ڈبل گیم کا وقت گزر چکا

646

آگے جو بھی ہو یہ ثابت ہوگیا کہ اداروں کی سہولت کاری حاصل نہ ہوتی پی ٹی آئی لانگ مارچ نہیں کرسکتی تھی ، سو موٹو کی توپ کے دہانے پر کھڑی وفاقی اور لولی لنگڑی پنجاب حکومت کے انتظامات فول پروف رہے ، پنجاب میں تمام قافلے روک لیے گئے ، لوگوں کی تعداد بھی مایوس کن حد تک کم تھی۔ پھر کسی جگہ یہ سوچا گیا کہ عمران خان آج ناکام ہوگئے تو پی ٹی آئی کا غبارہ پھٹ جائے گا اور مخالف سیاسی جماعتوں کے اعتماد اور حوصلے میں بے پناہ اضافہ ہوگا اس لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا ۔ تاکہ ریاستی “سیاسی اثاثہ “محفوظ رہے ، یہ بھی ثابت ہوگیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ آتا تو عمران خان اٹک پل پار نہیں کرسکتے تھے ، کے پی کے کی پوری حکومتی مشینری کے استعمال کے باوجود ایسی پوزیشن ہرگز نہ تھی کہ وفاقی دارالحکومت کو “فتح “کیا جاسکتا تھا، وہاں سے بھی بہت کم لوگ آئے، حکومت کو اپنا کام کرنے دیا جاتا تو دو سے تین دن میں گرفتاریوں اور مقدمات اور دوسرے انتظامی اقدامات سے سارا مکو ہی ٹھپ دیتی ۔
مگر ڈبل گیم ہوگئی ، ملک میں جو بھونڈا تماشا چل رہا ہے اہل نظر سے اوجھل نہیں ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی اپنے خیالات کے بہت کھلے انداز میں اظہار کرنے سے کبھی نہیں چوکتے ۔ اہم عہدوں پر رہنے کے باعث وہ ہر طرح کے معاملات کی تہہ تک پہنچ کر تبصرے کرتے رہتے ہیں ۔بعض اوقات ان کا سچ اتنا کڑوا ہوتا ہے کہ خود ان کا ادارہ بھی خائف ہو جاتا ہے ۔ اختلاف رائے اچھی بات ہے مگر تجزیہ کو سننا ضرور چاہیے ۔ جنرل اسد درانی نے اپنی تازہ تحریر میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے بارے میں اپنی براہ راست معلومات بھی دی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ اس قسم کے تجربات کرنے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔ جنرل اسد درانی لکھتے ہیں کہ ایک چیز جو ان سب ”سائنسدانوں“ کو بہت کام کی لگی وہ یہ کہ خود کو بچانے کے لئے ایک سویلین چہرہ سامنے رکھا جائے اور اختیارات اپنے پاس۔ اسے سیاسی انجینئرنگ کہا جاتا ہے اور یہ ہر بار ناکامی کا منہ دیکھتی ہے۔ تاہم، اپنی سرشت سے مجبور ہمارے حضرات سکاٹ لینڈ کے اس جنگجو بادشاہ بروس کی پیروی کرنے کو تو تیار ہوں گے جو مکڑی کے بار بار کوشش کرنے سے متاثر ہوا تھا لیکن دنیا کے عظیم ترین سائنسدان آئن سٹائن کے کہے پر عمل نہیں کریں گے جس کے مطابق ہر بار ایک ہی کام کرنا لیکن اس سے مختلف نتائج کی توقع رکھنا بیوقوفی کی بہترین مثال ہے۔2018 میں کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر میرا متعلقہ ایک بڑے دفتر میں آنا جانا شروع ہوا تو مجھے لگا کہ ماضی کے کچھ مہم جو افسران کی طرح موجودہ کرتا دھرتا بھی ایک نیا چہرہ ڈھونڈ رہے ہیں جو ان کی حکمرانی کے لئے کور فراہم کرے تو میں نے سیاسی انجینئر ان چیف کے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے ان سے درخواست کی کہ یہ نہ کریں کیونکہ اس کا پہلے بھی کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے جواب نے مجھے ششدر کر دیا: "سر ہم ملک کی صفائی کرنے جا رہے ہیں”۔ میں جلد ان سے مل کر انہیں مبارکباد پیش کروں گا – کیونکہ ملک واقعی صاف ہو گیا ہے، گو یہ ان کی منشا کے مطابق نہیں ہوا۔
