مرگِ خاموشی

72

مرزا غالب نے کہا تھا: زبان، اہلِ زباں میں ہے مرگِ خاموشی۔ ہم کم وبیش ڈیڑھ ماہ خاموشی کا قتلِ عام بھگتتے رہے۔ اب چند دن سکون وعافیت میں زخمی خاموشی کی مرہم پٹی ہوتی رہی۔ چھ دن کا الٹی میٹم ختم ہونے کے بعد اب اللہ ہماری سماعتوں کو عافیت میں رکھے۔ دھمکیاں بدستورجاری ہیں۔ ’یہ…. نہیں بچیںگے، ہم کسی صورت موقف سے پیچھے نہیں ہٹیںگے…. اب نکلے تو واپسی ناممکن…. حق نہ ملا تو چھین کر لیںگے!‘ (آزادی مارچ قرار دیا تھا خاموشی کے اس جنازے کو۔) کشمیریوں کا نعرہ ’ہم چھین کے لیںگے آزادی‘ پر انہوںنے قبضہ جمالیا۔ موجودہ حکومت، بھارتی حکومت کے مترادف ہوگئی اور حکمرانی ان کا پیدائشی حق ٹھہرا۔ سینہ زوری ہو تو ایسی! معیشت کو اربوں روپے کا جھٹکا لگا۔ ان کے چند ہزار نے اسلام آباد میں آتش زنی، توڑپھوڑ، تشدد کا بازار گرم رکھا۔ اب 20 لاکھ افراد لانے کی دھمکی ہے۔ اگرچہ پہلے بھی دھمکیوں کے غبارے کی ساری ہوا نکل گئی۔ ماسوا اس کے کہ کیلوں سے لیس ڈنڈے، پیٹرول بھری بوتلیں، غلیلوں میں بھرنے کو شیشے کے ٹھوس سرتوڑ بنٹے چلانے والے، گھیراو¿ جلاو¿ کرسی پر بٹھاو¿ والا جمہوری حق بخوبی استعمال کرگئے! خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ شہر میں پورے طنطنے سے یہ حملہ آور تھے۔ شہری دم سادھے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ ہلڑ باز جتھہ کھلا پھر رہا تھا جسے ملکی آزادی، سلامتی، استحکام، معیشت کی زبوں حالی سے کوئی غرض نہ تھی۔ نجانے اس شتر بے مہاری کی منطق کیا تھی؟ سرچشمہ کیا تھا؟ للہ ملک مزید کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
حکومت ِوقت کو بھی سودی قرضہ ملنے پر انقلابی کفایت شعارانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومتی اللے تللے (جو ہر دور میں جاری رہتے ہیں) شہ خرچیاں، تزئین وآرائش، دعوتوں، سیر سپاٹوں، سیاحتوں، بھاری بھرکم پارلیمانی اخراجات، مشاہرے۔غیرپیداواری اخراجات کی مد میں بہتا مال، سبھی پر بند باندھنا ہوگا۔ یہی قرضے لے کر کوریا ایک صنعتی قوت بن کھڑا ہوا، جو ہمارے ہاں بدعنوانی کی نالیوں میں بہہ گئے۔ غرض یہ کہ سودی قرضے اور آئی ایم ایف کا شکنجہ، عوام پر لادنے اور گردن دبانے کے کام نہ آئے۔ مرے کو مارے شاہ مدار! رحم کریں عوام کی حالت زار پر جو اپنی سادہ لوحی سے آپ سب کے جلسے بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی، قلیل یومیہ معاوضے پر کرائے کے ٹٹوبنے ’عوام کا سمندر‘ بنانے پکنک سمجھ کر آ جاتے ہیں۔ نعرے لگا دیتے ہیں، آگ لگاکر بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ حقائق کتنے تلخ ہیں، قومی معیشت، خودمختاری اور سلامتی کو وہ کیا جانیں۔ ترقیاتی منصوبے، ڈیم بنانے کی شدید ضرورت سے مکمل اعراض کی انہیں کیا خبر۔ آبپاشی چھوڑ اب تو آب نوشی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دریاو¿ں کے منہ پر خشکی کی پپڑیاں جمی ہوئی ہیں، دھول اڑ رہی ہے، یہاں کرسی کرسی کھیلنے سے فرصت نہیں۔
