نئے پاکستان کے ایمانداروں سے جان چھوٹی توہم سمجھے کہ اب غریب کچھ سکھ کاسانس لے سکیں گے لیکن یہ تو ایمانداروں کے ہاتھوں ڈستے ڈستے غریب اب پھرسے ڈسنااورلوٹناشروع ہوگئے ہیں۔لگتاہے اس ملک کے غریبوں کی قسمت میں معافی شافی اورسکھ نامی کوئی شئے ہے نہیں۔اسی لئے توان بدقسمت غریبوں کے ناتواں کندھوں پربوجھ ہی بوجھ لادااورڈالاجارہاہے۔ماناکہ نئے پاکستان کے ایمانداروں نے ساڑھے تین چارسال میں اس ملک اورقوم کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اس کی تلافی اتنی جلدی ممکن نہیںلیکن ان ایمانداروں کے سارے گناہوں کی سزاصرف اورصرف غریب عوام کودینایہ بھی کوئی عقلمندی اوردانشمندی نہیں۔ساڑھے تین چارسال تک کپتان کی قیادت میں ایماندارجن کی ہڈیاں چوستے اورگوشت نوچتے رہے اب اگرشہبازکی سربراہی میں یہ بھی انہی بے زبانوں کونوچتے اورکاٹتے رہیں توپھران میں اوران ایمانداروں میں کیافرق باقی رہے گا۔؟پٹرول وڈالرکی قیمتوں کوآسمان تک پہنچانے اورعوام کولوٹنے میں کپتان کے کھلاڑیوں سے توکوئی زیادہ ماہرنہیں۔یہی کام اگرکرنے تھے توپھران کواقتدارسے بیدخل کرنے کی کیاضرورت تھی۔؟عوام نے کپتان اوراس کے کھلاڑیوں سے نجات کی دعائیں اس لئے نہیں مانگی تھیں کہ کفن چورباپ کے بعدکفن چوربیٹے سے ان کاواسطہ پڑے گا۔وزیراعظم شہبازشریف کی قابلیت اپنی جگہ،ان کااندازحکمرانی بھی سرآنکھوں پرلیکن معذرت کے ساتھ مولاناکی اقتدامیں اقتدارتک پہنچنے والے ان مکس حکمرانوں کے غریبوںکے بارے میںعزائم بھی کپتان کی طرح کچھ اچھے نہیں۔کپتان بھی توعوام عوام کرکے اپنے گناہوں کابوجھ بھی عوام پرلادتاجاتاتھااب یہی کام انہوں نے بھی شروع کردیئے ہیں۔کل تک یہ بھی عوام عوام سے ہٹ کرکوئی بات نہیں کرتے تھے لیکن اقتدارمیں آنے کے بعدان کی نظریں بھی اب غریبوں کے کندھوں پرہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پرکہنے والے تویہاں تک کہتے ہیں کہ مولاناکی امامت میںبننے والی اس حکومت نے غریبوں کولوٹنے کے لئے باقاعدہ طورپر بسم اللہ پڑھ لی ہے۔مسیحاکے روپ میں آنے والے یہ حکمران
بھی کپتان کی طرح عوام کااب وہ حال کریں گے کہ لوگ عمرانی ٹولے کوبھی بھول جائیں گے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30روپے اضافہ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔اس سے ملک کے اندرمہنگائی کاجوطوفان آئے گاوہ غریبوں کوپتوں کی طرح بہالے جائے گا،جولوگ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں سسک سسک کرمررہے ہیں خوداندازہ لگائیں اب وہ کیسے جی پائیں گے۔۔؟کہتے ہیں یہ عمرانی حکومت کے تحفے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ کپتان کے ہی تحفے ہیں لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عمران والا اقتدار آپ سنبھالیں اورانسان کوجیتے جی مارنے والے یہ تحفے غریب عوام کو دیں۔ کیا اس ملک کے بدقسمت عوام اب صرف انہی تحفوں کے لئے رہ گئے ہیں۔ سترسال سے تویہ عوام ایسے ہی تحفوں کابوجھ اٹھارہے ہیں۔ ملک کے ساتھ کھلواڑ شوکت عزیزکھیلے یاعمران خان۔ قیمت پھربھی غریبوں کوہی چکانا پڑتی ہے۔غریب عوام آخرکب تک ان نااہل،کرپٹ، چور اور بے ایمان حکمرانوں کے گناہوں کابوجھ اٹھاتے رہیں گے۔؟ہم ایک نہیں سوباریہ بات مانتے ہیں کہ عمران خان اوران کی ٹیم نے پچھلے ساڑھے تین چارسال میں اس ملک اورمعیشت کاجوکباڑہ کیاہے۔ایسے میں اس مشکل اوردلدل سے اس ملک کواب نکالناکسی ایک شخص کے بس اوروس کی بات نہیں۔