ڈاکٹر شیری مزاری ، ایک بہادر خاتون!

56

آج کل سیاسی حالات کچھ ایسے ہیں کہ نہ تو کچھ لکھنے کا دل کرتا ہے اور نہ ہی ڈسکس کرنے کا، کیوں کہ جب اقتدار کی ہوس آپ اندر موجود ہو تو پھر سیاست عبادت نہیں بلکہ ’’کاروبار‘‘ لگنے لگتی ہے۔ ہر شخص قواعد و ضوابط کو توڑتا نظر آتا ہے، قانون اْس کے گھر کی باندی لگنے لگتا ہے۔ حکمران طاقت کے غرور اور نشے میں چور ایسے ایسے اقدام کر جاتے ہیں کہ وہ مخالفین کو بھی نہیں دیکھتے کہ سامنے کھڑا مخالف کون ہے اور اْس کا سیاسی بیک گرائونڈ کیا ہے؟ بلکہ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ مخالف فرد مرد ہے یا عورت۔ کچھ ایسا ہی گزشتہ روز ہوا جب ڈاکٹر شیری مزاری کو پولیس نے 50سال پرانے مقدمے میں گرفتار کیا۔ اور پھر عدالت عالیہ کے حکم پر اْن کی رہائی بھی عمل میں لائی گئی، ہم اس تفصیل میں نہیں جاتے کہ مقدمہ کیا ہے کیا نہیں۔ لیکن جتنا میں اْن کو جانتی ہوں نہایت فعال سیاسی ورکر، پرسکون، مہذب اور ہمدرد خاتون ہیں۔ اگر اْن کے بیک گرائونڈ میں جائیں تو شیری مزاری کا پورا نام ’’شیریں مہرالنسا مزاری‘‘ہے، مشہور سیاستدان شیر باز خان مزاری ان کے چچا ہیں، اور عاشق محمد خان مزاری و سیاستدان اوربیوروکریٹ تھے وہ اْن کے والد تھے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے بی ایس سی آنرز ’’لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس‘‘ سے کیا، اس کے بعد اسی ادارے سے ’’ملٹری سائنس اور پولیٹیکل سائنس‘‘ میں ڈبل ایم ایس سی کیا۔ اس کے بعد انہوں نے امریکہ کی طرف رخت سفر باندھا اور وہاں کولمبیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی میں ’’ملٹری ہسٹری، جیو سٹرٹیجک، اور فارن پالیسی آف پاکستان‘‘ شامل تھے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان میں بطور صحافی کے کام شروع کیا اور پھر 2008ء میں صحافت کو خیر آباد کہہ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ وہ عمران خان کی قریبی ساتھی سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے 2012ء میں تحریک انصاف چھوڑی جبکہ مارچ 2013ء میں دوبارہ تحریک انصاف میں آگئیں اور وہ 2013ء اور 2018 میں رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔شیری مزاری کی زندگی ویسے تو کبھی نارمل نہیں رہی کیوں کہ وہ شروع ہی سے حق سچ کی بات کہنے والی پرجوش خاتون رہی ہیں۔ وہ اس حوالے سے بھی خاصی conscious ہیں کہ کوئی پاکستان کو کیوں کر برا کہے۔ وہ اس حوالے سے کئی بار جذباتی بھی ہو جاتی تھیں۔ جیسے پیپلزپارٹی کی سابق حکومت میں وہ حکمرانوں کے زیرعتاب تھیں تو اْس وقت ایک خاص واقعے کے بعد اْنہیں اپنی جان کو بہت خطرہ محسوس ہونے لگا۔ 12 مئی 2011 کو شیریں مزاری کو اسلام آباد ایف 6 کے ایک ریسٹورنٹ میں ایک امریکی مرد اور اسکے ساتھ موجود خاتون نے نفرت کا نشانہ بنایا۔ شیریں مزاری نے وہاں نرم خوئی دکھانے