اسد درانی نے عمران خان کی شخصیت کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی مشاہدات اور ٹھوس شواہد کی ایک لمبی فہرست ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ شخص طاقت کی ہوس میں مبتلا تھا – اور اس سے بھی اہم یہ کہ یہ تخت تک پہنچنے کے لئے ایک فوجی پیراشوٹ کا متلاشی تھا۔ بہت سے فوجی رہنما اس کے جال میں آنے سے انکار کر چکے تھے لیکن چار سال قبل بالآخر یہ مکار شخص کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد جو بھی ہوا وہ ماضی قریب کا حصہ ہے لیکن ایک حیران کن امر نے اس کے مخالفین کو بھی حیران کر دیا – وہ یہ کہ عمران خان کی فالو¿نگ خاصی وسیع ہو چکی ہے؛ یہ تعلیم یافتہ لوگ ہیں لیکن سمجھ بوجھ سے عاری۔ ان میں سے اکثر اس کے اقتدار کے دوران اس کے خلاف بولتے تھے لیکن اقتدار سے نکالے جانے کے بعد پرانے برے دنوں کی یادوں میں غلطاں ہیں۔
وزارتِ عظمیٰ کے لئے عمران خان کو دو وجوہات کی بنا پر امیدوار سمجھا گیا تھا: اس نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا، لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے پاس ایک بہترین ٹیم تھی جس کا وہ جیت کے بعد شکریہ تک ادا کرنا بھول گیا تھا۔ اور ہاں، اس نے واقعی لاہور میں کینسر ہسپتال کے لئے پیسے اکٹھے کیے تھے، جس کے لئے عظیم گلوکار نصرت فتح علی خان نے اس کی دل کھول کر مدد کی جو کہ دنیا کا ایک مانا ہوا گلوکار تھا لیکن اس نے عمران خان کے لئے بغیر معاوضے کے دنیا میں جگہ جگہ فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کی وفات کے بعد لیکن عمران خان نے دعویٰ کیا کہ اس عظیم گلوکار کو اس نے ہی دنیا سے متعارف کرایا تھا۔
لیڈر عموماً کامیابی کی صورت میں کسی بھی چیز کا کریڈٹ لینے لگتے ہیں اور ناکامی میں اس سے دوری بنا لیتے ہیں لیکن عمران خان اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے لیڈرشپ کا یہ سنہرا اصول سامنے لائے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی کہی بات پر یو ٹرن لیتا ہے اور اس بے اصولی کے اصول پر وہ سختی سے کاربند رہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ عوامی فلاح کے ہر کام میں وہ ناکام ہوئے۔ کرپشن سے جنگ ان کا نصب العین تھا۔ کرپشن میں بھی پاکستان ان کے دورِ حکومت میں دنیا کے مزید ملکوں سے پیچھے چلا گیا۔ کسی نے ان سے NRO نہیں مانگا، لیکن وہ مسلسل کہتے رہے کہ وہ NRO نہیں دیں گے۔ کوئی ایک چور بھی پکڑا نہیں، لیکن کہتے رہے کسی کو چھوڑوں گا نہیں۔