کے پی کے کے سرکاری وسائل سیاسی مہم جوئی میں اجاڑے گئے۔ سازش تو ملک کو عدم استحکام میں جھونکنے کی یہ ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے وزارت داخلہ کو نہایت سنگین صورت حال سے مطلع کیا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے علم واجازت کے بغیر خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے مسلح پولیس اور ایف سی کے دستوں نے بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر کیمپ لگائے ہیں۔ کیا یہ اسلام آباد فتح کرنے اور خانہ جنگی کی تیاری ہے؟
قومِ ثمود کے 9 فسادی مسلح جتھے تجارتی فساد کے مرتکب، ناکے لگاکر لوٹنے والے تھے۔ آج عوام کا ناطقہ ایسی ہی ہمہ نوع لوٹ مار نے بند کر رکھا ہے۔ کل ان کا یہ خیال تھا کہ دنیاوی ترقی تو جھوٹ، بے ایمانی، بداخلاقی کے بغیر ممکن نہیں۔ ایمانداری سے دنیا برباد ہوتی ہے! آج ہمارے ہاں یہی زندگی کا چلن ہے۔ بدعنوانی اور مال حرام کا دوردورہ ہے۔ ناجائز قبضے زمینوں کے، ناسور کی طرح بڑھ چکے ہیں جو گناہوں میں بدترین انجام سے دوچار کرنے والا گناہ ہے مگر لبرلزم، سیکولر ازم کا پرچار اور دنیا پرستی کا وائرس قوم کو بے حسی اور شقاوت قلبی میں مبتلا کرچکا ہے۔ گناہ، ثواب، آخرت کا حوالہ کہیں نہیں ہے۔ خصوصاً زمین پر ناجائز قبضہ کتنا ہولناک ہے، حدیث ملاحظہ فرمائیے: ’جس شخص نے کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی ناحق قبضہ کرلیا قیامت کے دن سات طبق زمین کا طوق اس کے گلے میں پہنایا جائے گا۔‘ (بخاری، مسلم) یاد رہے کہ ایک مکعب میٹر زمین کا وزن تقریباً 1500 کلو گرام ہوتا ہے۔ پناہ بخدا! گھر تو واپس جانا ہے۔ اپنا حساب خود چکانا ہے۔
ظلم یہ بھی ہے کہ اسلام صرف سادہ لوح عوام کو بہلانے کا ایک ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ اس کا تذکرہ ہر لیڈر کی ضرورت اور مجبوری ہے۔ عملی زندگی سے حقیقی اسلام کا کوئی گزر ان سیاست دانوں کے ہاں نہیں الاماشاءاللہ۔ عوام کی عقل سے سرِ عام کھیلنے کی حد تو قاسم سوری کا وہ کلپ ہے، جس میں وہ عمران خان کے کان میں تقریر کو ”اسلامی ٹچ “دینے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارے بات کرنے کو کہتے ہیں۔ فوراً بجتے باجوں، موسیقی کے بیچ چھوٹا سا وقفہ دے کر خان صاحب کھنکھار کر گرجے: ’میں…. میں نبی کریم کا پیروکار ہوں، خود کو عاشق رسول کہتا ہوں۔‘ نمازوں سے فارغ جلسے جلوس، اذانوں کے مقابل جلسے، یہ اعلان فرماکر باجوں کا سلسلہ پیروکار اور عاشق کے ہاں دوبارہ شروع ہوگیا! اسلام کو معاف ہی رکھیے۔
