لفظ ’’وزیر اعظم‘‘ کی قیمت…!

18

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سیاسی بحران میں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ فائدے میں ہے اور معاشی و سیاسی عدم استحکام کا سارا بوجھ مسلم لیگ ن اکیلے ہی اٹھاے ہوے ہے۔ تمام تر اتحادی ذمہ داریاں اٹھانے کی بجاے اس مجبور حکومت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور اگلے انتخابات کے لیے ’’زاد راہ‘‘ اکٹھا کرنے میں لگے ہیں۔
حکومت وقت کا یہ حال ہے کہ نہ معیشت سنبھل رہی ہے اورنہ حکومت۔ اس لیے کبھی گرینڈ ڈائیلاگ ، میثاق معیشیت اور میثاق سیاست کی گھٹی گھٹی کمزور آوازیں نکال رہی ہے۔ کمزور اس لیے کہ مخلوط حکومت کے دیگر حصہ دار صرف دودھ پینے میں لگے ہیں اور کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں لیکن یہ آوازیں اپوزیشن کے بند کانوں سے ٹکرا کر اور پذیرائی نہ ملنے پر حکومت کی طرف واپس لوٹ رہی ہیں۔ حکومتی اتحاد کی مضبوطی کا یہ حال ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تباہ کن فیصلے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شدید مہنگائی کی تمام تر ذمہ داری اور عوامی ردعمل مسلم لیگ ن پر آن پڑا ہے اور اتحادی اس بوجھ کو شیئر کرنے تیار نہیں اور مسلم لیگ کو بھی علم ہے کہ اسے آئندہ انتخابات میں اس کی بھاری قیمت اٹھانی پڑے گی۔ اتحادیوں کا موقف ہے پارلیمانی حکومت میں وزیر اعظم ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ اب تو یہاں تک ہونے لگا ہے کہ حکومتی فیصلوں پر ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنسوں میں اتحادی بیٹھنے سے بھی کترا رہے ہیں کہ کل انتخابات میں یہ گلے ہی نہ پڑ جاے۔ مسلم لیگ ن کے چوٹی کے دس لیڈران میں سے ایک جو کہ عدم اعتماد کے بعد حکومت میں آنے کی بجائے فوری انتخابات کے حق میں تھے کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کو ایک لفظ ’’وزیر اعظم شہباز شریف‘‘ کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی اس کا انہیں اندازہ نہ تھا۔ مزید گویا ہوئے کہ ایسے وقت میں شہباز شریف کی طرف سے گرینڈ ڈائیلاگ اور میثاق معیشت و سیاست کی بات حکومت کی مزید کمزوری ظاہر کرتی ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے اگر ایسا ہی تھا تو پھر ہمیں حکومت میں نہیں آنا چاہیے تھا ۔
دوسری طرف اب مسلم لیگ ن میں یہ تاثر تیزی سے تقویت پکڑ رہا ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنی چالاکی سے نواز شریف کی خواہش کے برعکس مسلم لیگ ن کو اقتدار کی ایک ایسے دلدل میں پھنسا دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی بجاے روز بروز دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگیوں کا خیال ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کا سٹیک سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہے اور اسے علم ہے کہ موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے شاید اس بار اگر شفاف الیکشن کی صورت میں وہ حصہ بھی کم ہو جائے۔ ہاں اگر ’’غیر مرئی‘‘ قوتوں نے ہمیشہ کی طرح مداخلت کی تو بات کچھ اور ہو سکتی ہے۔ آصف علی زرداری کی حکمت عملی نے مسلم لیگ ن کی اقتدار کی محبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اس بری طرح جکڑ دیا ہے کہ اب نہ جائے رفتن اور نہ پائے رفتن۔
