لانگ مارچ: کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

16

یہ دنیا کی تاریخ کا بڑا دلچسپ لانگ مارچ تھا جس لانگ مارچ کی قیادت کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو پشاور سے صوابی کنٹینر تک پہنچانے کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کیا گیا۔ گویا صوبائی حکومت وفاق کے خلاف مارچ کو نہ صرف سپانسر کر رہی تھی بلکہ سرکاری مشینری کا اعلیٰ سطح تک استعمال کیا جا رہا تھا۔
جب سے عمران خان اقتدار سے محروم ہوئے ہیں اس دن سے لے کر لانگ مارچ تک انہوں نے روزانہ کی بنیاد پر پورے ملک میں جلسے کیے اور عوام کو اپیل کی، اسلام آباد لانگ مارچ میں تشریف لائیں۔ عوام مقامی اور ضلعی جلسوں میں تو جوق در جوق تشریف لاتے رہے مگر جب اسلام آباد جلسے کی باری آئی تو عوام کا وہ ہجوم کہیں نظر نہ آ سکا بقول پروین شاکر ’’جب زندگی کے میلے میں رقص کی گھڑی آئی تو سنڈریلا کی جوتیاں غائب تھیں‘‘۔ حالانکہ عمران خان کا خیال تھا کہ جب 20لاکھ افراد اسلام آباد میں گھس جائیں گے تو خود بخود حکومت اقتدار ان کے حوالے کر دے گی اور انہیں منت کی جائے گی کہ وہ پھر وزیراعظم بن جائیں مگر یہاں تو الٹی ہو گئی سب تدبیریں۔
سوال یہ ہے کہ جب عوام مقامی جلسوں میں اتنے زور شور سے آتے رہے تو لانگ مارچ میں کیوں نہیں آئے اس کے لیے پاکستانی سیاست کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے سیاسی کارٹل (Cartel) جن کو Electables کہا جاتا ہے یہ تمام پارٹیوں میں موجود ہیں یہ سیاسی پارٹیوں سے زیادہ طاقتور ہیں یہ سیاست میں پیسہ لگاتے ہیں جلسوں کے مقام کو عوام سے بھرنے کا ٹھیکہ ان کو دیا جاتا ہے اور یہ پارٹی ٹکٹ کے لیے اپنی مالی اہلیت ثابت کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جلسوں میں لاتے ہیں۔ جلسے میں لائے گئے عوام کو ٹرانسپورٹ، کھانا، موبائل پری پید کارڈ اور اس طرح کی ساری سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ الیکٹیبل کے اس نیٹ ورک میں نچلے لیول پر یومیہ اجرت بھی دی جاتی ہے۔ حالیہ جلسوں میں کچھ جگہ پر 1400 روپے یومیہ کے حساب سے معاوضہ دیا گیا لیکن یہ سب مقامی جلسوں کا تھا۔ لانگ مارچ کیلئے تحریک انصاف نے Electables کو ٹاسک نہیں دیا پارٹی نے سمجھ لیا کہ جتنے لوگ جلسوں میں موجود ہیں ان کے بارے میں فرض کر لیا گیا کہ یہ سب اسلام آباد بھی پہنچیں گے مگر انہیں سہولت کاری اور مالی معاونت نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ نہیں گئے دوسری وجہ عوام کی معاشی مجبوریاں بھی تھیں۔
لانگ مارچ کامیاب نہ ہونے کی ایک اور وجہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی حکمت عملی بھی تھی جسے عدالتوں نے غیر آئینی قرار دیا۔ پورے ملک میں سڑکوں اور موٹر ویز کی ناکہ بندی کی گئی۔ سڑکوں پر کنٹینر کھڑے کیے گئے اور حکومت اور اپوزیشن
دونوں نے عوامی مشکلات میں اضافہ کیا۔ یہ ہر حکومت کرتی رہی ہے مگر یہ غلط ہے اسی لیے عدالت نے حکومت کے خلاف فیصلہ دیا۔ بہرحال عوام نے دو بڑوں کی اس لڑائی میں خود کو علیحدہ رکھنے کو ترجیح دی۔ اطلاعات آ رہی ہیں کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان دھرنے کو جلسہ میں بدلنے کے موضوع پر خفیہ مذاکرات ہوئے جس میں ایک طرف سے ایاز صادق جبکہ اپوزیشن کی طرف سے اسد قیصر، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک شریک ہوئے۔ یہ بھی سنا ہے کہ یہ ملاقات جس خفیہ مقام پر ہوئی وہاں آنے جانے کے لیے انہیں ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیا گیا تھا۔ اب بھی اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں فیصلے عوامی امنگوں کے مطابق ہوتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف نے خفیہ مذاکرات کر کے اپنی ’’میسنی‘‘ پالیسی کی وجہ سے اپنے لیے عوامی خفت کا سامان مہیا کر دیا ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ امریکی خفیہ خط کی طرح اس معاہدے کے خفیہ مندرجات جو اب خفیہ نہیں رہے اس پر کم از کم اب ہی اعتراف کر لیں کہ عوامی مفاد کی خاطر دھرنے سے گریز کیا گیا ہے۔
