اسلام ،عوام اورپاکستان

19

ملک سیاسی افراتفری کاشکارہے، سیاسی کشیدگی اپنی انتہائوں کوچھورہی ہے،ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہے ،مرنے مارنے کے اعلانات ہورہے ہیں، غداری اورباغی کے سرٹیفکیٹ بانٹے جارہے ہیں ،میرجعفراورمیرصادق کے القابات دیے جارہے ہیں،سیاسی محاذآرائی عروج پرہے۔ افراتفری اورانتشارکی فضاء ہے ، عدم برداشت خوفناک حدتک بڑھ چکی ہے ،بدکلامی ہاتھاپائی کی صورت اختیارکررہی ہے،فریقین ایک دوسرے پررکیک حملے کررہے ہیں  ،مخالف قیادت کوبرے القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیاکے ذریعے نوجوان نسل کی رگوں میں زہرگھولاجارہاہے ۔
دوسری طرف دشمن بھی سرگرم ہے ملک دشمن قوتوں کے حملوںمیں اچانک اضافہ ہوگیاہے۔ مہنگائی کے مارے عوام پریشان ہیںکدورتوں اور نفرتوں میں اضافہ ہوگیاہے،منافرت اور انتشار پھیل رہاہے، ہر طرف مایوسی ہے ۔ انسان ایسی تاریک اور بند گلی میں کھڑا ہے کہ عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہاہے کہ وہ کیاکرے؟ کس طرف جائے۔ کس کے پیچھے چلے ۔؟
ذہن میں ان سوالوں کابوجھ اٹھائے مرشدکے آستانے پرحاضرہواکیوں کہ مرشد صرف روحانی راہنما ہی نہیں ہوتا بلکہ روحانی تربیت بھی کرتا ہے۔سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کے روح رواں ،خادم الامت،فقیہ النفس حضرت پیرسیدنورزمان نقشبندی شاذلی کی محفل ایسی ہے کہ جہاںروح کوسکون ملتاہے ۔جو بھی با ادب ہو کر درویش کے در پر فیض کی نیت سے حاضر ہو تا ہے وہ خا لی جھو لی بھر کر با مراد ہو کر واپس جاتاہے اندھوں کو بینا ئی گو نگوں کو گو یا ئی با ادب لوگوں کو ہی نصیب ہو تی ہے۔مرشد وہ ذات ہوتی ہے جو مرید سے زیادہ مرید کے فائدے کو جانتی ہے کیونکہ جس راستے سے مرید گزرنا چاہتا ہے، وہ اس راستے سے گزرچکی ہوتی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ناپاک زمین کے پاک ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اتنی بارش برسے کہ گندگی کو بہا لے جائے۔ دوسرا اتنا سورج چمکے کہ نجاست کو جلادے اور اس کا نام و نشان مٹادے۔ اسی طرح قلب کی زمین کے لئے دو چیزیں ہیں۔ ایک ذکر الٰہی جس کی مثال بارش کی سی ہے۔ دوسرا شیخ کامل جس کی
مثال سورج کی سی ہے۔ ذکر سے دل صاف ہوتا ہے اور شیخ کامل کی توجہات سے بھی۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں کامل مرشد ملتے ہیں اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں مرشد کو پانے کی امنگ، آرزو اور تڑپ پیدا ہوتی ہے!!
