سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کیلئے متبادل جگہ دینے کا حکم

123

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف کمشنر اسلام آباد کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) لانگ مارچ کیلئے مناسب جگہ فراہم کرنے اور لانگ مارچ کی جگہ تک رسائی کیلئے ٹریفک پلان ترتیب دینے کا حکم دیدیا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔ 
سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ’حقیقی آزادی مارچ‘ روکنے کے خلاف پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی سی اسلام آباد، آئی جی سیکرٹری داخلہ اور ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کرتے ہوئے تمام افسران سے صورتحال پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سڑکیں اور کاروبار بند کر دئیے گئے ہیں، سکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے اور تمام امتحانات ملتوی کر دئیے گئے ہیں جبکہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک موڑ پر ہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے، کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے، میڈیا کو ریمارکس چلانے سے روکا جائے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے۔ 
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت سے استدعا کی کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں، معلومات لینے کا وقت دیں تو جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ملکی حالات کا علم نہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی، میں راستوں کی بندش کیخلاف ہوں مگر عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے، مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ 
دوران سماعت درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ خیبرپختونخوا کے سوا سارے ملک کی شاہراہوں کو بند کردیا گیا ہے، لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، گھروں میں گھسا جا رہا ہے، حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ماضی میں بھی احتجاج کیلئے جگہ مختص کی گئی تھی، میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کیلئے درخواست دی تھی، اس پر کیا فیصلہ ہوا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ پولیس وکلاءکو بھی گھروں میں گھس کر گرفتار کر رہی ہے، سابق جج ناصرہ جاوید کے گھر بھی رات گئے چھاپہ مارا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان دو مرتبہ سری نگر ہائی وے پر دھرنا دے چکے ہیں، بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں لانگ مارچ کر چکے ہیں، اب بھی مظاہرین کیلئے جگہ مختص کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے چیف کمشنر اسلام آباد ،ڈی سی اسلام آباد، آئی جی، سیکرٹری داخلہ اور ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کرتے ہوئے تمام افسران سے صوتحال پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا جبکہ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواءکیس میں جاری احکامات بھی طلب کرلئے۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو لانگ مارچ کیلئے متبادل جگہ دینے کیلئے چیف کمشنر اسلام آباد کو انتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف کمشنر اسلام آباد کو حکم دیا کہ لانگ مارچ کیلئے مناسب جگہ فراہم کی جائے اور لانگ مارچ کی جگہ تک رسائی کیلئے ٹریفک پلان ترتیب دیا جائے، پی ٹی آئی والے اپنا احتجاج کریں اور گھروں کو جائیں، حکومت سے توقع رکھتے ہیں راستوں کی بندش ختم کرے گی، پی ٹی آئی سے یقین دہانی بھی لیں گے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کو قیادت سے ہدایت لینے کیلئے اڑھائی بجے تک کا وقت دیدیا۔ عدالت نے نے پی ٹی آئی اور ضلعی انتظامیہ کو متبادل جگہ کے تعین کی ہدایت کرتے ہوئے انتظامات سے آگاہ کرنے کا حکم دیا۔ 

تبصرے بند ہیں.