وزیراعظم شہبازشریف اکیلے ہزارنہیں لاکھ جتن بھی کرلیں تب بھی وہ تنہا کچھ نہیں کرسکتے لیکن آپ یہ حقیقت بھی تودیکھیں کہ صرف عوام کے کندھوں پراس بوجھ کوڈالنے سے بھی توکچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ جس طرح اکیلے شہبازشریف ملک کواس بھنورسے نہیں نکال سکتے اسی طرح عوام کے لئے بھی تنہا ملک کواس آزمائش وامتحان سے نکالناممکن نہیں۔تالی ایک نہیں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔یہ نہیں ہوسکتاکہ حکومتی وزیر،مشیراورممبران اسمبلی بھاری تنخواہیں ،ہرقسم کے مراعات اورفنڈزلیتے رہیں اورعوام ایک ہاتھ سے تالی بجائیں ۔تالی بجانے یاملک بچانے کے لئے نہ صرف وزیراعظم شہباز شریف، آصف علی زرداری ،مولانافضل الرحمن بلکہ حکومت کے تمام وزیروں، مشیروں، ممبران اسمبلی اور ملک بھر کے تمام بیوروکریٹس، تاجروں، سرمایہ داروں، صنعتکاروں، ججز، صحافیوں، وکلا اور ڈاکٹروں کو بھی اپنے ہاتھ آگے کرنا ہوں گے۔ مشکل کی اس گھڑی میں جب ہرشخص اور فرد اپنے اپنے حصے کا کردار ادا نہیں کرے گا تب تک صرف غریب عوام کی ہڈیاں چوسنے اورگوشت نوچنے سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ اس ملک کی معیشت تب مضبوط ہوگی جب اشرافیہ کوبے حساب وکتاب دینے کے بجائے ان سے لینے کاسلسلہ شروع کیاجائے گا۔اس ملک میں ان بڑے بڑے اژدھوں پرروزانہ قومی خزانے سے نہ جانے کتنے ارب خرچ ہوتے ہوں گے۔؟پابندی سے بل اداکرنے کے باوجوداس ملک میں غریبوں کے لئے بجلی نہیں لیکن یہی اژدھے روزانہ مفت میں ہزاروں نہیں لاکھوں کی بجلی استعمال کرلیتے ہیں۔غریبوں کوایک کلوآٹادینے کے لئے خزانے میں پیسے نہیں ہوتے لیکن انہی اژدھوں کو فون، گیس، میڈیکل، ٹی اے اور ڈی اے کی مدمیں روزانہ لاکھوں واربوں دے دیئے جاتے ہیں۔کہنے کے لئے آج بھی اس ملک میں غریبوں کے لئے کچھ نہیں، بچت، کفایت شعاری اور معیشت کی بحالی کی کوئی بھی بات ہو تو حکمرانوں کی سوئی فوراً غریبوں کے پاﺅ آٹے، چینی، دال اور گھی پر آ ٹکتی ہے۔ آج بھی صورتحال یہی ہے ۔غریبوں کی خشک روٹی توہرکسی کودوربہت دورسے نظرآجاتی ہے لیکن اس ملک کودیمک کی طرح کاٹنے اورچاٹنے والے ان بڑے بڑے مگرمچھوں کے بھاری بھر پیٹ اورہزاروں کنال پرپھیلے محل کسی کونظرنہیں آتے۔آج بھی غریب کی اسی خشک روٹی اورپاﺅآٹے پرسب کی نظرہے لیکن قومی خزانے کوباپ داداکی جاگیرسمجھ کرعیاشیوں پراڑانے والے وزیروں، مشیروں، ممبران اسمبلی اوربیوروکریٹ کسی کونظرنہیں آرہے۔غریب کے پاﺅآٹے یاخشک روٹی کی جب بات آتی ہے توکہاجاتاہے کہ خزانہ خالی اورحالات خراب ہیں لیکن کیایہ حالات صرف غریبوں کے لئے خراب اورخزانہ عوام کے لئے ہی خالی ہوتاہے۔سچ میں اگرملک کی معیشت تباہ اورمعاشی حالات خراب ہیں توپھرحکمران غریبوں کے منہ سے خشک روٹی اورہاتھ سے پاﺅآٹاچھیننے کے بجائے خزانے کوچاٹنے والے ان بلوں اوربلیوں کوباندھتے کیوں نہیں۔؟ ملک کی معیشت غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے سے کبھی بحال نہیں ہوگی۔اس کے لئے وفاق سمیت چاروں صوبوں کے حکومتی وزیروں، مشیروں، ممبران اسمبلی اوربیوروکریٹس کی بھاری تنخواہوں اورمراعات کی قربانی دینا پڑے گی۔ حکومت اگرمعیشت کی بحالی اورملک کی ترقی کے لئے واقعی سنجیدہ ہے تو پھر اسے غریبوں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے اس جہاد کا آغاز کرنا چاہئے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.