آج تک کسی ولی کامل کو معرفتِ الٰہی ، ولایت اور مشاہد حق تعالی مرشد کامل اکمل کی بیعت اور تربیت کے بغیر حاصل نہیں ہواہم توبہت گناہ گاراور معمولی سے انسان ہیں۔ امام غزالی درس و تدریس کا سلسلہ ترک کر کے حضرت یوسف نساج کی غلامی اختیار نہ کرتے تو آج ان کا شہرہ نہ ہوتا۔ مولانا روم اگر شاہ شمس تبریز کی غلامی میں نہ آتے تو ان کو یہ مقام ہرگز نہ ملتا اور علامہ اقبال کو اگر مولانا روم سے روحانی فیض نہ ملتا تو وہ گل و بلبل کی شاعری میں ہی الجھ کررہ جاتے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔
شیخ نے فرمایاکہ سب سے پہلے توہمیں اعتدال کادامن نہیں چھوڑناچاہیے ۔تنقیدمیں بھی ہمیں احتیاط سے کام لیناچاہیے۔ ظالم بننے سے بہترہے کہ مظلوم بناجائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ شخصیت پرستی سے بچاجائے شخصیت پرستی ہدایت کے راستے میں رکاوٹ ہے ،شخصیت وہی معتبرہے جس کے اقوال وافعال اسلامی اصولوں کے مطابق ہیں،حیرت ہے کہ گوشت پوست کے انسان کولوگ دیوتابنائے پھرتے ہیں،بہرصورت قومی قیادت کو گفتگومیں احتیاط اور اعتدال کاپہلونہیں چھوڑنا چاہیے۔  قوم کو تقسیم کر کے افتراق و انتشار پھیلانے سے اجتناب بہترہے ۔
حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ایک اصول واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ولی کی پہچان کے حوالے سے سب سے بڑا اصول شریعت کی پابندی ہے کیونکہ کوئی مسلمان بھی شریعت سے بالاتر نہیں چنانچہ سب سے پہلے یہ دیکھنا اور غور سے دیکھنا لازم ہے کہ کیا وہ شخص سختی سے شریعت کا پابند ہے اور روحانیت کے آداب کا خیال رکھتا ہے۔ ذرا غور کریں تو تصنع اور اصل کا فرق واضح ہوجاتا ہے اور بناوٹی پیر کا راز فاش ہوجاتا ہے۔یہی فرق قیادت کے حوالے سے بھی ملحوظ خاطررکھناچاہیے ۔
بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے لیکن اس کی عظمت و جلالت کی وجہ سے قیادت کے کسی بھی حکم پراندھا دھند عمل نہیں کیا جاسکتا۔قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں تب ہی قابل قبول ا ور واجب العمل ہوں گے ورنہ یکلخت انھیں نامنظور کردیا جائے گا۔قرآن کاحکم ہے کہ اے ایمان والوں اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اور اپنے اولوالامر ( صاحبان امر ) کی (النسا 59 ) سور النسا کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے۔ اولوالامر(یاکسی بھی شخصیت) کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم(قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ قیادت کے احکامات و نظریات قرآن کے قطعی نصوص و احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے متضاد نہ ہوں ۔
مرشدنے مزیدفرمایاکہ پاکستان اللہ کا عطاکردہ انعام ہے سیاستدان اس کی ناقدری نہ کریں ، عزت اورذلت اللہ دیتاہے اقتدار اللہ کی طرف سے دین ہے اگرکوئی صاحب مسندہوتاہے تواسے اپنی ذمے داریاں کماحقہ اداکرناچاہیں اور اگرکوئی اقتدارسے محروم ہوجاتاہے تواسے انا کا مسئلہ نہیں بناناچاہیے ۔
میں مرشدکی محفل سے نکلا تو سارے  اعتراضات رفع ہوچکے تھے،روحانی تسکین مل چکی تھی ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کی محفل میں بیٹھ کر آپ کا دل نیکی کی طرف راغب ہو، ذکر اذکار کی جانب میلان بڑھے تو سمجھ لیجئے کہ وہ شخص ولی اللہ ہے لیکن اگر اس قسم کی واردات قلبی کا تجربہ نہ ہو تو اس کی دو وجوہ ہوتی ہیں۔ اول شیخ، شیخ کامل نہیں یا محض دکھاوے کا کھیل ہے، دوم ا گر وہ صحیح معنوں میں ولی اللہ ہے تو پھر آپ پر توجہ نہیں۔ توجہ حاصل کرنے کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے اور صاحب نظر جب تک آپ کے خلوص، پاکیزگی اور سچی لگن کا قائل نہیں ہوتا اس کی توجہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔اب آپ پوچھیں گے کہ خلوص اور لگن کا کیسے پتا چلتا ہے تو یقین رکھیئے کہ شیخ کی نگاہ قلب پر ہوتی ہے اور اسے نہ ہی صرف آپ کی قلبی کیفیت کا علم ہوتا ہے بلکہ آپ کے ذہن سے گزرنے والے خیالات سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.