شہباز شریف صاحب قوم سے معافی مانگیں

22

پٹرول بم پر جتنی بھی توجیہات پیش کی جا رہی ہے عوام کی اکثریت اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کی حکومت اور اس کے میڈیا منیجرز عوام کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ان میڈیا منیجرز کو نئی ضروریات اور اس کے تقاضوں کا قطعی علم نہیں اور وہ شہباز شریف کے امیج بلڈنگ میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ پٹرول بم پر بعد میں گفتگو کرتے ہیں پہلے ان کے میڈیا منیجرز پر ایک نظر ڈالیں۔ پہلے نمبر پر مریم اورنگ زیب ہیں جو وزیر اطلاعات ہیں مگر ان کی مہارت محض اتنی ہے کہ وہ بغیر وقفہ لیے عمران خان کے خلاف بولنے کا فن جانتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر عطا اللہ تارڑ ہیں۔ مصدق ملک ہیں۔ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ ہیں وہ بھی پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت کے حوالے سے اپنے دلائل دے رہے ہیں۔ ذرا دیکھیں باقی لوگ کہاں ہیں وہ کیوں خاموش ہیں، شائد ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ مریم نواز خاموش ہیں وہ اب عوام کو بتائیں کہ جب پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو حکمران چور ہوتا ہے۔ مفتاح اسماعیل وہ فارمولا عوام کو بتائیں کہ پٹرول کی اصل لاگت اتنی ہے اور یہ 70-80 روپے لٹر سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن مہنگائی مارچ کریں اور حکومت کو مجبور کریں کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہے۔ اب مختلف تراکیب اور فارمولے کیوں پیش کر رہے ہیں اب یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ یہ سب عمران خان کی حکومت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ پہلے قوم سے معافی مانگیں کہ آپ لوگوں کو گمراہ کرتے رہے اور اگر عمران خان نے آئی ایم ایف سے کوئی معاہدہ کر رکھا ہے تو اسے سامنے لائیں۔ عوام کو بتائیں کہ عمران خان نے بین الاقوامی سطح پر جو وعدہ خلافی کی ہے اس کے بعد کوئی بھی آپ کو منہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سعودی عرب امداد لینے کے لیے گئے تھے انہوں نے بھی آپ کی بات کو نہیں سنا۔ یہ ضرور بتایا جا رہا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستانی بنک میں رکھے گئے اپنے ڈالر فی الحال واپس نہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔ آپ کے میڈیا منیجرز عوام تک یہ سب پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔
آپ کی کارکردگی کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہو گا ذرا عوام کو یہ بھی سمجھا دیں۔ اگر آپ کو معاشی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہے آپ کئی دہائیوں سے سیاست میں ہیں اور آپ کو علم نہیں کہ حکومت اور ملک کی معاشی صورتحال کیا ہے۔ آپ اپوزیشن لیڈر تھے تو آپ کو ان تمام امور کا ادراک ہونا چاہیے تھا مگر آپ بھی سوائے تقریر کے کچھ نہیں کر سکے۔ حکومت میں آنے کی جلدی اور واسکٹ پہننے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے وزیراعظم بن گئے مگر اس کے بعد کی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برا ہونا ہے انہیں بھول گئے۔ وزیراعظم بنتے ہی آپ کابینہ سمیت نوازشریف کے پاس حاضر ہو گئے کہ بھائی جان کسی طرح جان چھڑائیں۔ انہوں نے بھی کہا ہو گا کہ اڑنا نہیں آتا تھا تو پنگا کیوں لیا۔
یہ لطیفہ بھی سن لیں۔ ایک جہاز میں ایک سردار اور طوطا سفر کر رہے تھے۔ خوبرو فضائی میزبان جب بھی گذرتی طوطا اس کی ساتھ اٹھکیلیاں کرتا۔ وہ مسکراتی اور گذر جاتی۔ سردار صاحب نے اس مسکراہٹ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ فضائی میزبان نے فوری طور پر پائلٹ کو صورتحال سے آگاہ کیا اور عملے نے سردار صاحب کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ سردار کی ٹانگ اور بازو فریکچر ہو گئے اتنے میں وہاں طوطا آ گیا۔ سردار کہنے لگا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ نے اسے چھیڑا اس
نے کچھ نہیں کہا اور میں نے چھیڑا تو اس نے مجھے جہاز سے باہر پھینک دیا۔ یہ ظلم اور زیادتی ہے۔ طوطے نے سردار سے کہا کہ سردار جی اگر اڑنا نہ آتا ہو تو پنگا نہیں لیتے۔ یہ لطیفہ اس حکومت پر فٹ بیٹھتا ہے یا نہیں فیصلہ آپ کر لیں۔
