گالی کا جواب کیا ہے؟

101

میں نے پوچھا، کیا آپ کسی کو راہ چلتے ہوئے بغیر کسی وجہ کے گالی دے سکتے ہیں جس کو آپ پہلے سے نہ جانتے ہوں، نہ اس کے ساتھ کبھی سفر کیا ہو اور نہ کوئی کاروباری معاملہ، کیاآپ اسے کرپٹ کہہ سکتے ہیں، چور کہہ سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کے اسے ماں یا بہن کی سنگین ترین گالی دے سکتے ہیں، ہرگز نہیں دے سکتے کیونکہ اس کا ردعمل آپ جانتے ہیں، وہ آپ کے منہ پر ایسا گھونسا مارے گا کہ آپ کے دانت توڑ دے گا مگر آپ یہی کام دن رات اس لئے کرتے ہیں کہ آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے آپ تک پہنچنا آسان کام نہیں ہے، بہت ساروں نے تو فیک آئی ڈیز بنائی ہوئی ہیں، بہت سارے ایسے ہیں جو دور دراز کے شہروں میں ہیں ۔ بہت سارے لوگ اس لئے بھی گالی دے کر بچ جاتے ہیں کہ جس کو گالی دی جا رہی ہے وہ چلتی ہوئی گاڑی کے ڈرائیور کی طرح ہے، اس پر کتے بھونکتے ہیں تو وہ سوچتا ہے کہ کیا اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنی گاڑی کھڑی کرے، منزل کھوٹی کرے اوراپنے مقام سے نیچے اتر کے کتوں کے جواب میں کتوں کی طرح بھونکنا شروع کر دے؟
سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی اخلاقیات کے حوالے سے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، یہ نہیں کہ ہم سے پہلے والے لوگ بہت بااخلاق اور ا چھے ہوا کرتے تھے ، اصل معاملہ یہ ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں ہوا کرتا تھا اور جیسا میں نے پہلے کہا، ذاتی طور پر ، آمنے سامنے گالی گلوچ کی ایک قیمت ہے جو آپ کو ادا کرنی پڑتی ہے مگر سوشل میڈیا پر آپ کو بہت سارے تحفظ حاصل ہیں۔ گالی گلوچ کے کلچر کے فروغ میں ہماری بدقسمتی کئی پہلو لئے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو تربیت کا معاملہ ہے۔ ہمارے گھروں اور سکولوں میں تعلیم صرف ڈگری کے حصول کا نام ہے جبکہ حقیقت میں تعلیم پوری کی پوری کردار سازی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو میٹرک اور ایف ایس سی میں اے گریڈ دلوا لیتے ہیں مگر ان کا کردار اور اخلاق کیا ہے اس کے لئے ہمارے پاس کوئی گریڈنگ موجود نہیں ہے۔ میں ذاتی طور پر میڈیکل کی تعلیم کو سب سے زیادہ مشکل سمجھتا ہوں مگر میں نے ڈاکٹروں میں سے بہت ساروں کو اخلاق اور کردار سے عاری دیکھا ہے اور یہی معاملہ ہم صحافیوں سمیت باقی تمام شعبوں کے ساتھ ہے۔
ہماری دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم گالی اور الزام کے خلاف قانون سازی کرنے جاتے ہیں تو اسے اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہماری ہر اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت کرتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب نواز شریف دور میں سوشل میڈیا کے حوالے سے بنیادی قوانین تشکیل پا رہے تھے تو اس وقت پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی اور عوامی تحریک سمیت سب اس کے مخالف تھے اور جب پی ٹی آئی حکومت نے اس پر کام کیا( اور کچھ زیادہ ہی کر لیا کہ صحافت کی آزادی کے بھی درپے ہوگئے) تو سب اس کے بھی مخالف ہو گئے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ تو بنیادی اصول ہوں گے جب پر ہم متفق ہو سکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا۔افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس سول سوسائٹی کے نام پر کوئی شے موجود نہیں اور جو سماجی تنظیمیں موجود بھی ہیں وہ کسی نہ کسی کی پراکسی ہیں، ان کے کچھ نہ کچھ مفادات ہیں۔ جہاں ہم سیاست میں بہت کمزور رہے ہیں وہاں ہم سماجی طور پر بھی تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ہم کنزیومر مارکیٹ ہیں مگر ہمارے پاس کنزیومرز کی آرگنائزیشنز موجود نہیں ہیں۔ ہمیں لوگ سوشل میڈیا پر گالیاں دیتے ہیں اور مارکیٹ میں جاتے ہیں تو مافیا ہمیں لوٹ لیتے ہیں مگر کسی بھی جگہ پر ہماری کوئی سٹینڈنگ نہیں ہے، جواب نہیں ہے۔