حالیہ لانگ مارچ کے بعد 2023 کی انتخابی جنگ کا منظر آہستہ آہستہ نظر آنے لگا ہے سندھ میں پیپلزپارٹی کا اقتدار جاری رہے گا اسی طرح پنجاب میں میاں نواز شریف کی سیاست کا جادو ایک دفعہ پھر اپنا رنگ دکھائے گا جبکہ تحریک انصاف کو KPK میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ بلوچستان کا اقتدار حسب معمول بلوچ سرداروں کے قبضے میں رہے گا جہاں تک وفاق کا اقتدار ہمیشہ اس کے پاس ہوتا ہے جس کو پنجاب میں فیصلہ کن اکثریت حاصل ہوتی ہے۔
اس لانگ مارچ میں سب سے زیادہ شراکت KPK والوں کی تھی اس کی ایک وجہ تو وہاں پی ٹی آئی کا 9 سالہ اقتدار ہے دوسرے وہاں کی پولیس اور سرکاری مشینری اپوزیشن کے جنبش ابرو کی محتاج تھی گویا صوبہ وفاق کے خلاف صف آرا تھا۔ جہاں تک پنجاب  کی بات ہے تو اپوزیشن سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ آئندہ الیکشن میں ان کا کیا بنے گا۔ لاہور میں زندگی معمول کے مطابق تھی عوام لانگ مارچ سے لاتعلق نظر آئے۔ ساؤتھ پنجاب پی ٹی آئی کیلئے لمحۂ فکریہ ہے وہاں سے شاہ محمود قریشی جیسے قد آور لیڈر کے باوجود وہاں سے قابل ذکر مجمع اکٹھا نہیں ہو سکا۔ یہ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ منحرفین کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے یہاں سے جیتنے والے ہمیشہ اقتدار میں آنے والی پارٹی سے ہم آغوش ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان حالات میں شاہ محمود قریشی کیلئے اگلے الیکشن کا الرٹ جاری ہو چکا ہے۔
سب سے دلچسپ معاملہ فیصل آباد کا ہے جو لاہور کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا شہر ہے وہاں پی ٹی آئی قیادت سر پکڑ کے بیٹھی ہے کہ ان کے حمایتی کہاں گئے۔ صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے فیصل آباد نواز شریف کا قلعہ ہوا کرتا تھا مگر 2018ء میں 10 میں سے 7 سیٹیں تحریک انصاف نے جیت کر ن لیگ کو کارنر کر دیا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 7 میں سے 4 ممبران بشمول راجہ ریاض، عاصم نذیر، نواب شیر وسیر اور خرم شہزاد پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ ایم این اے رضا نصر اللہ گھمن نے بھی غیر علانیہ پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے مگر اعلان اس لیے نہیں کیا کیونکہ ن لیگ ان کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں۔ فیصل آباد پی ٹی آئی کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے جس کی ایک وجہ رانا ثناء اللہ بھی ہے وہ اس وقت پوری آب و تاب سے فیصل آباد کا کھویا ہوا Status ن لیگ کے حق میں لانے کے لیے سر گرم ہیں۔
بات لانگ مارچ کی ہو رہی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی خاص Defensive پوزیشن میں آ گئی ہے۔ اب تو کھلے عام سرگوشیوں میں عمران خان کی تقریر میں اسلامی ٹیچ دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ کیونکہ امریکی ٹیچ کا اثر اب ماند پڑنے لگا ہے۔ عمران خان گرفتار ی کے خوف سے KPK میں پناہ لیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پنجاب ان سے مزید دور ہو جائے گا۔ اس سے پارٹی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.