اپوزیشن کے حالیہ مارچ میں پنجاب کے عوام کی تحریک انصاف کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑنے کے سوال پر قیاس آرائیوں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے زخم خوردہ پرستاروں نے توتاریخ کے گمشدہ اوراق میں سے ایسے حوالے نکال لیے ہیں جن میں یہ پنجاب کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کی تگ و دو جاری ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ پنجاب نے ہمیشہ فاتح کا ساتھ دیا ہے یہاں کمزور کی مدد کرنے کی روایت موجود نہیں ہے یہاں تک کہا گیا کہ 1526ء میں جب مغل بادشاہ بابر پختونخوا کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا تو کلر کہار سے لے کر پانی پت تک اس کے آگے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی گویا پنجاب نے مغل بادشاہ کا راستہ ہموار کیا اور اس کی مدد کی اور جنگ کیے بغیر اس کی سلطنت کو تسلیم کیا لیکن معاملہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا باہر سے موازنہ نہایت غیر منطقی ہے پنجاب والوں نے ہندو راجاؤں کے جبر تلے رہنے اور ان کا دفاع کرنے کی بجائے اگر بابر کا ساتھ دیا ہے تو اس کی ایک وجہ مذہبی عقیدہ تھا اس کے برعکس تحریک انصاف اپنی تمام تر کوششوں اور پراپیگنڈا کے باوجود یہ باور کرانے میں ناکام رہی ہے کہ جیسے یہ کوئی کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بابر نے پنجاب کو ٹیکسوں کی ظالمانہ شرح سے تحفظ دیا اور اپنا اعتماد بحال کیا جبکہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی کی بڑی وجہ مہنگائی اور دیگر سماجی مسائل تھے جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بابر نے پنجاب فتح کر کے یہ نہیں کیا کہ کسی عثمان بزدار جیسے شخص کے حوالے کر دیا جائے۔ اصل میں عثمان بزدار وہ ناقابل معافی جرم ہے جو پنجاب میں پی ٹی آئی کے زوال کا سبب بنا اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پنجاب کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کے لوگ پی ٹی آئی کے
زیادہ وفادار ثابت ہوئے ہیں۔ یہ غلط ہے یہ منصب سوچ ہے جس کا مقصد صوبائیت پھیلانا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ 2023ء کے الیکشن میں KPK کی سیاسی شطرنج میں پی ٹی آئی اپنا غلبہ برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ وہاں نہ تو کوئی ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور نہ ہی طرز حکمرانی میں کوئی نمایاں بہتری آئی ہے۔
اس نظریاتی بحث سے قطر نظر تحریک انصاف کے لیے اس ہفتے کی سب سے رسوا کن خبر وہ آڈیو لیک ہے جس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور آصف زرداری کے درمیان گفتگو افشاء کی گئی ہے جس میں ملک ریاض نے آصف زرداری کو بتایا ہے کہ عمران خان صلح کے لیے بار بار پیغام بھیج رہے ہیں۔ اس آڈیو لیک کا سورس سامنے نہیں لایا گیا دوسری بات یہ ہے کہ اس لیک پر جتنا شدید ردعمل تحریک انصاف کی طرف سے متوقع تھا وہ سامنے نہیں آرہا ایک رسمی سی تردید ہوئی ہے۔ عمران خان کی حالیہ باڈی لینگوئج بتا رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ یہ ان کی قیادت کا امتحان ہے جب تحریک انصاف عوام کے مفاد کی بات کرتی ہے تو ملک ریاض والا یہی Patch up خفیہ ملاقاتوں کی بجائے سر عام ہوتا ہے اور عمران خان مذاکرات کی پیش کش کرتے اور مفاہمت کی بات کرتے تو شاید اس سے ان کی Goodwill اور سیاسی قدو قامت میں اضافہ ہو جاتا یہ پہلا وزیراعظم تھا جس نے 4 سال تک اپوزیشدن کا سماجی بائیکاٹ جاری رکھا جس سے ان کی پارٹی کو بھی نقصان ہوا مگر جو ملک کے اداروں کا نقصان ہوا وہ ناقابل تلافی تھا۔ تحریک انصاف مفاہمت چاہتی ہے مگر اب ان کی پوزیشن کمزور ہو چکی ہے اس لیے مخالفین ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔
عمران خان کی پنجاب سے غیر حاضری کا فیصلہ ان کی گرفتاری سے بچنے کی کوشش ہے مگر اس میں بھی اس کے سیاسی نقصانات زیادہ ہیں اگر وہ ایسا جاری رکھیں گے تو یہ ان کے لیے مزید نقصان دہ ہو گا۔ یہ ایک طرح سے فرار کا ر استہ سمجھا جائے گا۔ ان کے دور میں نیب نے جس طرح سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ شروع کیا تھا وہ ڈھکی چھپی بات نہیں سب سے بڑی غلطی تحریک انصاف نے یہ کی ہے کہ پارلیمنٹ سے استعفے دینا تھا ان کو چاہنے تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر اپنا جمہوری کردار ادا کرتے مگر انہوں نے احتجاج کا غلط راستہ اپنایا جو ناکام ہو گیا۔ اس لیے سیاسی تجزیوں میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پارٹی نہ تو اچھی حکمران ثابت ہو سکی اور نہ ہی اچھی اپوزیشن۔ آجا کے ان کے پاس ایک ہی سرخاب کا پر بچا ہے اور وہ ہے 126روز کا دھرنا لیکن اب ان میں وہ سکت اور تب و تاب بھی باقی نہیں رہی۔ اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پارٹی میں Defections مزید بڑھ جائیں گی۔
عمران خان کے پرستار اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ روایتی سیاستدان نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اس کی خوبی نہیں بلکہ خامی سمجھی جانی چاہیے کیونکہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور اس میں مخالف کو راستہ دیا جاتا ہے مگر آپ تو مخالف کے ساتھ ہاتھ ملانا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں سیاست میں اس قدر انا پرستی نہیں ہوتی۔
البتہ جتنا پراپیگنڈا تحریک انصاف کرتی ہے باقی پارٹیاں اس سے بہت پیچھے ہیں اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم روس سے سستا پٹرول لینے کے معاہدے کرنے جا رہے تھے حالانکہ یہ کسی سفارتی لیول پر ثابت نہیں ہو رہا ہے،ایسی کوئی بات تھی۔ روس کے متنازعہ دورے پر اگر رجوع کر لیا جاتا تو شاید بات یہاں تک نہ پہنچتی۔ اس اثناء میں غیر ملکی خط والا سکینڈل بھی اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ترکش میں مزید کیا بچا ہے۔ یا کسی سطح پر ایسے کیا امکانات ہیں کہ پی ٹی آئی کی ری سائیکلنگ کہاں تک ممکن ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ایک Disposable سیاسی جماعت بن کر رہ جائے گی۔
تبصرے بند ہیں.