جناب چیف جسٹس یہ دادرسی بھی ضروری ہے …!

38

اخبارات میں مسلم لیگ ن کے سینٹر محترم عرفان صدیقی کا ایک ٹویٹر پیغام چھپا ہے جس میں انھوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عزت مآب اطہر من اللہ کی یہ کہہ کر تحسین کی ہے کہ انہیں اچھا لگا کہ جناب چیف جسٹس نے آدھی رات کو عدالت لگا کر تحریک انصاف کی راہنما اور سابق وفاقی وزیر محترمہ شیریں مزاری کی دادرسی کی اور ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے معاملے کی جوڈیشنل انکوائری کرانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ ساتھ ہی جناب عرفان صدیقی نے چیف جسٹس سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ ان (عرفان صدیقی) کو ہتھکڑیاں لگانے اور اڈیالہ جیل میں ڈالنے کی بھی جوڈیشنل انکوائری کرائیں تاکہ ان کی بھی دادرسی ہو سکے۔
محترم عرفان صدیقی کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے نام یہ پیغام یا اپیل انتہائی اہمیت کی حامل سمجھی جا سکتی ہے ۔ اس لیے کہ جناب عرفان صدیقی کے ساتھ 27جولائی 2019کی آدھی رات کو ان کے گھر کے باہر جو کچھ ہوا ، جس طرح پولیس کی کئی گاڑیوں اور ڈالوں نے ان کے گھر کو گھیرے میں لیا، اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کے لگ بھگ دو درجن باوردی اور سفید کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے انہیں زبردستی اور رات کے لباس میں دھکے دیکر پولیس وین میں ڈالا اور تھانے لے گئے ۔ رات بھر تھانے میں محبوس رکھا ، کسی سے ملنے بھی نہ دیا اور اگلے دن اسسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ نے دو ہفتے کے جوڈیشنل ریمانڈ پر انہیں اڈیالہ جیل بھیج دیا، اڈیالہ جیل میں انہیں سنگین مقدمات کے ملزمان کے ساتھ قصوری چکی میں رکھا گیا۔ یہ سب کچھ اتنا ہوش ربا ، اتنا تکلیف دہ ، اتنا لرزہ خیز ، اتنا روح فرسا اور قانون اورتعزیرات پاکستان کی دفعات کے ساتھ بد ترین مذاق اور اندھے انتقام کی ایسی بھونڈی مثال ہے کہ جس کی نظیر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔
ڈاکٹر شیریں مزاری یقینا خوش نصیب ہیں کہ ان کی گرفتاری کے 12گھنٹوں کے اندر ان کی دادرسی ہوئی اور انہیں ضروری ریلیف مل گئی۔ حالانکہ ان کے مرحوم والد سردار عاشق محمود خان مزاری سمیت ڈاکٹر شیریں مزاری اور ان کے گھرانے پر ایسے الزامات کب سے چلے آرہے ہیں کہ ان کے والد گرامی نے اپنی ہزاروں کنال پر مشتمل اراضی کو زرعی اصلاحات کے تحت تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے محکمہ مال کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے زمین کے ریکارڈ میں جعل سازی سے ردوبدل کیا اور اصلی کاغذات کو محکمہ مال کے ریکارڈ سے چوری کرکے یا نکال کر ان کی جگہ جعلی کاغذات اور دستاویزات ریکارڈ میں شامل کیں۔
سینئر صحافی ، مشہور کالم نگار اور اینکر پرسن جناب جاوید چودھری نے تقریباً ایک آدھ ماہ قبل ایک قومی معاصر میں "شیریں مزاری اور 40ہزار کنال زمین "کے عنوان سے چھپنے والے اپنے کالم میں اس معاملے کے حوالے سے بعض ایسے ہوش ربا
