سپریم کورٹ نے ای سی ایل سے نکالے گئے وزراءکی تفصیلات طلب کر لیں

21

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالے گئے وزرا کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے تحقیقاتی اداروں میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کی جس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ای سی ایل رول 2010 کا سیکشن دو پڑھیں جس  کے مطابق کرپشن، دہشت گردی، ٹیکس نادہندہ اور لون ڈیفالٹر باہر نہیں جا سکتے، کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟ 
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟، نیب کے مطابق ان سے پوچھے بغیر ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس پیش کر دوں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا 120 دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 120 دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہو گا۔ 
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے، وہ اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟ کابینہ ممبران کا نام ای سی ایل میں ہونا اور ای سی ایل رولز میں کابینہ کی ترمیم کیا مفادات کا ٹکراؤ نہیں؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ معلوم ہے وفاقی وزراءپر ابھی صرف الزامات ہیں، کیا کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟ ملزم وزراءکو تو خود ہی ایسے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ہ کیا سرکولیشن سمری کے ذریعے ایسی منظوری لی جا سکتی ہے؟ کابینہ کا کام ہے کہ ہر کیس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے بعد نظرثانی کا طریقہ کار ہی ختم ہو گیا۔عدالت نے ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ 
چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں، فی الحال حکومت کے ای سی ایل رولز سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، قانون پر عمل کے کچھ ضوابط ضروری ہیں، انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے۔

تبصرے بند ہیں.