عوام پر تشدد اور ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ

9

ہماری سیاسی جماعتیں برسوں جمہوریت کے لئے جد و جہد کرتی ہیں۔ قید و بند، جلاوطنی اور ہر طرح کے آمرانہ دباؤ کا سامنا کرتی ہیں۔ مگر جمہوریت بحال ہوتے ہی انہیں نجانے کیا ہو جاتا ہے کہ وہ خود سے ہی جمہوریت کو آمریت کا آسان شکار بنانے کی کوششیں کرنے لگتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح حکومتی ایما پر لانگ مارچ کے شرکاء کو پہلے تو گھروں سے ہی نہیں نکلنے دیا اور پھر بعد میں شرکاء پر شدید تشدد کیا گیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے لانگ مارچ ہوتے ہی حکومت نے پی ٹی آئی کارکنان اور لیڈرز کو حراست میں لینے کے لئے ان کے گھروں چھاپے مارنے شروع کر دیئے۔ ان چھاپوں کے دوران جس طرح کا سلوک لوگوں کے ساتھ کیا گیا اور املاک کی توڑ پھوڑ کی گئی وہ کسی طرح بھی جمہوری اخلاقیات کا مظاہرہ تصور نہیں کیا جاتا۔ اگر موجودہ حکومت تشدد سے گریز کرتے ہوئے آزادی مارچ کو ڈی چوک آنے دیتے تو شائد عمران خان آج زیادہ مشکل صورتحال میں ہوتے۔ رکاوٹوں، تشدد، خواتین سے بد سلوکی اور گرفتاریوں نے لانگ مارچ کو کامیاب بنا دیا۔
احتجاج، لانگ مارچ، جلسے جلوس جمہوریت کا حصہ ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بہاولپور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے عدلیہ کو حکم نامہ جاری کیا ہے کہ وہ عمران خان کو اسلام آباد آنے کی اجازت نہ دے۔ کیا ہر شہری کو پر امن احتجاج کا حق ہے کہ نہیں؟ اظہارِ رائے کی آزادی جمہوریت کی اصل روح ہے، زبان بندی اور اظہارِ رائے کو طاقت کے بل بوتے پر قابو کرنا آمریت کے زمرے میں آتا ہے۔ انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آنے والی سیاسی جماعت امورِ حکومت سنبھال نہیں پاتی کہ حزبِ اختلاف ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتی ہے۔ سیاسی اتحاد بننا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو پی ڈی ایم نہ بھی عدم اتحاد کی تحریک پیش کرتی تو کیا فرق پڑنا تھا۔ حکومت کا تھوڑا سا فرق رہ گیا تھا اسے اپنی مدت پوری کرنے دیا جاتا اور نئے انتخابات میں عوام خود ہی فیصلہ کر لیتے کہ کون سا حکمران ان کے لئے بہتر ہے وہ خود سے اسے مسندِ اقتدار پر براجمان کر دیتے۔
وفاقی حکومت نے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کریک ڈاؤن کیا، انسانی حقوق پامال
کئے، پی ٹی آئی کارکنان ، قائدین کے گھروں میں رات گئے چھاپوں سے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ جب کہ پر امن شہریوں کو گرفتار کرنا آئین کے آرٹیکل 9 اور 10 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ احتجاجی پاکستان کے ہی شہری تھے یہ کون سے کسی دوسرے ملک کے شہری تھے جن کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ اب جو سیشن کورٹ نے رانا ثناء اللہ، سی سی پی او لاہور اور ڈی آئی جی آپریشن کے خلاف مقدمات کے اندارج کا حکم دیا ہے یہ بہترین فیصلہ ہے اپنے عوام کو اس طرح شدت سے پیٹا جانا کہاں کا انصاف ہے، صرف اس لئے کہ ان کے آپ سے نظریاتی اختلافات ہیں لیکن ہیں تو وہ پاکستانی عوام حکومت کے لئے تو سب برابر ہونے چاہئیں۔