یہی وجہ تھی کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ کو اڈے دینے پر راضی ہوں گے تو انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ بالکل نہیں – کسی نے ان سے اڈے مانگے جو نہیں تھے۔ مفروضوں پر مبنی سوالات کے جواب دینا کبھی سودمند نہیں ہوتا لیکن کم از کم اصل سوالوں کے جواب دینے سے یہ زیادہ آسان تھا۔ پھر اپنے آپ کو خوش رکھنے کے لئے وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ امریکی مفادات کے لئے اتنا بڑا خطرہ تھے کہ دنیا کی واحد سپر پاور انہیں اقتدار سے نکالنے پر تل گئی۔ امریکہ کے لئے ملکوں میں حکومتیں تبدیل کرنا معمول کی بات ہے لیکن وہ سفارتی ذرائع سے اپنی سازشوں کے بارے میں انہیں آگاہ نہیں کرتے۔ لیکن عمران خان نے اپنے سٹینڈرڈ کے حساب سے بھی ایک حیران کن کام اس وقت کیا جب انہوں نے آرمی کو نیوٹرل ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور فتویٰ جاری کیا کہ نیوٹرل صرف جانور ہوتے ہیں۔ غلط، انسان سے نیچے کی تمام مخلوقات دراصل اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انسانوں سے کہیں زیادہ یکسو ہوتی ہیں۔ ان کی فوج سے اصل مخاصمت یہ تھی کہ انہیں طاقت کے ایوانوں میں پہنچانے کے بعد جب انہوں نے سیٹی ماری تو وہ دوڑتی ہوئی ان کی مدد کو کیوں نہیں آئی۔ اور پھر انہوں نے اپنا مکر اس وقت بالکل واضح کر دیا جب ان کی پارٹی کو آئین کو سرِ عام پامال کرنے سے روکنے کے لئے عدالت رات کے وقت کھولی گئی۔
عدم اعتماد کی ایک تحریک پر کارروائی کے دوران اس کو تحلیل کرنا ایک بدنما ترین حرکت ہوتی۔ یہی وجہ تھی کہ PTI عدالتوں کو منظر سے غائب رکھنا چاہتی تھی۔
لیکن اس سب سے ان کے فالو¿رز پر کوئی فرق نہیں پڑتا جنہیں ان کی صورت میں ایک مسیحا مل گیا ہے اور وہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ تاریکی کی گہری ترین گھاٹی میں ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی اتر کر رہیں گے۔ دیکھیے کیسے کورس میں نئے انتخابات کا گیت گا رہے ہیں – ابھی چند ماہ قبل اسی آپشن کو وہ مضحکہ خیز قرار دیتے تھے۔
پاکستان میں شاید ہی کوئی انتخابات کے نتائج کی پیش گوئی کر سکتا ہو۔
یحییٰ خان نے بہترین تخمینے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 1970 کے انتخابات کا اعلان کیا۔ اسے یقین دلایا گیا تھا کہ ایک معلق پارلیمان وجود میں آئے گی جو اسے اقتدار میں رہنے کا جواز فراہم کرے گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ملک ہی نہ بچا جس پر حکمرانی کرنی تھی۔ 1988 کے انتخابات میں ایجنسیوں کے تمام تخمینے بے کار گئے سوائے آخری گنتی کے۔ موجودہ صورتحال میں مجھے نہیں پتہ کہ نتائج جلسوں کے حجم کے مطابق آئیں گے یا ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے والوں کے بجائے گھر سے نکل کر ووٹ دینے والوں کی تعداد کے مطابق۔ لیکن جلد انتخابات کے مطالبے سے ایک مقصد ضرور حاصل ہوگا کہ نئی حکومت کے ہاتھ سے ملک کو مشکلات سے نکالنے کا وقت نکل جائے گا۔
اس دوران ایک اور مزید گمبھیر مسئلہ بھی حل طلب ہے۔