تیسری بدقسمتی یہ ہے کہ جو اچھے ، برے قوانین موجود ہیں ان پر عمل کرنے کے لئے ادارے موجود نہیں یا وہ تیار نہیں۔ میں نے ایک سے زائد مرتبہ روایتی انداز میں، ای میل وغیرہ کے ذریعے، ایف آئی اے کو بعض چیزیں رپورٹ کیں مگر مجال ہے کہ کسی سرکاری افسر یا اہلکار نے کبھی رابطہ کرنا تو دور کی بات کوئی فارمل جواب بھی دیا ہو۔یہ ادارے صرف ان معاملات کے پیچھے جاتے ہیں جو ہائی پروفائل ہوں یا جن سے انہوں نے مال بنانا ہو۔ ان سے پوچھا جائے تو جواب ہے کہ شکایات تو روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ہوسکتی ہیں مگر اس کے بعدان پرجواب دینے کے لئے سٹاف سینکڑوں کی تعداد میں نہیں ہے یا شائد درجنوں میں بھی نہیںہے، بہرحال، یہ ان کا ایکسکیوز ہے اور ہمارے ہرا دارے کے پاس کام نہ کرنے کے ایک ہزار ایک سو گیارہ ایکسکیوزز موجود ہیں۔ہماری چوتھی بدقسمتی یہ ہے کہ ایسا کوئی معاملہ اگر ہائی پروفائل بھی ہو اور اس پر مال خرچ کرنے والا بندہ بھی ہو تو اس کا فیصلہ بھی عدالتوں میں جا کے نہیں ہوتا، برس ہا برس کے لئے معاملات لٹکا دئیے جاتے ہیں اور شکایت کرنے والا سوچتا ہے کہ اتنا وقت اور پیسہ ضائع کرنے سے بہتر تھا کہ وہ یہی پیسے کسی پیشہ ور بدمعاش کو دے کر اپنا غصہ نکال لیتا، گالی دینے والے کے ہاتھ پیر تڑوا دیتا۔ میں جب اپنی عدالتوں کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یہاں قانون صرف غریب کے لئے بنایا گیا ڈھکوسلا ہے، فریب ہے، ٹرک کی بتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مجھے گالی دی گئی ہے تو میں کیا کروں۔ میں یہاں واضح کر دوں کہ گالی صرف پی ٹی آئی والے نہیں دیتے ، ہاں ، شائد سب سے زیادہ دیتے ہوں مگر نواز لیگ والے بھی کم نہیں ہیں۔میں ایک سیاسی تجزیہ کار ہوں اور جب سیاسی رائے دوں گا تو ظاہر ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی دھڑے کے حق میں ہو گی اور کسی کے مخالف۔ مجھے یہ ’ اعزاز‘ حاصل ہے کہ میں نے پی ٹی آئی کے سینکڑوں اکاؤنٹس بھی بلاک کر رکھے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نواز لیگ والے بھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب نواز لیگ کا تنخواہ دار صابر ہاشمی اس وقت کے وزیراعظم کے خلاف گالی پر مبنی ٹرینڈ چلانے پر پکڑا گیا تو میں نے سوچا کہ اس اکاؤنٹ دیکھوں تو علم ہوا کہ وہ بھی میرے پاس اسی طرح بلاک ہے جیسے نواز لیگ کے بہت سارے دوسرے۔ گالی تو شمس الدین امجد کی قیادت میں جماعت اسلامی کا میڈیا سیل بھی دیتا ہے اور مجھے انہوں نے عملی طو ر پربتایا کہ ان کے پاس بھی اس کام کے اوورسیز جماعتیے موجود ہیں جو اپنے کام میں پی ٹی آئی اور نواز لیگ والوں جیسی ہی مہارت رکھتے ہیں، ہاں ، کبھی تحریک لبیک سے اختلا ف کی جرأت نہ کیجئے گا۔ کیا ایک صحافی جس کا پروفیشن بھی سیاسی معاملات پر بات کرنا ہے ان سب کو خوش رکھ سکتا ہے، ہرگز نہیں، تو پھر کیا کیا جائے۔ ایک ہی حل ہے کہ جو رپلائیز اور کمنٹس کو دیکھا ہی نہ جائے اور دوسری کوشش یہ ہو سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کو بلاک کر دیا جائے مگر سوال یہ ہے کہ آپ کس کس کو بلاک کریں گے مگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہے کیونکہ ہم ایک بنانا ری پبلک میں رہتے ہیں۔ ہم اپنے بنیادی تصورات ہی الٹا چکے ہیں۔ یہاں سلام کرنے والے کو بزدل اورحقیر سمجھا جاتا ہے مگرگالی دینا، الزام لگانا اور بدمعاشی کرنا بڑائی اور طاقت کی علامت ہیں۔ یہاں ٹریفک سگنل پر کھڑے ہونے والے کوکمزور اور بے وقوف سمجھا جاتا ہے اور توڑ کر نکل جانے والے کو ہیرو، بہادر اور شہزادہ۔

تبصرے بند ہیں.