کس قدر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاست دان کسی اصول کی بھی پاسداری نہیں کرتے ہیں، اپنے مفادات کے لئے حکومت نے راجہ ریاض جیسے تیسرے درجے کے سیاست دان کو اپوزیشن لیڈر بنا کر اپنے کام نکالنا شروع کر دیئے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے سیاست دانوں کی مت کیوں ماری جاتی ہے کہ راجہ ریاض جیسے شخص کو قائدِ حزبِ اختلاف نامزد کر دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈرز دہائیوں سے سیاست و حکومت میں ہیں لیکن وہ سوچتے نہیں ہیں کہ ان کو کیا کرنا چاہئے؟ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر بڑی بڑی انقلابی باتیں کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے دیکھا ان کے گزشتہ دورِ حکومت میں جب انہیں نکالا گیا تو انہوں نے باقاعدہ مزاحمتی بیانیے کے نام پر گولہ باری شروع کر دی اور گولہ باری بھی حساس اداروں پر کرتے رہے جہاں سے خود مستفید ہوتے رہے ہیں۔ میاں صاحب پہلی بار انقلابی نہیں بنے تھے بلکہ جب وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں یا کرپشن کے کیسوں میں سزا پاتے ہیں تو نئے نئے نعرے ایجاد کر لیتے ہیں۔ میاں صاحب نے اقتدار کے لئے کبھی زندگی میں اصول و اخلاقیات کی پاسداری نہیں کی، سیاسی جماعتوں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں، فوج سے سیٹلمنٹ کر لیتے رہے ہیں۔جیسا کہ اس دفعہ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر کیا اب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھول گئے اکثریت کی پارٹی کو نکال کر ایک ملغوبہ حکومت بنا کر انہیں کس ووٹ کو عزت دی ہے اور جو انہوں نے حقیقی آزادی مارچ کے شرکاء پر تشدد کرایا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف آمریت کی پیداوار ہی نہیں بلکہ ان کا اپنا انداز بھی آمرانہ ہے۔ ساری قوم سمجھ رہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین اپنے کرپشن کیسز کو کلئیر کرا رہے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے غالباً پچھلی صدی کے آخری برسوں کی بات ہے محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ نواز شریف نے کرپشن سے بہت مال کمایا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں بھی مال بنانا پڑے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سیاست میں کرپشن میاں نواز شریف کے راستے داخل ہوئی ہے۔ لیکن زرداری تو اس سارے معاملے میں محترمہ پر بڑی سبقت لے گئے اور انہوں نے میاں صاحب کے ساتھ مل کر حکومت کرنا شروع کر دی اس طرح نہ تو کرپشن کرنے میں مسئلہ ہو گا اور نہ ہی انہیں کوئی روکے گا۔  دوسرا مرکز میں انہیں کچھ وزارتیں مل گئیں جب کہ سندھ حکومت بھی قائم رہی۔  ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی ہے وہ کھلے دل سے قرضے معاف کرتے ہیں۔ اس فراخدلی سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہر دوسرا سرمایہ داراور سیاسی جماعتوں کی قیادت کے رفقائے کار ہوتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ ان قانونی ڈاکوں میں ہمارے مرکزی بینک سمیت تمام نجی و قومی بینک بھی شامل ہوتے ہیں۔ کرپشن کے اس پہلو کو اکثر صرفِ نظر کیا جاتا ہے کیونکہ ظاہراً اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بینکوں سے لئے جانے والے قرضے اگر ناگزیر وجوہات کی بنا پر واپس نہ کئے جائیں تو دنیا بھر میں اس پر معافی کے قانون موجود ہیں۔ آپ خود کو دیوالیہ ظاہر کر دیں تو کوئی قانونی چارہ جوئی کا نہیں سوچ سکتا۔ مگر پاکستان میں ہونے والی اس کارروائی کا سیاق و سباق تھوڑا سا مختلف ہے۔ یہاں قرضہ معاف کرانے والے سڑکوں پر بھیک نہیں مانگنے کے بجائے سیدھے اسمبلیوں میں جاتے ہیں اور ہم پر ہی حکومت کرنے لگ جاتے جب کہ ان کو معاشرتی اور قانونی مذمت و کارروائی کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔وہ مزے سے لوٹتے، مزے لوٹتے اور اسمبلیوں میں لوٹ آتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اب کی بار دیکھا جن پر فردِ جرم عائد ہونا تھی وہ وزیرِ اعظم اور سب سے بڑے صوبے کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے بڑی بد قسمتی کسی ملک کی کیا ہو سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.