آئی ایم ایف کے سودی قرضوں کے پیچھے ہر حکومت بشمول خان صاحب دیوانہ وار لپکی۔ اسلام تو وہیں (سود کے ہاتھوں) دھرے کا دھرا رہ گیا۔ یہ ترقی کا شیطانی سبق ہمیں معاشی خوشحالی کے نام پر پڑھتے عمریں بیت گئیں۔ ’شجرة الخلد‘ دائمی زندگی عطا کرنے والا، سودی قرضوں سے لدا درخت! اور ’ایسی بادشاہی جو کبھی زائل نہ ہو‘ کا سبق جس سے ابلیس نے اولین جھانسہ دیا تھا۔ آج وہی ہمیں اس قرضوں کی دلدل میں اتار چکا ہے۔ مغرب کی معاشی غلامی ہی ہمیں شرمناک مطالبات قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسرائیل سے جو ’بیک ڈور سفارتکاری‘ این جی او کے نام پر پاکستانی وفد کے دورے کی چل رہی ہے وہ خطرے کی علامت ہے۔ سعودی عرب، امارات کی مہربانیاں بھی کچھ کم مطالبے اپنے پیکیج میں نہیں رکھتیں۔ حسب سابق فی الوقت تو حکومت اور دفتر خارجہ انکاری ہے اس دورے پر۔ اور فلسطین پالیسی میں تبدیلی نہ آنے کی یقین دہانی ہے۔ تاہم اسرائیلی صدر کی چھپائے نہ چھپتی خوشی اور خوشگوار حیرت کا اظہار کچھ اچھی علامت نہیں ہے۔ جب 22 کروڑ کی دال روٹی کے لالے پڑ جائیں تو حکمران بہت کچھ بیچنے پر رضامند کیے جاسکتے ہیں۔ کشمیر پر ہماری کمزوری کا جو عالم ہے، فلسطین پر ہم کیونکر جم کر پشت پناہی کر پائیںگے؟ خلیجی ممالک کی ایمانی غیرت وحمیت اسرائیل کا بلیک ہول نگلتا چلا گیا۔ سب ہمارے سامنے ہے۔
قوم کو اس پر چوکس رہنا ہوگا۔ اسے محض پی ٹی آئی کی طرح تقریروں میں سیاسی بلیک میلنگ کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ اسے عقیدے اور ایمان کی بنا پر مضبوط موقف سے درست رکھنا لازم ہے۔ عرب دنیا کی بے اعتنائی اور زبانی جمع خرچ کے مسلسل طرز عمل کے ساتھ یہ صرف پیکر عزم وہمت فلسطینی ہیں جو پوری امت کا فرض تنہا، بے یار ومددگار ہوکر بھی نبھا رہے ہیں۔ القدس جانا ان کے لیے مشکل ترین بنا دیا گیا۔ یوکرین پر روسی حملے نے فلسطینی صورت حال دھندلا رکھی ہے۔ مغربی دنیا یوکرین پر بے قرار ہے۔ اس پر ایک وڈیو کلپ میں انہیں یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ آپ سکھ کی نیند سونے کے لیے یہ فرض کرلیں کہ یہ سب کچھ یوکرین نہیں، فلسطین، افریقہ یا کہیں اور (برما، کشمیر، شام) ہو رہا ہے تو آپ بے غم ہو جائیںگے! اور آج کی دنیا مسلمانانِ عالم کے لیے اتنی ہی سفاک ہے، اور ہم خود بھی کچھ کم نہیں!
ادھر امریکا اپنا بویا کاٹ رہا ہے۔ دنیا بھر میں اپنا اسلحہ بیچنے جنگوں میں بڑے بڑے خطے جھونک دینے والے کے اپنے ہاں آئے دن فائرنگ کے واقعات نے جینا دوبھر کردیا ہے۔ قاتلانہ جنون کی آگ اب ان کے اپنے دامن کو جا لگی ہے۔ فلسطینی، شامی، لبنانی، افغانی بچے مارنے والوں کے ہاں اب ٹیکساس سکول فائرنگ میں 18 سالہ سپوت نے 21 مار ڈالے اور 14 زخمی کیے۔ اذیت ناک المیہ کہ یہ شکار دوسری تا چوتھی جماعت کے کم سن بچے تھے۔ امریکی پرچم سرنگوں رہا۔ اگرچہ امریکی سرکار کو سرنگوں ہونے کی ضرورت تھی!

تبصرے بند ہیں.