سیاسی بحران: ریاست کے خلاف سازش

12

’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں کے اندر ہیں وہ اندھے ہو جاتے ہیں‘‘ یہ قرآن حکیم کی ایک آیت کا ترجمہ ہے جس کی حقانیت پر ایک ذرہ برابر شک کرنا ہمارے پورے کا پورا عقیدہ زمین بوس ہو جاتا ہے۔ دنیا میں اس وقت جتنا شر اور فساد ہے وہ سارا اسی بنیاد پر ہے کہ انسان جانتے بوجھتے ہوئے حقائق سے انکار کرتا ہے۔ اور اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ دنیا پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک میں صحیح ہوں باقی سارے غلط ہیں لیکن اندر سے اسے بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ خود غلط ہے اور اپنی حرص و ہوس اور ذاتی لالچ کے پھندے میں وہ گرفتار ہو کر دنیا کو آگ لگا دینا چاہتا ہے تا کہ اس کے مقاصد پورے ہو سکیں۔
ہمارے ملک پاکستان پر اس وقت بہت بڑی آزمائش آن پڑی ہے۔ اس وقت پورا ملک کووڈ 19 سے بھی زیادہ بڑے لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ سارے شہروں کے راستے بند کیے جا رہے ہیں تا کہ ریاست کا نظام روکنے والوں کا راستہ روکا جا سکے لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے والے اور اس پر فخر کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومت کو نہیں چلنے دیں گے اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے اور یہ سب کچھ وہ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر بھی 1400 سال پرانا قرآنی حوالہ موجود ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد اور خون ریزی نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں بے شک یہی فسادی ہیں لیکن یہ سمجھتے نہیں‘‘۔
لاہور میں کانسٹیبل کمال احمد کے جنازے کے مناظر اور اس کے معصوم بچوں کی آہ و بکار دیکھ کر ظالم اور سفاک انسان بھی اندر سے پگھل جاتا ہے جس کو فرائض کی ادائیگی کے دوران اپوزیشن جماعت کے کارکن کی حیثیت سے سیدھا فائر کر کے شہید کیا گیا۔ شہید کانسٹیبل حفاظتی گرفتاری کے لیے قاتل کے گھر کے باہر ریاستی امور کی بجا آوری کرنے گیا تھا قاتل گرفتار ہو چکے ہیں لیکن پارٹی چیئرمین کی طرف سے اس خون ناحق کی مذمت تک نہیں کی گئی ۔ الٹا اس کو خونی مارچ کا نام دیا جا رہا ہے۔
یہ لانگ مارچ اپنے آغاز سے پہلے ہی خونی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس میں پہلا قتل ناحق کانسٹیبل کمال احمد کا ہے ۔ ڈیرہ غازی خان میں کارکنوں کو ڈنڈوں سے مسلح کر کے پولیس کے مقابلے کے لیے لایا جا رہا ہے۔ صورت حال انتہائی مخدوش ہے اور اگر اس کا راستہ نہ روکا گیا تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلے گی۔
یہ اتنا وسیع لانگ مارچ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ایک آئینی اور پارلیمانی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت ختم کی گئی ہے مگر اپوزیشن کا چیلنج ہے کہ وہ حکومت کو نہیں چلنے دیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹ کو تسلیم کرتی ہے نہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مانتی ہے نہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کسی فیصلے کو خاطر میں لاتی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ فوج اور حکومت کے خلاف سرعام بیانات اور دھمکیاں دیتی ہے لیکن کوئی اسے پوچھنے والا نہیں فوج کے خلاف توہین آمیز بیانات آج تک کسی سیاسی پارٹی نے اتنے کھلے عام نہیں دیئے۔ اب تو آئی ایس پی آر نے بھی ان پر ردعمل دینا چھوڑ دیا ہے ابھی کل کی بات ہے کہ کہا جا رہا تھا کہ میں نیو ٹرلز سے کہتا ہوں کہ وہ نیوٹرل نہ رہیں ان پر بھی ججمنٹ پاس ہو گی۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے۔