انکشافات کیے ہیں کہ جن سے ڈاکٹر شیریں مزاری اور ان کے گھرانے کے دیگر افراد کا جعل سازی میں ملوث ہونے کا پتا چلتا ہے۔ جناب جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ محترمہ شیریں مزاری کے والد سردار عاشق محمود خان مزاری پنجاب کے آخری ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے بڑے فیوڈل لارڈ تھے یہ ہزاروں ایکٹر زمین کے مالک تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب لینڈ ریفارم کے تحت فیوڈل لارڈ زسے زمینیں لے کر مزارعوں اور ہاریوں میں تقسیم کر نا شروع کیں تو سردار عاشق مزاری کی زمین بھی تقسیم ہونی تھی۔ اس موقع پر زمین کے ریکارڈ میں جعل سازی سے ردوبدل کیا گیا اور اصلی ریکارڈ محکمہ مال کے ہاں سے غائب کر دیاگیا۔ جناب جاوید چودھری کے مطابق حلقے کے پٹواری نے زمینوں کا اصلی ریکارڈایک صندوق میں بند کرکے اپنے نائب قاصد کے حوالے کر دیا تاکہ وہاں یہ ریکارڈ محفوظ رہے۔ اس دوران پاکستان لینڈ ریفارم کمیشن اور سردار عاشق مزاری خاندان کے درمیان زمین کی ملکیت کا کیس چلتا رہا یہاں تک اس میں 51برس گزر گئے ۔سردار عاشق مزاری کا انتقال ہوا تو شیریں  مزار ی ، ان کے بھائی ولی محمد مزاری اور ان کی والدہ در شہوار مزاری اس زمین (پراپرٹی) کے مالکان ہوئے۔
جاوید کے مطابق شیریں مزاری کا پورا نام شہرین مہر انساء مزاری ہے ۔ نادرا کے ریکارڈ میں ان کی تاریخ پیدائش 6جولائی 1951ہے جبکہ گوگل میں ان کی Date of Birth  26 اپریل 1966آتی ہے۔ ان کی عمر میں 15سال کا فرق کیوں ہے؟ جناب جاوید چودھری کے کالم کے مطابق تفتیش کاروں کا دعویٰ ہے کہ شیریں مزاری کے وکیل عمر کے اس فرق (15سال کم عمر) کی بنیاد پریہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جب یہ مسئلہ اٹھا توشیریں مزاری کی عمر صرف 5سال تھی اور وہ ریکارڈ میں گڑ بڑ کیسے کر سکتی تھی۔ جناب جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ شریں مزاری کے وکلاء کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ شیریں مزاری کی عمر اس وقت  20کی بجائے پانچ سال تھی ۔ خیر جاوید چودھری کے کالم کے مطابق ریکارڈ میں خرد برد اور جعلی ردو بدل کرنے کے خلاف مزاری خاندان کے خلاف تفتیش چلتی رہی۔ اس دوران ریکارڈ غائب کرنے والا پٹواری اور گرداور وغیرہ ریٹائرڈ ہوئے اور فوت بھی ہوگئے۔ نائب قاصد جس کے گھر میں اصل ریکارڈ کا صندوق رکھوایا گیا تھا وہ بھی فوت ہوگیا ۔ محکمہ انٹی کرپشن پنجاب اور مزاری خاندان کے درمیان یہ کیس چلتا رہا ۔ کچھ عرصہ قبل رائے منظور نام کے ایک نیک نام بیوروکریٹ محکمہ انٹی کرپشن پنجاب کے سربراہ بن کر آئے تو نصف صدی پرانے اس کیس کو نئی جہت ملی ۔ انھوں نے جعل سازی کے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر تفتیش اور سنجیدہ کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ 40ہزار کنال اراضی کے اصل ریکارڈ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس پیش رفت پر سابقہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے رائے منظور کو وزیر اعلیٰ ہاوس بلا کر یہ دھمکی دی کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کو روک دیں ورنہ انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ اس دوران عثمان بزدار کی حکومت ختم ہوگئی تو رائے منظور محترمہ شیریں مزاری کے خلاف پولیس میں درج ایف آئی آر کے مطابق ضروری کارروائی کرنے کے لیے متحرک ہوگئے۔ اگلے دن شیریں مزاری کی گرفتاری کا جو واقعہ پیش آیا وہ بھی اس سلسلے کی کڑی ہو سکتا ہے۔
