتی رہی ۔مالی سال 23-2022 بجٹ میں وزیرِ خزانہ
نے معیشت کی اہم ترین پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے..ملک میں غربت کے خاتمے کے علاوہ معیشت کو بحال کرنے کے لیے صنعتوں، زراعت اور سرمایہ کاری کو مراعات دی جائیں گی‘وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد ایڈہاک اضافہ، پنشن میں 15 فیصد اضافہ اور کم سے کم تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ مقرر ہو گی آئندہ بجٹ 2022-23 میں مجموعی طور پر 300ارب سے زائدٹیکس لگنے کا امکان ہے ،آئندہ وفاقی ترقیاتی بجٹ 700 ارب روپے مقرر کئے جانے کا امکان ہے ، مہنگائی ، برآمدات ، درآمدات ، ترسیلات زر کے اہداف طے کئے جائیں گے ،آئندہ مالی سال کیلئے 1155 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز ہے ، ٹیکس وصولیوں کا ہدف سات ہزار 255 روپے رکھا جانے کا مکان ہے۔ آئندہ مالی سال میں کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 843 ارب وپے کی وصولی کی تجویز دی گئی ہے ، دفاع کی مد میں 1586 ارب روپے ، قرض اور قرض پر سود ادائیگیوں کی مد میں 3523 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔حکومت کے لیے یہ ایک مشکل بجٹ ہوگا کیونکہ وہ آئندہ الیکشن میں عوامی حمایت کے حصول اور بوجھ کم سے کم ڈال کر اسے عوام دوست بجٹ بنانا چاہتی ہے مگر دوسری طرف آئی ایم ایف کی جانب سے قرضوں کے شیڈول کے لیے کڑی شرائط لگائی گئی ہیں اور ان قرضوں کے بغیرحکومت کا آنے والے مہینوں میں چلنا مشکل ہے جبکہ حکومتی مشینری چلانے کے لیے حکومت کو ریونیو کی سخت ضرورت ہے اگر کہا جائے تو موجود حکومت کئی محازوں پر لڑ رہی ہے سیاسی ، ملکی استحکام، بین الااقوامی ، آئندہ بجٹ ، سب کو بیلنس کرکے ساتھ لیکر چلنا بہت مشکل ہے،مالی سال 2022-23 کا سالانہ بجٹ فنانس بل 2022 کے ساتھ جمعہ 10 جون 2022 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا’۔ اگلے سال کا وفاقی ترقیاتی پروگرام 700 ارب روپے سے زیادہ کا متحمل نہیں ہوسکتا ورنہ ٹیکس کا بوجھ بڑھانا پڑے گا۔ حکومت کی جانب سے 45 دن سے دو ماہ کے عرصے میں ایندھن اور بجلی کی سبسڈی کو بتدریج ختم کرنے کے عزم سے آگاہ کیا تا کہ عوام کو اچانک دھچکا لگنے سے بچایا جا سکے۔تاہم سبسڈی میں کمی کے متفقہ منصوبے کے تحت کیا جائے گاحکام نے وفاقی بجٹ کے مسلسل بوجھ کو کم کرنے اور اپنی آمدنی کو مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے کے لیے حصص کی تقسیم اور پبلک سیکٹر کے اداروں خصوصاً توانائی کے شعبے کی کمپنیوں کی نجکاری کے لیے ایک عارضی منصوبہ بھی شیئر کیا ہے۔ شیڈول کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مشاورت سے حتمی شکل دی جائے گی اور اسے اسٹرکچرل بینچ مارک کے طور پر معاہدے کا حصہ بنایا جائے گا۔مفتاح اسمٰعیل نے آئی ایم ایف کو سخت فیصلے لینے، پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے اصل فنڈ پروگرام میں کی گئی اصلاحات اور مکمل اسٹرکچرل بینچ مارک کی یقین دہانی کرائی ہے، ان اقدامات کو ساختی بینچ مارکس کے بیک لاگ کو صاف کرنے کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔ دونوں فریقین نے عمومی طور پر اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ پروگرام کی مدت میں ایک سال کی توسیع اور پروگرام کے حجم میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ مالیاتی اہداف کو پورا کرنے کے بجائے بنیادی وجوہات کو حل کرنے والے اسٹریٹیجک اسٹرکچرل بینچ مارک سے منسلک ہونا چاہیے۔انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ایسے معیارات قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس کے تحت بنیادی چیلنجز دور نہیں کیے جاتے اور تکلیف دہ اقدامات کے باوجود بار بار واپس آتے ہیں۔اس طرح پاور کمپنیوں اور دیگر خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو نظرثانی شدہ اور8 ارب ڈالر کے اپ گریڈڈ فنڈ پروگرام میں اسٹرکچرل بینچ مارک کے طور پر شامل کرنے پر اتفاق کیا گیا تاکہ گردشی قرضوں کے بہاؤ کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے اور نجکاری کے ذریعے قرضوں کے ذخیرے کو تحلیل کیا جائے۔وفاقی بجٹ 23-2022 کیلئے حکومت کو مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے ، آئندہ مالی سال مختلف وزارتوں کیلئے ترقیاتی فنڈز میں کمی کا امکان ہے ، وفاقی بجٹ 23-2022میں ترقیاتی بجٹ کا حجم بھی کم کیا جائے گا۔مالی سال 23-2022میں ترقیاتی بجٹ 700 ارب روپے رکھنے کا امکان ہے ، رواں مالی سال ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے رکھا گیا تھا، ترقیاتی بجٹ آئندہ مالی سال میں رواں مالی سال کے مقابلے میں 22 فیصد کم ہوگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال میں پاور ڈویڑن کیلئے50ارب روپے رکھنے اور این ایچ اے کے لئے آئندہ بجٹ میں120ارب روپے رکھے جانے کی تجویز دی گئی ہے ، آئندہ مالی سال این ایچ اے کا بجٹ رواں بجٹ کے مقابلے 6 ارب روپے کم ہوگا۔ضم شدہ اضلاع کی ترقیاتی اسکیموں کیلئے40 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی ہے ، ضم شدہ اضلاع کیلئے رواں مالی سال کے مقابلے 14 ارب روپے کی کمی ہوگی۔اس کے علاوہ ہائیرایجوکیشن کمیشن کی آئندہ مالی سال کیلئے30 ارب روپے کی تجویز ہے ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیلئے آئندہ بجٹ میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ وزیر اعظم نیایچ ای سی کیلئیبجٹ میں کٹوتی نہ کرنیکی ہدایت کی ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں دو بار اضافہ کرنے کے بعد اقتصادی بحران سے نکل آئے ہیں۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ٹویٹر پر بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کا معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، پٹرول کی قیمت میں دو بار اضافہ کرنے کے بعد ہم اقتصادی بحران سے باہر نکل آئے ہیں۔مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف آنے والے وقت میں مہنگائی پرقابو پانے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں گے تا کہ حکومتی اخراجات میں کمی کی جاسکے۔انہوں نے کہا کہ غیر ملکی کرنسی اکائونٹ، روشن ڈیجیٹل اکانٹس یا عوام کے پرائیویٹ لاکرز کو منجمد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، ہم ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے، سوشل میڈیا پر اس حوالے سے آنے والی خبریں غلط اور جانب دارانہ حلقوں کی جانب سے پھیلائی جارہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.