کے بجائے ان کو چل کر یہ کہتے ہوئے ریسٹورنٹ چھوڑنے پر مجبور کر دیا کہ "کوئی ہر جگہ تمہاری حفاظت نہیں کر سکے گا۔اس روز ڈاکٹر شیریں مزاری کافی دیر سے ناشتہ کرنے لئے اس ریسٹورنٹ پہنچیں تھیں جب دو امریکی ایک مرد اور خاتون ان کے ساتھ والی ٹیبل پر آ کر بیٹھے۔ امریکی مرد نے اٹھتے ہوئے اپنی کرسی ان کی کرسی میں دے ماری، اسکا انداز بتا رہا تھا کہ اس نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے، شیریں مزاری اس توقع سے مڑیں کہ شاید وہ معذرت کرے گا لیکن اس نے بے نیازی سے انہیں نظر انداز کر دیا۔ یہ شخص دیکھنے میں ہی فوجی جسامت رکھنے والا لگتا تھا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کہ جب وہ اٹھیں تو انہوں نے بھی جان بوجھ اپنی کرسی اس کی کرسی سے ٹکرا دی، وہ چلا کر اٹھا اور گالی دی،اس پر انہوں نے اسے کہا کہ انہوں نے وہی کیا ہے جو اس نے ان کے ساتھ کیا تھا اور معافی بھی نہیں مانگی۔ اس پر امریکی مرد غصے میں آگیا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کہ اس موقع پر وہ اپنے غصے پرکنٹرول کھو بیٹھیں، اور اسے کہا کہ تم پاکستانیوں کو ایسے ہی گالی دے کر نہیں جا سکتے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے اسے کہا کہ تم یہاں سے بغیر کھاناکھائے ابھی اور اسی وقت فوراً ہوٹل چھوڑ دو، تمہاری یہ جرأت کیسے ہوئی کہ تم مجھے گالی دے سکو، یہ امریکہ نہیں پاکستان ہے اور تم مجھے میرے ہی ملک میں گالی نہیں دے سکتے۔ خیر معاملہ رفع دفع ہوا اور امریکی جوڑا وہاں سے چلا گیا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کے نظریات کو پاکستانیت اور دو قومی نظریے کی مضبوط آواز سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی فارن پالیسی پر بہت کھل کر بولنے والی ڈاکٹر شیریں مزاری ڈرون حملوں کی کھل کر مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ وہ امریکہ کی افغان پاکستان پالیسی کی شدید ناقد ہیں اور کہہ چکی ہیں کہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں اور اگرانہیں کچھ ہوا تو امریکی سفارتکار اور وزارت داخلہ اس کی ذمہ داری ہو گی۔اگر ہم اْن کے سابقہ دور کی بطور وزیر انسانی حقوق کی بات کریں تو انہوں نے اپنے تئیں بہت سے اچھے کام بھی کیے ہیں جن میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف بل لانا، خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے لیے انہوں نے ایک ہیلپ لائن 1099بھی قائم کی۔ جس کا عوام کو اچھا خاصا فائدہ بھی ہوا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اقوام متحدہ میں توہین مذہب کا مسئلہ بھی بڑی تگ و دو کے بعد اْٹھایا۔
الغرض اک ماں اک بیٹی اور اک بیوی کی حیثیت رکھنے والی یہ خاتون اپنی ذات میں جرأت اور بہادری کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ پاکستان کی اس بیٹی نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمیشہ سچ اور حق کے لئے آوازاٹھائی، خاص طور پر اپنی شعبے کے اندر رہتے ہوئے اس اکیلی عورت نے حکومت وقت اور سرکش امریکی جارح مزاجی کا بیک وقت سامنا کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے وطن اور مٹی سے محبت کی بات کی۔ قوم کی یہ بیٹی زبان حال سے آپ سے اور کچھ نہیں صرف ایک بیٹی اور بہن جیسی عزت مانگ رہی ہے۔ جب ہم اْسے بدلے میں گرفتار کرکے تذلیل کر رہے ہیں۔ لہٰذاہمیں ایسے اقدامات نہیں اْٹھانے چاہیے جس کے بعد ہمیں شرمندگی ہو۔ کیوں کہ شیریں مزاری جیسی خواتین پاکستان کا اثاثہ ہیں، جن کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

تبصرے بند ہیں.