تارکین وطن کا ووٹ

20

بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی ملکی حالات کو دیکھ کر پریشان رہتا ہے ، وہ چاہتا ہے کہ ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرے ، میں ان دنوں کینیڈا میں ہوں اور یہاں کے پاکستانی کینیڈینز سے روزانہ کسی نہ کسی صورت انٹرایکشن رہتا ہے ،ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ جب وہ سمندر پار سے اپنے گھر والوں کے لئے پیسے اور ملک کے لئے زرمبادلہ بھجوا سکتے ہیں تو ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرسکتے؟ ایٹو بیکو ٹورنٹو میں ایک اکاؤنٹینسی فرم کے چیف ایگزیکٹو عامر قریشی بھی ایک ایسے ہی پاکستانی کینیڈین ہیں جن کا کاروبار تو یہاں ہے مگر لاکھوں سمندر پار پاکستانیوں کی طرح ان کا دل بھی پاکستان میں ہی دھڑکتا ہے ،چند روز پہلے انہوں نے میرے اعزاز میں دوستوں کی ایک محفل کا انعقاد کیا جس میں مجھے پاکستانی کینیڈینز کے خیالات جاننے کا موقع ملا۔
ٹورنٹو کے مشہور صحافی اشرف لودھی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہمیں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہونا چاہئے،اوور سیز پاکستانیوں کے بہت سارے مسائل ہیں جیسے پاکستان میں خریدی گئی زمین، گھر،زرعی اراضی،بہت سے اوور سیز وطن کی محبت میں زندگی بھر کی پونجی لے کے وطن واپس گئے کہ یہاں کاروبار کریں گے مگر رائج الوقت سسٹم میں خود کو ایڈجسٹ نہ کر سکے اور واپس آ گئے ،پہلے کسی نے آج تک ان معاملات کے بارے میں ان سے پوچھا نہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارا رابطہ رہے اور ہم اپنے علاقے کے رکن پارلیمان سے رابطہ میں رہیں، اور حکومتی فیصلوں میں ان کا عمل دخل رہے اور ان کو تحفظ ملے۔ میں نے سوال کیا کہ جب وہ پاکستان میں رہتے نہیں ہیں تو ان کو ووٹنگ کا حق کیوں ملنا چاہئے؟ اس پر رانا اشرف نے بڑا نپا تلا جواب دیا کہ یہ بات درست ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں لیکن ان کے آباؤ اجداد کی زمینیں ہیں، رابطے ہیں، اور وہ لوگ مسلسل پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں،ان کے مطابق وہ بیرون ملک بیٹھ کر کوئی بہت بڑی تبدیلی تو نہیں لا سکتے لیکن اپنی رائے تو ضرور دے سکتے ہیں، وہاں جو امیدوار انتخاب میں کھڑا ہو اس پر کھل کر تنقید کر سکیں، وہاں کے لوگوں کو بتا سکیں کہ ان کہ مسائل کیا ہیں اور کیا یہ امیدوار وہ مسائل حل کر سکتا ہے کہ نہیں۔یہ تو ان کا موقف ہے ،اسی طرح جیسے سابق وزیر اعظم عمران خان کا خیال ہے کہ تمام بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق ہونا چاہیے کیونکہ ان کے اپنے ملک سے ابھی بھی بڑے مضبوط رابطے ہیں،وہ پردیس کی سختیاں جھیل کر اپنے ہم وطنوں کو زرمبادلہ کی شکل میں خوشیاں اور خوشحالی دیتے ہیں،اس کیلئے تحریک انصاف حکومت نے ایک بھرپور کوشش کی مگرآج کی حزب اقتدار اور ماضی کی اپوزیشن نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کی مخالفت کی۔سابق وزیر اعظم عمران خان کی کینیڈ امیں بڑی مقبولیت ہے اور تارکین وطن پاکستانیوں کی بڑی اکثریت موجودہ حکومت سے خفا ہے،تارکین وطن قومی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینے کے خواہشمند ہیں،یہ لوگ ملکی معیشت کو ایک عرصہ سے سہارا دئیے ہوئے ہیں اور ان کی اس گراں قدر خدمت کی قدر صرف عمران خان نے کی یہی وجہ ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں میں وہ ایک مقبول لیڈر ہیں۔