ملٹری کی بنائی ہوئی حکومتیں عموماً فوج اور سویلینز کے درمیان کا ایک ہائبرڈ نظام کہلاتی ہیں۔ اس کا ایک مظہر، گو افسانوی ہی سہی، Frankenstein’s Monster تھا۔ یہ اپنے بنانے والے کو ہی کھا گیا۔ اسی طرح عمران خان بھی اب اپنے بنانے والے کو کھانے پر تلا ہے۔ لیکن اس بار مسئلہ کچھ زیادہ گمبھیر ہے۔ جو پاگل پن نظر آ رہا ہے، عمران خان بوتل سے نکلا ہوا جن بن گیا ہے۔ کیا کوئی جانتا ہے اسے واپس کیسے بند کیا جائے؟
جنرل اسد درانی کے اس تجزئیے کو زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو داد دینا ہوگی ۔ اداروں کو ہی دیکھیں کہ جب پولیس فورس کے مناسب طریقے سے استعمال اور حکومت کے جامع منصوبے کے تحت 25 مئی کا جہاد ڈے فارغ ہونے کے قریب تھا کس طرح سے حکومت کے ہاتھ پاو¿ں باندھ کر نہ صرف گرفتار افراد کو چھڑایا گیا بلکہ حکومت کو ہی حکم مل گیا کہ وہ عمران خان کے جلسے کا اہتمام کرے ۔ سپریم کورٹ کا حکم جاری ہوتے ہی پی ٹی آئی والے بے لگام ہوکر ہر طرف ٹوٹ پڑے ۔اب عمران خان اپنے لشکر سمیت ڈی چوک اسلام آباد میں قبضہ کرکے دکھا چکے ہیں ۔ عدالتی ریلیف ملتے ہی دوسروں شہروں میں بھی پی ٹی آئی کے لوگوں نے اودھم مچا دیا ، پولیس اور املاک پر حملے کیے ، گاڑیوں کو آگ لگا دی ۔ توہین عدالت کے نام پر جو ہلکی پھلکی کارروائی ہوئی وہ بے معنی اور اس سے پی ٹی آئی کے پرتشدد رویہ کو مزید شہہ ملے گی ۔ حکومت کو ایسے وقت میں ایکشن لینے سے روکا گیا کہ جب اس کے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے پشاور سے آنے والے قافلے میں شامل لوگوں کے پاس بھاری اور جدید اسلحہ ہے ۔عمران خان کا یہ دھرنا حکومت گرانے نئے انتخابات کا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوگیا تو پھر یہ اصول طے ہو جائے گا کہ فیصلے جتھہ بندیوں کی بنیاد پر ہونگے ۔ اس سے پہلے ایک دو ادارے مل کر سارا کام نمٹا دیتے تھے ۔ یہ نیا فیکٹر خود اسٹیبلشمنٹ نے ہی متعارف کرایا ہے ۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ اس طرح سے حکومتیں گرا کر سکون کے ساتھ اگلا کٹھ پتلی حکمران سامنے لے آئے گا تو یہ اندازہ درست نہیں ۔ جلد الیکشن ہو یا کوئی نگران سسٹم آجائے دونوں صورتوں میں اسلام آباد کو جتھوں کی آمد کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ دینی غیرت کے نعرے لگاتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کا رخ کریں گے تو کون روکے گا۔ لوگوں کے خراب مالی حالات اور اشرافیہ کے ہاتھوں مسلسل استحصال کو وہ بھی خوب اچھی طرح سے استعمال کریں گے جن کو دھکا مار کر کسی نئی سیاسی شطرنج کی بساط بچھائی جارہی ہے ۔ اب تک تو صرف نام لے کر تنقید ہورہی ہے ۔ مزید کسی تجربے کی صورت میں کام اس سے بھی آگے چلا جائے ۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اب ڈبل گیم کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی ۔ جوڈیشل ایکٹوازم دیکھ کر نظر آرہا ہے کہ حکومت عمران خان ، ان کے گھر والوں ، گوگی وغیرہ کے خلاف کرپشن اور دیگر معاملات کے جن درجنوں مقدمات کے لیے فائلیں بنائی بیٹھی ہے وہ روی کی ٹوکری کی نذر کردی جائیں گی ۔ جیسے 2018 میں ٹیریان کیس کردیا گیا تھا ۔ تو پھر فیصلہ کون کرے گا یہ جاننے کے لیے تھوڑا انتظار کریں۔

تبصرے بند ہیں.