حتیٰ کہ 12 رکنی حکومتی اتحاد کی تیسری بڑی جماعت جمعیت علمائے اسلام بھی بس اپنی وزارتوں کے مزے لے رہی ہے۔ مولانا صاحب ملائی والی وفاقی وزارتوں کے بعد اقتدار میں مزید حصہ مانگ رہے ہیں۔ گو کہ مولانا فضل الرحمان کو پنجاب اسمبلی میں کوئی ممبر نہیں لیکن یہ بھی پنجاب کے اقتدار میں ایک معاون خصوصی اور ایک مشیر کے طلبگار ہیں۔ یہی نہیں وہ سندھ میں بھی شراکت اقتدار کے خواہاں ہیں اور آصف زرداری سے اس ضمن میں مطالبہ بھی کر چکے ہیں لیکن پیپلز پارٹی سندھ اس پر قطعاً تیار نہیں جس کی وجہ سے زرداری صاحب نے معاملہ موخر کیا ہوا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے سندھ میں اور مسلم لیگ ن کے پنجاب کے گلے میں جے یو آئی کی ہڈی اٹکی ہوئی ہے۔
رہی ایم کیو ایم تو اس کا سٹیک کراچی تک محدود ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کے چکر میں ہے۔ یہ بھی سندھ کابینہ کی گھوڑی چڑھنے کی خواہاں ہے لیکن کچھ اندرونی لڑائیوں اور کچھ پیپلز پارٹی کی مزاحمت کی وجہ سے ابھی یہ سلسلہ رکا ہوا ہے۔ ان کا سارا زور بھی اگلے انتخابات میں پارٹی کے لیے راہ ہموار کرنا ہے اور ان کی بلا سے عوام کس چکی میں پس رہے ہیں۔
اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی باپ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی بائونڈری لائن پر بیٹھے میچ سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ اس سارے کھیل میں دودھ دینے والی گائے مسلم لیگ ن ہے اور باقی سب ہر قسم کی ذمہ داریوں سے مبرا محض دودھ پینے والے بچھڑے ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں احساس کہ دودھ کے حصول کے لے ان کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور ساجھے کی گائے کا خیال رکھنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔
اس مخلوط حکومت کے تمام اراکین اپنے جثے سے زیادہ کا حصہ مانگ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں پوری پارلیمانی پارٹی وزارتوں کی خواہاں ہے۔ مرکز میں بھی یہ قومی اسمبلی کی سپیکرشپ کے بعد کلیدی وزارتوں کی امیدوار ہے۔ آصف علی زرداری اپنے حصے کی مزید وصولی کے وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب کی ادھوری کابینہ کی حلف برداری بھی پیپلز پارٹی کی بلیک میلنگ کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے کابینہ اراکین نے حلف برداری کے دوران اپنے تمام ممبران کے لیے کابینہ میں جگہ مانگ لی تھی اور من پسند محکموں کی بھی خواہاں تھی لیکن مسلم لیگ ن اس کے لیے تیار نہ تھی۔ جس پر پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضی نے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا یوں بڑوں کی مداخلت سے رات بارہ بجے کے بعد حلف برداری ہو سکی۔ پیپلز پارٹی کی ہوس اقتدار دیکھیں کہ اپنے وزرا ء کے لیے من چاہے محکموں کی خاطر آصف زرداری کو وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنا پڑا۔ ساتھ ہی دلدل میں پھنسی مسلم لیگ ن کو پنجاب کے ضمنی انتخابات بھی چند نشستوں کے ’’بھتے‘‘ کی وصولی کے بعد ضمنی انتخابات مشترکہ لڑنے کا مطالبہ کر دیا۔ گو کہ عام اثر یہی ہے کہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے لیکن اس سے مسلم لیگ ن میں بڑا اضطراب پایا جارہا ہے البتہ حتمی فیصلہ پارٹی کے قائد نواز شریف کریں گے۔ سیاست کے اس بھنور میں مسلم لیگ ن کی کشتی اکیلے جس طرح ہچکولے کھا رہی ے اس کا اندازہ تو اسے آئندہ انتخابات میں ہو گا اور تب ہی اندازہ ہو گا کہ اقتدار میں آنے کا فیصلہ ٹھیک تھا یا غلط۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474پر دیں

تبصرے بند ہیں.