خیر معاملے کا یہ ایک  پہلو ہے جس کی تفصیل طویل ہوگئی ہے واپس محترم عرفان صدیقی کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے نام پیغام کی طرف آتے ہیں۔ بلاشبہ جناب عرفان صدیقی یہ اپیل کرنے میں حق بجانب ہیں کہ تین سال قبل ان کے کے خلاف جو کارروائی ہوئی اور جس الزام میں انہیں قصور وار ٹھہرا کر یہ کارروائی کی گئی وہ سراز سر لغو اور جھوٹا ہی نہیں تھا بلکہ انتہائی شرمناک بھی تھا۔ محترم عرفان صدیقی کو اس بنا پر آدھی رات کو سفاکانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا کہ انھوں نے کرائے داری کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنا مکان کرائے پر دے کر پولیس کو اس بارے میں مطلع نہیں کیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ جناب عرفان صدیقی پر جس مکان کو کرائے پر دینے کا الزام لگایا گیا وہ مکان سرے سے ان کی ملکیت ہی نہیں تھااور نہ ہی اس مکان کو کرائے پر دینے کی کسی دستاویز پر ان کے دستخط تھے۔فرض محال کرائے داری کے قانون کی اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی بھی تو اس کی سزا یہ قطعاً نہیں بنتی کہ محترم عرفان صدیقی کو گرفتار کرکے اور ہتھکڑیاں لگا کر 14دن کے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا۔کرائے داری ایکٹ کی خلاف ورزی ایک معمولی جرم ہے جس کی ضمانت تھانے کا انچارج پولیس افسر موقع پر لے سکتا ہے۔
جناب عرفان صدیقی کے ساتھ تین سال قبل پولیس نے جو بہیمانہ اور شرمناک سلوک کیا اس کی کچھ تفصیل اس کالم کے شروع میں آچکی ہے تاہم اس کی ایک جھلک جناب عرفان صدیقی کے اس دور کے لکھے ہوئے ایک مضمون یا کالم میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔جناب عرفان صدیقی لکھتے ہیں :
"میری عمر پچھتر سال سے کچھ اُوپر ہے ، گزشتہ کم و بیش ساٹھ برس سے میرے دائیں ہاتھ میں ہمیشہ قلم رہا ہے ، کتاب رہی ہے یا کاغذ رہے ہیں اور میں نے لکھنے ، پڑھنے اور پڑھانے کا کام کیا ہے۔ ہفتہ 27جولائی کو میرے دائیں ہاتھ میں ہتھکڑی ڈالی گئی اور مجھے جوڈیشنل مجسٹریٹ /اسسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو میں نے اپنے ہتھکڑی والے دائیں ہاتھ میں قلم پکڑ رکھا تھا ۔ میں نے اس حالت میں محترمہ جوڈیشنل مجسٹریٹ جو میرا کیس سن رہی تھیںسے اتنی گزارش ضرورکی کہ زندگی بھر میرے اس ہاتھ میں یہ قلم رہا ہے۔ کتا ب رہی ہے یا کاغذ رہا ہے یا بلیک بورڈ پر لکھنے والا چاک رہا ہے اور آج یہ ہتھکڑی ہے ۔ اس کا آپ کسی سے پوچھیں تو سہی ۔ لیکن اس کا انھوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا ، کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ میرے وکلا ء نے بھی احتجاج کیا لیکن محترمہ نے میرا 14دن کا جوڈیشنل ریمانڈ دیکھ کر مجھے اڈیالہ جیل بھیجنے کا فیصلہ سُنا دیاـ۔”

تبصرے بند ہیں.