اوور سیز پاکستانیوں کے اندرون ملک بھی بہت سے مسائل ہیں،مگر ان کے مسائل حل کرنے کی طرف کسی حکومت نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں تارکین وطن کی پاکستان سے دلچسپی کسی حد تک کم ہو چکی تھی،مگر عمران خان نے ان کے اندر جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کیا ان کی ملک و قوم کیلئے خدمات کو سراہا اور ان کو ملکی سیاست میں اہم اور سرگرم کردار دیا۔اس محفل میں موجود عرفان بھنگو نے جذباتی انداز میں کہا کہ ان کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے پیچھے عمران خان کی تارکین وطن میں مقبولیت ہے۔تارکین وطن نے زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان سے باہر گزارا ہے مگر پاکستان ان کے دل میں بستا اور جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے،اس لئے ملک دگر گوں حالات پر ہم میں تشویش پائی جاتی ہے۔
قارئین ،تارکین وطن ، ملک کی سیاست، دینی، سماجی،معاشی مسائل وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں بلکہ پاکستان میں مقیم ہم وطنوں سے زیادہ وہ ملکی حالات کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں،لیکن ان کو ووٹ کا حق دینے سے ہم دانستہ تغافل برت رہے ہیں،اگر چہ ان کے اور بھی مسائل ہیں،پاکستان میں ان کی گھروں پلاٹوں اور زرعی اراضی کے علاوہ دیگر جائیداد پر قبضے بھی ایک فوری حل طلب مسئلہ تھا جس کا ازالہ اوورسیز محتسب کے ادارہ کے قیام سے کیا گیا جہاں ان کی داد رسی ممکن ہوئی مگر اب بھی ان کے بے شمار مسائل ہیں مگر اس کے باوجود ان کا دل پاکستان میں دھڑکتا ہے،ان لوگوں میں سے بہت نے پیسہ کمانے کے بعد وطن واپسی کا ارادہ کیا اور یہاں صنعت لگانے کی کوشش کی مگر یہاں کے پیچیدہ نظام اور کرپٹ عناصر نے ان کو اتنا تنگ کیا کہ یہ لوگ سب پروگرام تج کر واپسی کی راہ لینے میں ہی عافیت سمجھتے رہے،اگر ان کو تحفظ اور مراعات دی جائیں تو اب بھی یہ لوگ اندرون ملک سرمایہ کاری کو تیار ہیں۔
بیرون ملک پاکستانی ووٹ کا حق ملنے پر بہت خوش تھے اورعمران خان کی اس حوالے سے بہت تعریف بھی کرتے ہیں ، موجودہ حکومت اوور سیز پاکستانیوں کو بیرون ملک ہی ووٹ کا حق دینے کے بجائے ان کو پاکستان آکر ووٹ ڈالنے اور ان کیلئے نشستیں مخصوص کرنے پر آمادہ ہے مگر اے وی ایم اور اوور سیز کو ووٹ کا حق نہیں دے رہی،اے وی ایم پر کئے جانے والے اعتراضات بھی عذر لنگ ہیں مگر کئے جاتے ہیں ان کے خیال میں اس سے دھاندلی کی راہ ہموار ہو گی اگر چہ دھاندلی کے اور بھی بہت سے طریقے مروج ہیں جن پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا،موجودہ حکومت کوبیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر اعتراض نہیں بلکہ طریق کار پر اعتراض ہے۔
حکمران جماعت کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جس طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں سمندر پار پاکستانیوں کے لیے الگ سے نشستیں ہیں اس طرح پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی سمندر پار پاکستانیوں کے لیے الگ سے نشستیں مقرر کی جائیں، چاہے وہ نشستیں دس سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں،ان کے مطابق اوورسیز پاکستانی کو ووٹ دینے کی قانون سازی صرف لولی پاپ سے زیادہ نہیں ہے،حکمران جماعت کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں تین سے چار لاکھ ووٹرز ہوتے ہیں اور وہ پورے پانچ سال کے دوران کسی بھی کامیاب امیدوار کا اپنے ہر ایک ووٹر سے ملنا بہت مشکل ہے تو پھر کیسے ان کے حلقے کے ووٹرز جو بیرون ممالک میں رہتے ہیں ان سے مل سکتے ہیں۔ تحریک انصاف واحد جماعت ہے جواوور سیز پاکستانیز کو براہ راست الیکشن سسٹم کا حصہ بنانا چاہتی ہے،اعتراضات اپنی جگہ مگر یہ اوور سیز کا حق ہے اور یہ حق ان کو ملنا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.