ایک ہی جست میں پٹرول کی قیمت میں ساٹھ روپے اضافے کا جواب آپ نے دینا ہے۔ آپ کے وزیر خزانہ عوام کو بتا رہے ہیں کہ پٹرول پر حکومت سب سڈی دے رہی ہے پہلے پٹرول سے کماتی تھی۔ آپ کا کام تھا کہ سادے الفاظ میں عوام کو بتائیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت پٹرول کی قیمت یہ ہے اور آپ اتنے میں اسے فروخت کر رہے ہیں۔ دوسرا اگر پٹرول مارکیٹ کے نرخ پر ہی عوام نے خریدنا ہے تو پٹرولیم کمپنیوں کو پاکستان میں آزادانہ طریقے سے پٹرول کی فروخت کی اجازت دیں وہ بین الاقوامی منڈی سے پٹرول خرید کر لوگوں کو پٹرول سپلائی کریں۔ حکومت صرف اپنے استعمال کے لیے پٹرول خریدے لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ عوام ایک ہاتھ سے پٹرول خریدتے ہیں دوسرے ہاتھ سے پیسے دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ ان اداروں اور محکموں کا ہے جو فری میں پٹرول وصول کرتے ہیں اور اس سے کاروبار کرتے ہیں مگر پی ایس او کو پیسہ نہیں دیتے۔ پی آئی اے، ریلوے اور دیگر ادارے اب بھی پی ایس او کے نادہندہ ہیں۔ پولیس سے لے کر فوج کی فلاح و بہبود کے اداروں نے ہر شہر میں پٹرول پمپ بنا رکھے ہیں۔ یہ منافع بخش کاروبار ہے تو یہ سارے ادارے پٹرول پمپ چلا رہے ہیں۔بدقسمتی کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ عوام کو ایک لٹر کی قیمت میں آدھا لٹر پٹرول ملتا ہے، یہ سارا کاروبار اور دھندہ حکومت کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ حکومت نے پٹرول پر عوام سے ٹیکس نہیں لینا تو پھر ایرانی پٹرول کو ملک میں آزادانہ طریقے سے فروخت کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ پابندیوں کے باوجود بہت سے ممالک ایران سے تجارت کر رہے ہیں تو ہم ایران سے تجارت کیوں نہیں کر رہے۔ بلوچستان میں اس وقت بھی ایرانی پٹرول آدھی قیمت پر فروخت ہو رہا ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ایرانی پٹرول کے ٹینکرز پاکستان کے دوسرے علاقوں میں پورے نرخوں پر دوسرے پٹرول کے ساتھ ملا کر فروخت ہوتے ہیں۔
پٹرول کی کھپت کو کم کرنے کے لیے سندھ اور کے پی کے کی حکومتوں نے پٹرول کے کوٹے میں چالیس فیصد تک کمی کر دی ہے۔ بیوروکریٹس، ججوں، جرنیلوں، وزیروں، مشیروں سمیت بہت سے طبقات ہیں جنہیں فری پٹرول کا کوٹہ ملتا ہے اور اس کا بوجھ عوام اٹھاتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں یہ چونچلے بند ہونے چاہئیں اور چالیس فیصد نہیں ان کا کوٹہ بالکل ختم کریں تاکہ یہ بھی اپنی تنخواہ سے اپنے ذاتی استعمال کے لیے پٹرول خریدیں۔ اسی طرح انہیں بجلی کے یونٹس فری ملتے ہیں ان کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ تمام وہ محکمے جن سے لوگ ڈرتے ہیں وہ بغیر میٹر کے بجلی استعمال کرتے ہیں۔ لاہور کے پیشتر تھانوں کے میٹر خراب ہیں اور وہ ڈائریکٹ بجلی کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔
حکومت کے اللے تللے جاری ہیں اور اس کا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں۔ مصدق ملک ٹی وی پر آکر کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس زہر کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن شہبازشریف ترکی کے دورے پر گئے تو تمام اخبارات میں اس دورے کے حوالے سے اشتہارات موجود تھے۔ کیا شہبازشریف صاحب نے اس دورے میں کوئی بہت بڑا تیر چلا دیا ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے اس طرح کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ کیا آپ عوام کو یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ان اشتہارات سے ملک اور قوم کو کیا فایدہ ہو گا۔ کیا شہبازشریف کا یہ دورہ ان اشتہارات سے مشروط تھا کیا پھر یہ کہ ان اشتہارات کا بل شہبازشریف نے اپنی جیب سے ادا کرنا ہے۔ عوام فاقوں سے دوچار ہے اور اس کا حکمران اس قسم کی عیاشیوں میں مبتلا ہے۔ چند میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات دے کر آپ رائے عامہ ہموار نہیں کر سکتے۔ ان اشتہارات کی اشاعت پر عوام نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
یہ درست ہے کہ ملک سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ گالی اور الزام تراشی کے بجائے حقائق عوام کے سامنے رکھیں۔ مڈل کلاس کے لیے سب سڈی کا بندوبست کریں تاکہ وہ تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے نہ جائے۔ امپورٹ بل کو کم کرنے کے لیے ایک برس تک صرف ضروری اشیا کے علاو¿ہ تمام امپورٹ بند کی جائے۔ وہ تمام ملٹی نیشنل ادارے جو ملک میں کاروبار کر رہے ہیں انہیں پابند کیا جائے کہ وہ ڈالر میں سرمایہ باہر لے کر نہیں جائیں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو فری کیا جائے یا اتنا سستا کر دیا جائے کہ لوگ اپنی گاڑیاں نہ نکال سکیں۔ صرف ایک شخص کے لیے گاڑی کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔ سولر سسٹم لگانے کے لیے بنکوں سے کہا جائے کہ وہ سود سے پاک قرضے فراہم کریں۔ شہر کے اندر ستر سی سی سے زیادہ کوئی موٹر سائیکل نہ چلے۔ 50 سی سی موٹر سائیکل جس کی ایوریج بہت اچھی ہو اسے فروغ دیا جائے۔ ساری دنیا الیکٹرک بائیک یا موٹر سائیکل پر شفٹ ہو رہی ہے اس کو رائج کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔ صرف بجلی اور پٹرول مہنگا کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ ایک جامع منصوبہ بندی سے اس بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔ شہبازشریف صاحب اس پر منصوبہ بندی کریں، پاکستان بہت تبدیل ہو گیا ہے، جدید طریقوں کو فروغ دیں کہ روائتی طریقے سے آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔

تبصرے بند ہیں.