اس وقت تحریک انصاف کا مطالبہ یہ ہے کہ انتخابات کرائے جائیں لیکن یاد رکھیں اگر حکومت ان کا یہ مطالبہ مان بھی لے گی تو بات ختم نہیں ہو گی۔ تحریک انصاف ان انتخابات کے نتائج صرف اس صورت تسلیم کرے گی اگر وہ حکومت میں آجائیں گے۔ اگر وہ شکست کھا گئے تو وہ نتائج ماننے سے انکار کر دیں گے۔ یہ پارٹی احتجاج کو بغاوت کی شکل دینا چاہتی ہے جو کہ نہایت خطرناک ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے حواس کھو بیٹھی ہے وہ نہیں جانتے کہ وہ دانستہ یا نادانستہ پاکستان کو کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ڈالر 200 روپے سے زیادہ کا ہو چکا ہے ملک پر قرضوں کا بوجھ کمر توڑ حد تک پہنچ چکا ہے۔ شرح سود آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ادائیگیوں کا خسارہ عروج پر ہے۔ سٹاک ایکسچینج انڈیکس خطرناک حد تک گر چکا ہے۔ زرمبارلہ کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ بجلی کا بحران سر پر منڈلا رہا ہے۔ مہنگائی نے عوام سے نوالہ چھین لیا ہے اس سارے بحران میں اپوزیشن کی گزشتہ چار سالہ کارکردگی کا خاص دخل ہے۔ کوئی بھی نئی حکومت تین ماہ سے پہلے اپنی کارکردگی ثابت نہیں کر سکتی۔ حالیہ بحران سارے کا سارا گزشتہ حکومت کا ہے۔ موجودہ حکومت جب سے آئی ہے اپوزیشن اس کو چلنے نہیں دے رہی۔ پنجاب میں حکومت کا بحران جاری ہے۔ پاکستان نے اس وقت تاریخ کے سب سے خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔
ایسے حالت میں قیاس آرائیاں اور افواہیں اہمیت اختیار کر جاتی ہیں ایسی ہی ایک قیاس آرائی یہ ہے کہ کسی سطح پر اس نظریے پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے کہ ٹیکنو کریٹ پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم ہونی چاہیے جو ایک سال کے عرصے میں ملکی معیشت کی مرہم پٹی کرے اور جب تک معاشی صورت حال بہتر نہ ہو الیکشن نہ کرائے جائیں۔ یہ عبوری سیٹ اپ نگران حکومت کی شکل میں بنے گا اور اس کو آئینی جواز عطا کرنے کا کوئی نہ کوئی مناسب انتظام کر لیا جائے گا۔ ویسے موجودہ حالات میں پاکستان کو معاشی دلدل سے نکالنا کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے انداز ہ لگانا  مشکل نہیں کہ اقتدار سے محرومی سیاستدانوں کے لیے کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے ۔ اگر حکومت کرنا مشکل کام ہوتا تو کوئی پارٹی اقتدار میں آنے کے لیے اتنی مر جانے کی حد تک بے چین نہ ہوتی۔ آپ کو شاید پتہ نہ ہو کہ گزشتہ حکومت کے دور میں سب سے بڑا گھپلا آئی ایم ایف کی طرف سے کورونا فنڈ کی مد میں ہوا تھا۔ یہ 1.80 بلین ڈالر کا فنڈ تھا جس سے بجلی کے بلوں میں رعایت اور انصاف کارڈ وغیرہ میں انکم سپورٹ پروگرام شروع کیے گئے۔ آئی ایم ایف اور تحریک انصاف حکومت کے درمیان ایک سال تک بند دروازوں کے پیچھے یہ مذاکرات ہوتے تھے کہ آپ کورونا فنڈ میں بے ضابطگی کا حساب دیں یہ ایک بہت بڑا سکینڈل تھا جو آج بھی سر بستہ راز ہے۔ باقی سکینڈل سب اپنی جگہ ہیں جو آج بھی جواب طلب ہیں۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے لیے یہ دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں اور یہ خاص پرکشش وجہ ہے۔ ایک ایک حلقے میں جا کر دیکھیں کیسی کیسی کہانیاں ہیں جن میں حکومتی ممبران نے کیسے کیسے تیل کے کنوئیں ایجاد کیے ہیں۔
اپوزیشن کے 40 کے قریب جلسوں میں کوئی معاشی ایجنڈا تھا اور نہ ہی گزشتہ کارکردگی رپورٹ تھی صرف یہ مطالبہ تھا کہ انتخاب کرائے جائیں۔ یا پھر مخالفین پر الزام تراشی کی گئی۔ ان حالات میں آپ خود سوچیں کہ اگر یہ جماعت دوبارہ اقتدار میں آگئی تو ملک کا کیا بنے گا۔ آخری بات یہ کہ اپوزیشن کا احتجاج کا آئینی حق subject to the law ہے اگر وہ قانون شکنی کریں یہ عوام کو ان کے شخصی حق سے روکیں گے راستے بند کریں گے تو ایسا کرنا جرم ہے۔ کانسٹیبل کا قتل کے مقدمے کی سازش میں ان لوگوں کے نام شامل ہونے چاہئیں جو کارکنوں کو قتل پر اکسا رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.